حضرت عمرؓ کی زندگی میں خواتین کا کردار (دوسری قسط)

تحریر: پروفیسر بدرالدین۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز

حضرت عمرؓ اپنی جسمانی ساخت اور اعمال کے لحاظ سے تو ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے ہی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بھی ایک بارعب، پر وقار اور کشادہ پیشانی میں دکھائی دیتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے ایک سیاہ رخ باندی کو دف بجانے کی اجازت دے دی جس نے نذر مانی تھی کہ اگر وہ صحیح و سالم واپس آئی تو حضرتؐ کے سامنے دف بجائے گی۔ اچانک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجا رہی تھی۔ دوسرے صحابہ کرامؓ بھی موجود تھے۔ اسی دوران حضرت عمرؓ تشریف لے آئے۔ بس ان کا آنا تھا کہ باندی رک گئی اور دف چھپانے لگی۔ حضورؐ نے اس پوزیشن کو ملاحظہ فرمایا تو کہنے لگے: اے عمرؓ! تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حریرہ پکایا اور حضرت سودہؓ کو دعوت دی کہ وہ بھی شریک ہوجائیں۔ انھوں نے انکار کیا تو حضرت عائشہؓ نے ان پر زور دیا کہ یا تو کھاؤ ورنہ تمہیں زبردستی کھلاؤں گی۔ انھوں نے پھر بھی انکار کیا تو حضرت عائشہؓ نے ان کو زبردستی کھلا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب دیکھ رہے تھے۔ آپ مسکرائے اور حریرہ حضرت سودہؓ کی طرف رکھ کر فرمایا: تم بھی ان کو زبردستی کھلاؤ۔ چنانچہ حضرت سودہؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ وہاں سے گزرے تو حضورؐ نے ان کو آواز دی اور جب دیکھا کہ وہ عنقریب مکان میں داخل ہونے والے ہیں تو ان دونوں سے کہا: جاؤ دونوں اپنے منہ دھولو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں ہمیشہ عمرؓ سے ڈرتی ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی ہیبت کا خیال رکھتے ہیں اور اسی احتیاط کے نقطۂ نظر سے حضرت عائشہؓ زیارت مزار میں بھی تحفظ کا خیال فرماتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ دوپٹہ اوڑھا اور کپڑوں کو زیادہ رکھا، کیونکہ میرے شوہر اور میرے والد مدفون ہیں اور جب حضرت عمرؓ کی تدفین ان کے پہلو میں ہوئی تو میں نے درمیان میں دیوار بنالی۔
ایک مرتبہ ایک عورت اپنے شوہر کو حضرت عمرؓ کے پاس لے کر آئی جو پراگندہ لباس، غبار زدہ بدنما انسان تھا اور عورت اس سے چھٹکارا چاہتی تھی۔ آپؓ نے مرد کو حکم دیا کہ غسل کرے، ناخن کٹوائے، بال درست کرائے، پھر آپ نے اس شخص سے اور اہل مجلس سے مخاطب ہوکر کہا: اسی طرح تم سب بھی بناؤ سنگار کرو، کیونکہ تم جس طرح عورتوں کو حسین دیکھنا چاہتے ہو، وہ بھی تمہیں خو ب صورت دیکھنا پسند کرتی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کو نکاح کا پیغام دیا۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں اور انہی کی معرفت بات ہوئی۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓ سے تو کہہ دیا؛ جیسا آپ چاہیں۔ اس کے بعد اپنی بہن سے معلوم کیا۔ انھوں نے صاف انکار کردیا۔ اس پر حضرت عائشہؓ کو غصہ آیا اور ڈانٹ کر کہا: تم امیر المومنین کی خواہش سے گریز کر رہی ہو۔ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عورتوں کے معاملے میں نہایت سخت اور کھردری زندگی رکھنے والے ہیں۔ اب انھوں نے مسئلہ کو نرمی سے ختم کرنے کیلئے حضرت عمرو بن العاصؓ کو واسطہ بنایا اور ان سے کہاکہ حضرت عمرؓ کو نرمی سے سمجھا بجھا کر ام کلثومؓ کے انکار سے مطلع کریں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ ان کے پاس پہنچے اور کہاکہ مجھے ایسی خبر ملی ہے۔ کیا آپؓ نے ام کلثومؓ بنت ابوبکرؓ کیلئے پیام دیا تھا۔ وہ بولے: ہاں! کیا تم مجھے ان کیلئے مناسب نہیں سمجھتے یا انھیں مناسب نہیں سمجھتے۔ اس پر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا: بات در اصل یہ ہے کہ وہ ایک نوخیز لڑکی ہیں اور امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سایۂ عاطفت میں پلی ہیں اور آپؓ کے اندر شدت اور سختی ہے، جس سے ہم لوگ بھی خوف کھاتے ہیں تو اس لڑکی نے اگر آپ کے رشتہ پر اچھا رد عمل نہیں کیا تو کیا بعید ہے۔ اور پھر آپؓ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے جانشین ہیں۔ ان کی اولاد کے معاملے میں بھی سرپرست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب فاروق اعظمؓ سمجھ گئے کہ اس گفتگو کے پس پردہ کون ہے۔ اس لئے آپؓ نے فرمایا: اچھا تو حضرت عائشہؓ کا کیا خیال ہے۔ تم نے ضرور ان سے بات کی ہوگی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ بولے: ہاں! میں ان کی طرف سے ہی آیا ہوں۔ اس طرح یہ معاملہ ختم ہوا۔
مگر اس واقعہ سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ عام طور پر خواتین ان سے گھبراتی ہوں گی یا ان کا رویہ اپنی ازواج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کی مثال ہمیں ان کی ازواج میں عاصیہ نامی خاتون میں ملے گی، جن کا نام حضورؐ نے بدل کر جمیلہؓ رکھ دیا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ کبھی شوہر سے دوری گوارہ نہ کرتیں اور جب کبھی حضرت عمرؓ باہر تشریف لے جاتے تو ان سے دل نوازی کا اظہار کرتیں اور واپسی تک بے چینی سے منتظر رہتیں۔ ان کی دوسری بیوی عاتکہ بنت زیدؓ نہایت حسین و جمیل، دیندار اور بلیغ ادب سے اچھی واقفیت رکھنے والی خاتون تھیں۔ جب فاروق اعظم شہید کر دیئے گئے تو دوسری خواتین کی طرح یہ بھی گریہ وزارتی سے بے جان ہوگئی تھیں اور نہایت درد بھرے قصائد میں اپنے تاثرات بیان کئے:
یا لیلۃ حبست علی نجومہا ۔۔۔ فسہرتھا والشامتون ہجود
قد کان یسھرنی حزارۃ مرۃ ۔۔۔ فالیوم حق لعینی التسہید
(’’اے وہ شب کہ جس کے ستاروں کو مجھ پر مقید کر دیا گیا ہے اور اس میں جاگ رہی ہوں اس حال میں کہ طعنہ زنی کرنے والے گہری نیند میں محو خواب ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب تمہاری دارو گیر کا خوف مجھے بیدار رکھتا تھا اور آج نہایت نرم بن جانا آنکھوں کا حق ہوگیا ہے‘‘)۔
اس طرح کے اشعار صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کو فاروق اعظم کی ظاہری خشونت کے پس پردہ رحم و کرم اور لطف و مہربانی کے اوصاف سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ہو۔
فاروق اعظمؓ کو اگر خواتین سے کسی قدر گریز تھا تو وہ ان کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے، اس لئے آپؓ نے نو خیز عورتوں کیلئے فرمایا: علیکم بالابکار (تم کنواری عورتوں سے ہوشیار رہو)۔ اس کے علاوہ آپؓ نے حکم دیا: علیکم لہن لانھن اکثر حبا و اقل خبا (تم ان کی طرف سے باخبر رہو، کیونکہ ان میں محبت زیادہ اور مایوسی کم ہوتی ہے)۔ فاروق اعظمؓ کی نگاہ معمولی سے معمولی فتنہ کو بھی ابھرتے ہی بھانپ لیتی تھی۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ عرب لوگ عجمی عورتوں سے شادیاں کرنے کی طرف راغب ہورہے ہیں تو آپؓ نے فرمایا: عجمی عورتوں میں نرم گفتاری کا فتنہ ہوتا ہے۔ اگر تم نے ان کی طرف توجہ دی تو تمہاری عورتوں پر غلبہ حاصل کرلیں گی اور اس فتنہ سے بچنا ہی لازم ہے۔
آپؓ جہاں خواتین کے خیر و شر دونوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے تھے وہاں عورتوں کی نفسیات اور ضروریات، ان پر ظلم و ستم یا بے جا رویے کی بھی پوری نگہبانی فرماتے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک اعرابیہ کو مندرجہ ذیل اشعار پڑھتے ہوئے سنا ؂
فمنھن من تسقی بعذب مبرد ۔۔۔ نقاح فتلکم عند ذلک قرت
و منھن من تسقی باخضر آجن ۔۔۔ رجاج ولولا خشیۃ اللہ مزت
(’’ان خواتین میں سے بعض وہ ہیں جو ٹھنڈے میٹھے خالص پانی سے سیرابی حاصل کرتی ہیں اور بعض وہ ہیں جو میلا، گندہ، کڑوا پانی پیتی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر خدا کا خوف نہ ہوتا تو راہ فرار اختیار کرلیتی‘‘)۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ اس کے شوہر میں کچھ عیب ہے۔ آپؓ نے اس کو بلا بھیجا اور دیکھا تو واقعی اس کا چہرہ بگڑا ہوا تھا۔ بس آپ نے اس کو پانچ سو درہم دے کر طلاق دلوادی۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ سے شکایت کی کہ اس کا شوہر خضاب لگاتا ہے اور عورت کو وہم میں ڈالتا ہے، حالانکہ اس کے کچھڑی بال ہیں۔ آپؓ نے اس شخص کو مارا اور کہا کہ تو قوم کو دھوکے میں ڈالتا ہے۔
آپؓ یہ بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ اگر عورت سے کوئی غلطی ہوگئی ہے یا کسی بنا پر اسے اسے کوئی شرعی سزا مل چکی ہے تو اس کے عیب کو مشتہر کیا جائے۔  ( جاری)
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔