کیوں نہ اسے آخری معرکہ سمجھا جائے؟

حفیظ نعمانی

بی جے پی جب جن سنگھ تھی تب بھی اس کے تین نعرے تھے رام مندر، یکساں سول کوڈ اور کشمیر کی دفعہ 370۔ رام مندر بنانے کا کام تو سپریم کورٹ کے ہاتھ میں چلا گیا، کشمیر کی دفعہ 370 کو چھیڑکر دیکھا تو اس میں اس کا امکان بھی نظر آیا کہ ہوسکتا ہے کہ مودی صاحب کو خود اس کی کبھی ضرورت پیش آجائے۔ اب لے دے کے یکساں سول کوڈ رہ گیا سو اسے انہوں نے اُترپردیش کے الیکشن کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ بی جے پی یعنی آر ایس ایس یعنی شری نریندر بھائی مودی ہمیشہ سے یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن اس طرح ہو کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوجائیں تاکہ تمام ہندوؤں کو ان کے مقابلہ پر ایک پلیٹ فارم کھڑا کرکے الیکشن جیتا جاسکے۔
2014ء کے بعد ملک کی اسمبلیوں کے 9 الیکشن ہوئے جن میں مودی صاحب کو تین میں کامیابی اور چھ میں ناکامی ہوئی۔ اب اُترپردیش، پنجاب اور گجرات یہ تین الیکشن آگے پیچھے ہونے والے ہیں اور اگر ان میں بی جے پی کو ناکامی ہوئی تو آر ایس ایس وہ سب نہ کرپائے گا جس کے لئے وہ 75 برس سے جان لڑائے ہوئے ہے۔
مودی صاحب نے اُترپردیش کے الیکشن کو لوک سبھا کے الیکشن کی طرح لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 265 سیٹوں کا نشانہ اپنے لیڈروں اور ورکروں کو دیا ہے اور یہ 265 قلعے فتح کرنے کے لئے جو توپیں لگائی ہیں ان میں پارٹی کے صدر امت شاہ اور گنگا کے پانی کی وزیر اوما بھارتی، راج ناتھ سنگھ اور وزیر دفاع جو اچانک ملک کے بڑے لیڈر بن گئے ہیں۔ لیکن نہ تو 15 لاکھ کا جھنجھنا ہے نہ بابا رام دیو کی تائید ہے نہ گجرات مادل ہے نہ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے نہ مہنگائی کا مسئلہ ہے نہ داغی سیاست دانوں کو جیل بھیجنے کا اعلان ہے نہ دو کروڑ نوجوانوں کو سرکاری نوکری ہے۔ بس ایک نعرہ ہے کہ یکساں سول کوڈ بنایا جائے گا جس سے ہر مسلمان ہندو جیسا ہوجائے گا۔ اور تھوڑے سے ووٹ وہ ملنے کی امید ہے جو تین طلاق کو زندگی کا سب سے اہم مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی آج سے پہلے بھی سیکڑوں بار کوشش کی گئی ہے۔ لیکن 32 کروڑ دیوتاؤں کو ماننے والے صرف ایک خدا کو ماننے والوں کے مقابلہ میں کیسے ایک ہوسکتے ہیں؟ جبکہ جو مردم شماری کے رجسٹر اور ووٹرلسٹ کے رجسٹر میں ہندو لکھے ہوئے ہیں ان میں بھی آدھے ہندو نہیں ہیں۔ یہ بات تو ڈاکٹر امبیڈکر نے اٹھائی تھی، اسے بار بار ہریجنوں نے اٹھایا بھی بعد میں ایک پنجاب کا ہریجن اٹھا اور اس نے کہا کہ ہم دلت ہیں ہری کی اولاد نہیں ہیں اور کانشی رام نام کے اس جیالے نے کروڑوں کو ہندوؤں سے الگ کرلیا۔
یکساں سول کوڈ کے مقابلہ پر صرف مسلم پرسنل لاء بورڈ ہی نہیں ہے بلکہ جمعیۃ علماء کے دونوں بازو اہل حدیث جماعت اسلامی ملّی کونسل اور ہر وہ مسلمان ہے جو پاک پروردگار کو حضرت محمدؐ کو اور صحابہ کرام کو مانتا ہے۔ تین طلاق ہوں یا چار شادیاں یہ شریعت کا بندوں کو تحفہ ہے۔ حکومت جب چاہے سی بی آئی اور سی آئی ڈی کے خفیہ جائزہ کرالے۔ مسلمانوں کے گھر میں دو عورتیں کم ملیں گی ہندوؤں کے گھروں میں زیادہ۔ چار شادی کرنے کا حکم نہیں ہے چار تک کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح طلاق کا حکم نہیں ہے۔ رشتہ ختم کرنے کا ایک خوبصورت راستہ ہے۔ اپنے کو ترجمہ پڑھ کر قرآن سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے جاہل ہیں۔ جو لڑکے عمر کے آٹھ سال رات دن لگاکر عربی مدرسوں میں پڑھ کر عالم کی سند لے لیتے ہیں قرآن کو سمجھنے کے لئے وہ بھی مزید ایک سال تفسیر قرآن پڑھتے ہیں۔ تب وہ مفسر مانے جاتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی بدنصیبی ہے کہ طلاق پر وہ گفتگو کرتے ہیں اور قرآن کے حوالے دیتے ہیں جنہیں مسلمانوں کی شکل بناتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اور وہ لڑکیاں ٹی وی چینل میں بلائی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ وہ شاید مقابلہ حسن میں شرکت کے لئے آئی ہیں۔ جبکہ مسلم عورت کا سر کھول کر سامنے آنا بھی حرام ہے۔
لاء کمیشن اس وقت تک قابل اعتبار نہیں ہوسکتا جب تک اس کمیشن میں ایک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نمائندہ ایک سکھ مذہب کا عالم ایک بودھ عالم اور ایک ان دلتوں کا نمائندہ نہ ہو جو اپنے کو دلت مانتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔ ایک ہندو سابق جج کو لاء کمیشن کہنا ہی ظاہر کرتا ہے کہ نیت میں کھوٹ ہے۔ مسلمانوں میں ایسے بہت سے مل جائیں گے جیسے شاہ نواز حسین ہیں۔ وہ سوال نامہ کا جواب دیں گے۔ لیکن تشریح کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہر مسلمان جو اپنے کو مسلمان کہے ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہو اسلام اور سناتن دھرم میں یہی فرق ہے کہ ہندو کے کہنے اور کرنے میں چاہے جتنا فرق ہو وہ اگر کہتا ہے کہ میں ہندو ہوں تو وہ ہندو ہے۔ لیکن مسلمان اگر شریعت پر عمل کرتا ہے اور اسلام کے پانچوں ارکان کو مانتا اور عمل بھی کرتا ہے تب وہ مسلمان ہے اور اگر ان ارکان کو نہیں مانتا تو وہ لاکھ کہے مسلمان نہیں ہے۔
صرف نریندر بھائی مودی نے ہی نہیں سارے ملک نے شاہ بانو کیس میں مسلمانوں کو دیکھا تھا کہ ہر مسلمان سڑک پر تھا۔ جبکہ بات صرف قرآن پاک کے ایک حکم کے خلاف فیصلہ کی تھی۔ اب جبکہ پورا اسلام خطرہ میں ہے تب تو ہر مسلمان آخری سانس تک اس کی حفاظت کے لئے لڑے گا۔ تین طلاق کے مسئلہ میں جیسی مسلمان کہی جانے والی خواتین دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا بنی ہوئی ہیں ان کے بارے میں صحیح تبصرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ایسی نہ جانے کتنی لڑکیاں ہیں جو اپنے کو مسلمان کہتی ہیں وہ رات کو نہ اپنے شوہر کے گھر میں ہوتی ہیں نہ ماں باپ یا بھائی کے گھر میں بلکہ دور کہیں کسی ہوٹل کے کمرہ میں رات گذارتی ہیں۔ ان سے آپ بھی پیسے دے کر کچھ بھی کہلا سکتے ہیں۔ لیکن مسلمان اپنی زبان کٹوا دیں گے اپنی شریعت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اور مودی جی سمجھ لیں کہ صرف ایک صوبہ کا الیکشن جیتنے کے لئے وہ ایسا کھیل کھیل رہے ہیں کہ اگر بات بگڑ گئی تو ملک بھی خطرہ میںآجائے گا۔
مودی جی کو اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے یہ تحقیق کرلینا چاہئے تھی کہ سامنا کن حضرات سے ہوگا؟ کل جو مولانا ولی رحمانی، مولانا ارشد مدنی اور مولانا عثمان پریس کانفرنس کو خطاب کررہے تھے وہ اپنے وقت کے برطانوی حکومت کے سب سے بڑے دشمن مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمانی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا سنت اللہ رحمانی کے بیٹے اور پوتے ہیں اور جو دوش بدوش ہیں وہ بھی سب ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے جتنی آر پار کی جنگ انگریزوں سے لڑی تھی اتنی ہی مسٹر جناح اور مسلم لیگ کے لیڈروں سے لڑی تھی۔ اور یہ چاہتے تو پاکستان میں جاکر یہ بھی بڑے بڑے عہدوں پر ہوتے لیکن انہوں نے صرف ان مسلمانوں کی خاطر جو جانے کے قابل نہیں تھے اور اگر وہ شکستہ دل ہوکر رہ جاتے تو یکساں سول کوڈ کو ہی نہیں مندروں میں گھنٹے بجانے کی خدمت سے بھی انکار نہ کرتے۔ یہ پاکستان صرف اس لئے نہیں گئے کہ انہیں یہی خطرہ تھا کہ ہندوستان میں یہ مسئلے اٹھیں گے ضرور اور جو غریب اَن پڑھ یا اسلام سے ناواقف مسلمان رہ جائیں گے وہ ہر فیصلہ کو قبول کرتے جائیں گے اور اپنی آخرت برباد کرلیں گے۔
ہم معمولی آدمی ہوتے ہوئے بھی یہ محسوس کررہے ہیں کہ مودی جی اس مسئلہ کو اٹھاکر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادینا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اسے جنگ بدر کی طرح لڑنا ہوگا کہ جیسے آقائے کائناتؐ نے آخری دعا کی تھی کہ اگر یہ تھوڑے سے تیرا نام لینے والے نہ رہے تو دنیا میں پھر تیرے نام کا لینے والا کوئی نہ رہے گا۔ ہمارے بزرگوں کو یہ دعا کرنا پڑے گی کہ جس ہندوستان میں آج 20 کروڑ تیرے سامنے سجدہ کرنے والے ہیں۔ اگر یکساں سول کوڈ پاس ہوگیا تو تیرا نام لینے والے صرف وہ رہ جائیں گے جو گھروں کے دروازے بند کرکے نماز پڑھیں گے اور صرف وہ تلاوت کریں گے جنہیں تیرا پاک کلام حفظ ہوگا۔ آج کے بعد ہر مسجد میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے کیونکہ ہمارے بزرگوں کی یہی سنت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔