کالے دھن سے مودی سرکار کا دھندلا چہرہ

عبدالعزیز
یہ مقولہ بہت مشہور و معروف ہے کہ ’’نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم ملا خطرۂ ایمان‘‘۔ نریندر مودی نے کالے دھن کیلئے نوٹ بندی کی اسکیم اور انکم ٹیکس کے قوانین میں تبدیلی کی جو تیزی دکھائی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف نیم حکیم ہیں بلکہ نیم ملا بھی ہیں۔ ان کی حکومت میں ایمان اور جان دونوں کو خطرہ درپیش ہے۔ وزیر خزانہ مسٹر ارون جیٹلی نے مودی جی کے حکم سے جو انکم ٹیکس کے قوانین میں ترمیم کا بل لوک سبھا میں پیش کرکے اپوزیشن کی تنقید و بحث کے بغیر پاس کرالیا ہے اس میں کالا دھن کو چھپانے والوں کو جو اجازت و راحت دی گئی وہ مختلف انداز سے دی گئی ہے۔ جو لوگ انکم ٹیکس کے محکمہ کے سامنے غیر قانونی دولت کو ظاہر (Disclose) کریں گے ان کو 50فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنی پڑے گی اور ان کی بقیہ دولت سفید ہوجائے گی۔ چوتھائی رقم کو حکومت چار سال کیلئے بغیر کسی سود کے اپنی تحویل میں رکھے گی۔
اور جو لوگ ظاہر نہیں کریں گے اگر انکم ٹیکس کا محکمہ کی تفتیش کو غیر قانونی دولت یا کالا دھن ہاتھ آئے گا۔ اس میں 85 فیصد ٹیکس وصولا جائے گا۔ دونوں حالتوں میں انکم کے ذریعہ کی تحقیق و تفتیش نہیں کی جائے گی۔ ایک اور راحت آخری وقت میں کالے دھن کے اعلان کی اسکیم ذریعہ دی گئی ہے کہ اگر آخری لمحہ میں اعلان کریں گے تو انھیں 90فیصد انکم ٹیکس دینا پڑے گا اور کسی قسم کی زحمت اور تکلیف کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن کے پاس ڈھائی لاکھ روپئے ہوں گے اور انکم ٹیکس محکمہ کو شک و شبہ ہوگا تو اس کی تفتیش بھی کی جاسکتی ہے۔
حکومت یا وزارت خزانہ کا یہ کس قدر قابل تعریف کام ہے کہ جو لوگ کیش (Cash)کی شکل میں کالے دھن کو رکھیں گے انھیں حکومت بغیر کسی تاخیر کے flush (صاف ستھرا ) کر دے گی ۔ ان کا نام چوروں کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا جائے گا اور اس دولت کو حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرے گی۔ پرانے زمانے کی لوگ کہانی بتاتے ہیں کہ کوئی سلطانہ ڈاکو تھا۔ وہ امیروں کے گھروں پر ڈکیتی کرکے لوٹتا تھا اور غریب عوام پر آدھی سے زیادہ دولت خرچ کرتا تھا جس سے غریب عوام میں اس کی بڑی مقبولیت تھی۔ حکومت نے ایسا قانون بنا کر سلطانہ ڈاکو کی اسکیم کو نافذ العمل تو بنا دیا ہے مگر وہ 50-50 کی چوری کا بھی کیا حال ہوگا وہ بعد میں ہی معلوم ہوگا۔
جس اسکیم کو پیش کیا گیا ہے وہ در اصل انکم ٹیکس محکمہ کا یہ اعتراف و اعلان ہے کہ وہ کالے دھن کی چوری کرنے والوں کو پکڑنے سے قاصر ہے۔ ہاں چوری میں حصہ بخرہ کرکے ٹیکس ریونیو کو حکومت کے خزانہ میں بڑھا سکتا ہے۔ اس سے مسائل بڑھیں گے یا مسائل کا حل ہوگا یہ ہر عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ ٹیکس ریفارم (اصلاح) کی کوشش نہیں ہے بلکہ انکم ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے والوں کیلئے حفاظت کا وہ انتظام ہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے بجائے ڈرنے کے پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ اور بے شرم ہوجائیں گے۔
کالے دھن کے معاملے میں انکم ٹیکس کے تعلق سے بار بار یا متواتر نئے نئے انداز سے اعلان و اظہار ایماندار اور غیر ایماندار دونوں قسم کے لوگوں کو غیر یقینی صورت حال میں مبتلا کر دے گا کہ آئندہ کالے دھن یا انکم ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ میں کیا اعلان ہونے والا ہے۔
حکومت کی اس اسکیم اور پالیسی سے ایماندار ہی دبے سہمے رہیں گے کیونکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہر ایک مجرم سمجھا جائے گا جب تک کہ اس کے دھن یا دولت کی تفتیش مکمل نہیں ہوگی۔ ان چیزوں سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت یا ریزرو بینک نے اپنے گیم پلان کے سلسلہ میں کافی غور و خوض سے کام نہیں لیا۔ جو لوگ بے ایمان یا چور ہیں ان کی توقعات حکومت سے بڑھ جائے گی کہ کیا اور کھڑکی مستقبل میں کھلنے والی ہے جس کے ذریعہ جرمانہ دے کر کالے دھن کو سفید کیا جاسکتا ہے۔ ان چیزوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کالا دھن حاصل کرنے کی اسکیم فلاپ ہوگئی اور حکومت غیر قانونی دولت رکھنے والوں کو راحت پہنچانے میں منہمک ہوگئی ہے۔
انسان کے قانون میں جو خرابیاں ہوتی ہیں اور اس کا جو حشر ہوتا ہے اس کا تجربہ و مشاہدہ انسان آئے دن کرتا ہے مگر اس سے اپنی بیوقوفی کی وجہ سے سبق لینا نہیں چاہتا ہے ۔ انکم ٹیکس کے اس ترمیم شدہ قانون کا تجزیہ کیا جائے تو آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ چوروں کو یہ کہہ کر شہ دی جارہی ہے کہ چوری تم کرسکتے ہو مگر آدھی رقم یا دولت حکومت کے خزانے میں جمع کرنی ہوگی۔ اس عمل سے تمہیں ایمانداری کی سند حکومت آسانی بہم پہنچائے گی۔ یہ تو ایسا ہوا کہ حکومت ایسا قانون بنا دے کہ جو لوگ ڈکیتی کرتے ہیں وہ کرسکتے وہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ ہاں انھیں ڈکیتی کی آدھی رقم حکومت کے خزانہ میں جمع کرنی ہوگی۔ اس طرح چوری، ڈکیتی اور اس طرح کے دوسرے تمام جرائم کی سزا نہ صرف ہلکی ہوجائے گی بلکہ روپئے پیسے خرچ کرنے سے معاف کر دی جائے گی یا ختم کر دی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساشتر میں لکھا ہوا ہے کہ جو حکومت بیوپار کرنے پر آمادہ ہوگی وہ حکومت نسٹ اور کرپٹ ہوجائے گی۔ مودی حکومت سے بھی یہی توقع شروع سے تھی اور ہے کہ وہ بیوپاریوں کی حکومت ہے ۔ حکومت کی طرف سے جو سارے کام یا اسکیمیں اعلان کی جائیں گی واسطہ بالواسطہ اس سے بیوپاریوں یا پونجی پتیوں کا ہی فائدہ ہوگا۔ انکم ٹیکس کے ترمیمی قانون سے بھی اگر کوئی اس حقیقت کو نہ سمجھنا چاہے تو بھلا اور کس بات یا دلیل سے سمجھے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔