اُردو اکادمی بہار کی عظمت کو سلام

حفیظ نعمانی

زیادہ پرانی بات نہیں ہے صرف چند مہینے پہلے کی ہے کہ اُترپردیش کی اُردو اکادمی نے اس سال چھپنے والی اُردو کتابوں پر انعام دیا تھا۔ ان کتابوں میں ایک کتاب ’’قلم کا سپاہی حفیظ نعمانی‘‘ بھی تھی جسے دس ہزار روپئے کا انعام دیا گیا تھا۔ وہ کتاب میرے بھانجے اویس سنبھلی نے مرتب کی تھی جس میں میرے مضامین بھی تھے لیکن زیادہ مضامین ان دوستوں اور کرم فرما صحافیوں ، ادیبوں اور دانشوروں کے تھے جو میرے مضامین ملک کے اخباروں میں پڑھتے رہے تھے اور انہیں اپنے اخبار میں چھاپتے بھی تھے۔

اُترپردیش اُردو اکادمی ملک کی پہلی اکادمی ہے جو اُردو کے مطالبہ کے جواب میں اُردو والوں کو دی گئی تھی۔ اور اُردو دنیا گواہ ہے کہ جن لوگوں نے حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کی تھی ان میں سب سے زیادہ میرا حصہ تھا۔ میں نے ایک دن کے لئے بھی اسے اُردو کے مطالبہ کا جواب تسلیم نہیں کیا۔ اور جیسا کچھ بھی لکھنا آتا ہے اس کی مخالفت میں لکھا۔ اس وقت اُترپردیش اور پورے ملک میں کانگریس کی حکومت تھی اور وزیر اعلیٰ کملا پتی ترپاٹھی تھے۔ حکومت کے اکثر بڑے یہ سمجھ رہے تھے کہ اُردو والوں کی طرف سے زبردست مخالفت ہوگی اور شاید جسے صدر یا نائب صدر بنایا جائے گا وہ وزیر اعلیٰ کے منھ پر مار دے گا۔

کملاپتی ترپاٹھی نے اپنے شاطر ساتھیو ں سے مشورہ کیا اور اس کا صدر بیگم حامدہ حبیب اللہ کو بنایا بیگم صاحبہ کہیں سے کہیں تک اُردو کی ادیبہ یا مصنفہ یا شاعرہ نہیں تھیں ایک تعلق دار خاندان کی بہو تھیں اور اودھ کی تہذیب کی نمائندہ تھیں اور اُردو بولتی تھیں ۔ اُردو والی خواتین قرۃ العین حیدر تھیں ، عصمت چغتائی تھیں اور سلطانہ حیات تھیں ۔ اور چیئرمین ایک ہندو کو بنایا جو ریٹائرڈ جج تھے یعنی آنند نرائن ملاؔ جو کشمیری پنڈت تھے اور سکریٹری صباح الدین عمر کو بنایا جو اُترپردیش سرکار کے ملازم تھے۔ صرف اس لئے کہ ان میں کوئی نہیں تھا جو مخالفت کرسکتا۔ اس کے باوجود اُردو والے اگر اُٹھ کھڑے ہوتے تو صورت حال وہ نہ ہوتی جو آج ہے کہ وہ صرف ایک سرکاری اکادمی ہے اور سب کچھ ہے مگر اُردو پڑھانے کے لئے ان کی کوئی اسکیم نہیں ہے۔ اور جب حکومت نے یہ دیکھا کہ اکادمی کی مخالفت کرنے کے بجائے اُردو والے صدر اور چیئرمین کے لئے لڑرہے ہیں اور ہر ادیب چاہتا ہے کہ میری کتاب چھاپنے کے لئے اکادمی پیسے دے اور جب چھپ جائے تو اس پر انعام دے اور سرکاری لائبریریوں کے لئے میری کچھ کتابیں خریدے تو حکومت نے سمجھ لیا کہ میدان صاف ہے اب اُردو کو جڑ سے اُکھاڑکر پھینک دیا جائے۔

اُردو کی قسمت اچھی تھی کہ مسلمانوں کے بہت بڑے، بڑے اور ہر طرح کے دینی مدارس کے ذریعے تعلیم زبان اُردو ہے اور اُردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ ہر زبان سے زیادہ ہیں اس لئے ہر سال ہزاروں لڑکے جو فارغ ہوکر نکلتے ہیں ان میں اُردو کے بہت بڑے ادیب، مصنف اور مقرر ہوکر نکلتے ہیں ۔ اور ان کے دم سے اُردو زندہ بھی ہے اور ترقی بھی کررہی ہے۔

اُترپردیش کے بعد رفتہ رفتہ ہر صوبہ میں اُردو اکادمی قائم ہوئی ان میں سے اکثر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ صرف اپنے صوبہ کے مصنفوں کو انعام دے گی اور بعض نے یہ فیصلہ کیا کہ ملک کے جس مصنف کی تصنیف قابل انعام ہے اسے انعام دیا جائے گا۔ بہار اُردو اکادمی بھی وہی ہے جس کا دسترخوان بہت وسیع ہے۔ میرے علم میں نہ تو یہ تھا کہ اویس میاں نے اُترپردیش اُردو اکادمی کو انعام کے لئے کتابیں بھیجی ہیں اور نہ یہ علم تھا کہ اور بھی کہیں بھیجی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ کتاب انہوں نے چھاپی ہے میرا تعلق یہ ہے کہ وہ میرے بارے میں ہے۔ کل شام ان کا فون آیا کہ ’’قلم کا سپاہی حفیظ نعمانی‘‘ کتاب کو بہار اُردو اکامی نے دس ہزار روپئے کا انعام دیا ہے۔

اگر کوئی خوشی کی بات ہو تو خوشی کیوں نہ ہو؟ اور زیادہ خوشی اس کی ہوئی کہ اُترپردیش اکادمی کے عہدیدار اور ناقدوں میں سے شاید ہی کوئی ہو جو حفیظ نعمانی کو نہ جانتا ہو۔ اور اس سے ملاقات نہ ہو۔ وہ نئے لوگ جو اس صدی کے 17  برسوں میں اُبھرے ہیں وہ ضرور ایسے ہوں گے جن سے ملاقات نہ ہو کہ 1990 ء سے دل کی کمزوری کی وجہ سے میں نے اپنے کو سمیٹ لیا ہے۔ اور ان سے پہلے کے تو سب ہمارے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں ۔

میں جس طرح اُترپردیش اُردو اکادمی کے ہر بڑے اور چھوٹے منصب دار سے واقف ہوں ان کی حیثیت اور ان کے کاموں سے بھی واقف ہوں ان کے نام اور ان کے مقام سے واقف ہوں اسی طرح بہار اُردو اکادمی کے کسی ایک ذمہ دار یا ناقد کو نہیں جانتا۔ نہ یہ معلوم کہ اس کا دفتر کہاں ہے۔ نہ وہاں کے کسی ادیب سے خط و کتابت ہے۔ یوپی اُردو اکادمی نے اگر انعام دیا تو ہوسکتا ہے کہ نقاب کے مضامین پڑھے بھی ہوں اور ہوسکتا ہے کہ حفیظ نعمانی ایک معلوم اور معروف نام ہے ان کے بارے میں اگر کوئی 350  صفحات کی کتاب چھپی ہے اور کور سے لے کر آخر تک ہر چیز معیاری ہے تو دس ہزار دے دینا چاہئے۔ لیکن بہار اُردو اکادمی نے انعام دیا ہے تو اس میں کہیں سے کہیں تک یہ نہیں ہے کہ کس نے کہا ہے۔ بلکہ صرف یہ ہے کہ کیا کہا ہے؟ اور اسے پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا کہ اس کتاب کو دس ہزار کا انعام دیا جائے کتاب اور صاحب کتاب کے لئے اعزاز ہے۔

بہار میں اُردو کی حالت اُترپردیش سے بہت اچھی ہے۔ بہار کے الیکشن کے موقع پر دل کا فیصلہ تھا کہ وہاں لالو یادو اور نتیش کمار کی ہی حکومت آجائے۔ ہم نے مسلسل مضامین لکھے اور بہار کے ہر اُردو اخبار نے چھاپے پڑھنے والوں کو حیرت ہوگی کہ مجھے نہ سب اخباروں کے نام معلوم اور کیسی حیرت کی بات ہے کہ جن صحافیوں نے میرے مضامین اپنے اخبار میں چھاپے ان میں سے کسی عزیز سے کوئی رابطہ نہیں نہ گفتگو ہوتی ہے سے للہٰی محبت نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ مضمون چھاپتے وقت یہ خیال نہیں ہوتا کہ اپنے دوست کا مضمون ہے اس لئے چھاپا جائے بلکہ مضمون پڑھ کر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے چھپنا چاہئے۔ یہ بھی وہی بات ہے کہ انعام کا فیصلہ کرتے وقت کہیں سے کہیں تک یہ نہیں تھا کہ حفیظ بھائی کے بارے میں ہے یا فلاں ادیب کے رشتہ دار یا قریبی دوست ہیں بلکہ کتاب پڑھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے دس ہزار ملنا چاہئے۔ اسی بات پر میں نے اُترپردیش اُردو اکادمی کے خلاف تین مضمون لکھے کہ انہوں نے کتابیں پڑھ کر انعام نہیں دیا۔ مجھے شکایت تھی ندیم صدیقی کی معرکۃ الآرا کتاب ’’پیرسو‘‘ پر جو انتہائی قیمتی کتاب ہے اور جس پر کم از کم 25  ہزار روپئے انعام دیا جاتا اسی عظیم کتاب پر پانچ ہزار روپئے دیئے اور یہی سلوک سہیل انجم کے ساتھ کیا کہ پانچ ہزار انہیں بھی دے دیئے۔ اس لئے کہ کتاب نہیں چہرہ دیکھا جاتا ہے۔ اُترپردیش اکادمی پہلی ہونے کے باوجود بہار کے مقابلہ میں کمتر ہے کیونکہ وہ چہرہ دیکھتی ہے اور بہار کی مضمون دیکھتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔