کامن سول کوڈ

کامن سول کوڈ کے نفاذ  سے ہندو، سکھ اور عیسائی مذہب خطرے میں پڑ جائے گا

مہدی حسن عینی

سینکڑوں تہذيبوں، زبانوں، قوموں، اور مذاہب  والے ملک بھارت میں آرٹیکل 44 کے مطابق اگر کامن سول کوڈ (جو ممکن نہیں) لاگو کیا گیا تو ہندو، سکھ، پارسی، و عیسائی مذہب خطرے میں پڑ جائیں گے،
برہمنوں   کو ملک چھوڑنا ہو گا، یا پھر سرکاری غلامی کرنی هوگی ،
ہمارے ملک میں ہر مذہب اور ذات کے لوگوں کے مختلف پرسنل لاء ہیں جو آئین کے خلاف ہے لیکن مذھب کی بنیاد پر خصوصی حقوق کی وجہ سے رائج ہیں مثلاﹰ

(01) گووا کے ہندو خواتین کو اگر 25 سال کی عمر تک بچہ نہیں ہوا (یا 30 سال کی عمر تک بیٹا) تو اس کا شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے.
(یہ بیٹا بیٹی میں قانونی امتیاز کیا گیا ہے.) لیکن گووا کا  مسلم دوسری شادی نہیں کر سکتا.

2) کرناٹکی برہمن اپنی بھانجی سے شادی کر سکتا ہے، لیکن مہاراشٹر کا برہمن نہیں کر سکتا.

3) بینک میں کوئی ہاتھ میں چیونگم  بلیڈ بھی لے جائے تو گرفتار کیا جا سکتا ہے، لیکن سکھ سردار تلوار بھی لے جا سکتے ہیں.

4) سکھ خاتون بغیر ہیلمٹ کے بائک چلا سکتی ہے، کیونکہ سکھ مذہب میں خواتین کا ٹوپی پہننا غیر قانونی ہے.

5) جین مرد، نكوباري ہندو مرد و عورتیں اور ہندو ناگا سادھو مرد کو مادرزاد برہنہ رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن کوئی دوسرے مذہب کے لوگ اس طرح ننگے رہیں  تو پولیس گرفتار کرلیتی ہے. جین مذھب کے خواتین کو برہنہ  رہنے کا حق نہیں ہے.

6) گووا کے چرچ میں ہوئے کسی کیتھولک کے شادی کے بعد وہ عدالت کی مرضی کے بغیر طلاق دے سکتا ہے،لیکن  مسلم ایسا نہیں کرسکتا.

7) سکھ فوجی داڑھی رکھ سکتا ہے، مسلم نہیں.

8) سکھ پائلٹ پگڑی  پہن سکتا ہے، ہندو نہیں.

9) آسام کے ایسے چار ضلع ہیں، جہا قبائلی ہی زمین خرید سکتا ہے برہمن نہیں.

10) کشمیر کی طرح ناگالینڈ اور کچھ شمالی مشرقی ریاستوں کو بھی خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا ہے.

11) صرف ہندو قبائلی بھالا، چاقو اور دیگر کچھ ہتھیار رکھ سکتے ہیں ہے، دوسرے نہیں.

12) اگياري (پارسی مزار) میں صرف پارسی جا سکتے ہیں، دوسرے نہیں.

13) سومناتھ و پشپتی  ناتھ مندر میں صرف ہندو جا سکتے ہیں، دوسرے نہیں.

14) کیرالہ میں صرف كرشچن شراب پی سکتا ہے، بیچ سکتا ہے، ہندو نہیں.

بھارت میں ہی ایسے قریب 200 ذاتوں، و مذاہب کے مختلف پرسنل لاء ہیں جو انہیں آئین کے برعکس ذات یا مذہب کی بنیاد پر حاصل ہیں،
اس لئے 125 کروڑ ہندوستانی  شہریوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی کامن سول کوڈ آیا، یا کسی بھی مذہب یا ذات کے لوگوں کے ذاتی حقوق  میں حکومت یا عدالت نے دخل اندازی کی تو یہ ڈكٹیٹرشپ ہو گی،
اور یہ ملک کو خانہ جنگی کی اور ڈھكیلنا ہوگا.
، کیونکہ "یکساں سول کوڈ” کا مطلب حکومت کی غلامی ہوگی،
سرجیکل اسٹرائك، جیسے حساس مسئلے سے توجہ ہٹانے اور ووٹوں کے پولرائزیشن کے لئے جس طرح سے مرکزی حکومت  ایک مخصوص کمیونٹی  کو نشانہ بنا رہی ہے.
ایسے میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، جینی، سمیت تمام انصاف پسند اہل وطن کو مل کر حکومت پر دباؤ بنانا چاہیے کہ "کامن سول کوڈ”
جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے، اس لئے تمام شہریوں کو آئین سے ملی مذہبی آزادی پر ہرگز آنچ نہیں آنا چاہیے، امبیڈکر اور گاندھی کے ماننے والوں کی یہی ذمہ داری ہے،

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔