کانٹوں کا تاج ہے جانشینی

ہم جتنے قریب سے چودھری چرن سنگھ کو جانتے ہیں اس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے اجیت سنگھ کو جو ہندوستان کے بجائے پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجا اور تعلیم کے بعد وہیں نوکری کرنے کی اجازت دی اور امریکہ میں ہی ان کی بیوی کو بھی بھیج دیا اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان کے سامنے اجیت سنگھ کو نہ جانشین بنانے کا مسئلہ تھا اور نہ اجیت سنگھ کو سیاست میں لانے کا۔

چودھری صاحب خود وکیل تھے، اسی لیے ان کی تقریریں بہت مدلل اور مربوط ہوا کرتی تھیں اور یہ ان کی تقریروں کا ہی اثر تھا کہ جو غیر جانب دار ہو کر ان کی تقریر سن لیتا تھا وہ ان کا حامی ہوجاتا تھا۔

1969کے الیکشن میں میرٹھ اور مظفرنگر کی 15 سیٹوںمیں سے14؍ انھوں نے جیتی تھیں۔ وہ میرٹھ کے رہنے والے تھے اور ان دونوں اضلاع میںجاٹ اکثریت میں تھے۔ لیکن وہ لکھنؤ جہاںوہ وزیر کی حیثیت سے تو برسوں رہے لیکن لکھنؤ کی سماجی یا ادبی یا سیاسی زندگی میں اس سے زیادہ نہیںرہے کہ کبھی انھوں نے جھنڈے والے پارک میں تقریر کردی۔ اس کے باوجود صرف اپنی تقریروں کے بل پر ہی 1969میں انھوں نے لکھنؤ شہر کی چاروںسیٹیں جیتیں جبکہ لکھنؤ کے بارے میںمشہور تھا کہ وہ سیاسی اعتبار سے سی بی گپتا اور بابو ترلوکی سنگھ کا ہے۔

چودھری اجیت سنگھ سے ان کے پتا جی نے کیا کہا یا کچھ نہیں کہا یہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اچانک یہ خبر سن کر اب چودھری چرن سنگھ کے جانشین اجیت سنگھ ہوںگے۔ جس زمانہ میں چودھری صاحب سرگرم سیاست اور الیکشن میں مصروف تھے ان دنوں میں بھی اجیت بابو امریکہ سے آتے رہے اور گھر کے اندر سے اس طرح آتے اور باہر اس طرح جاتے رہے کہ جیسے کوئی غیر اور بے تعلق لڑکا ہو۔ وہ ڈرائنگ روم سے گذرتے ہوئے باہر جاتے تھے اور اسی راستہ سے اندر آتے تھے۔اور ڈرائنگ روم میں ان کے باپ کے ساتھ کام کرنے والے دس پندرہ لیڈر بھی بیٹھے ہوتے تھے تو ہم نے کبھی ان کو نہ نمستے یا کسی کو آداب کرتے سنا نہ دیکھا، ہم نے دیکھا تو نہیںسنا تھا کہ جب اندرا گاندھی کا عروج تھا اس وقت سنجے گاندھی ہر وقت ان کے قریب رہتے تھے اور بعد میں وہی فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن ہم نے کملاپتی ترپاٹھی کو دیکھا تھا کہ ان کے بیٹے لوک پتی ترپاٹھی ان کے ارد گرد رہتے تھے۔

اگرچودھری صاحب کے دماغ میں جانشین بنانا ہوتا تو وہ اجیت سنگھ بابو کو اپنے پاس رکھتے۔ چودھری صاحب کے انتقال کے بعد جاٹوں نے انہیںجانشین بنایا۔ لیکن یہ نہیں سوچا کہ جس نے ایک دن بھی سیاسی لوگوں کے ساتھ نہیںگذارا وہ ہندوستان کی سیاست میں کیسے فٹ ہوگا؟ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اجیت سنگھ کبھی کسی کے ساتھ اور کبھی کسی کے ساتھ جاتے رہے اور رفتہ رفتہ جاٹ ان سے کٹتے رہے۔ اور اب وہ وقت آیا کہ انھوں نے کانگریس کے ہاتھ ملانا چاہا تو اس نے انکار کردیا اور سماج وادی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے حقیر جانا۔

اجیت سنگھ نے پھر جاٹوں کی غیرت کو للکارا اور سب سے زیادہ نشانہ بی جے پی کو بنایا کیوں اکثریت اس کے ساتھ چلی گئی تھی، چودھری صاحب جاٹ تھے ہندو نہیں تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جاٹ ہندو نہیںہوتے تھے جو تعلیم یافتہ ہوتے تھے وہ آریہ سماجی ہوتے تھے اور جو پڑھے لکھے نہیںتھے وہ صرف جاٹ تھے۔ ہم نے اپنے نانہال کے چاروں طرف بسے ہوئے جاٹوں کو دیکھا ہے وہ ہمارے نانا چودھری عبدالحکیم کو چودھری صرف کہتے ہی نہیںتھے مانتے بھی تھے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو وہ غول بنا کر نانا صاحب کے پاس آتے تھے اور مشورہ ہوتا تھا۔ نانا صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے کو حکیم بنوایا تھا اور گھر کے باہر کے حصہ میں ان کا مطب اور دواخانہ تھا جس کا مقصد صرف آس پڑوس کے مریضوں کا علاج تھا۔ وہ جاٹوںکے گائوں میںایسے بلائے جاتے تھے جیسے سگے رشتہ دار ہوں۔

بی جے پی نے جاٹوں میں مسلمانوں سے دوری پیدا کی اور انہیں ہندو بنایا۔ اب اجیت سنگھ کو اندازہ ہوا کہ ان کے باپ کے ساتھ جاٹ کیوںتھے اور ان کے پاس کیوںنہیںہیں۔ اب وہ پوری طاقت اس پر لگارہے ہیں کہ جاٹ ایسے ہی ایک ہوجائیں جیسے ان کے والد کے زمانہ میں تھے۔ وہ اب ہیلی کاپٹر پر اڑ کر ہر جگہ جاٹوں کو صرف ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ تمہارے بکھرنے سے تمہاری طاقت ختم ہوگئی۔ اب بی جے پی اور دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر صرف ایک جھنڈے کے نیچے آجائو تو پھر وہی عزت ملے گی۔

اجیت سنگھ کو یاد ہوگا کہ ان کے تلک کی تقریب میںجب پنڈتوں نے اشلوک پڑھنے شروع کیے تو 5 منٹ کے بعد چودھری صاحب نے کہا تھا کہ بس اب بند کرومیں آریہ سماجی ہوں اور جب سب کے تلک لگنے لگا تو چودھری صاحب نے آواز دی تھی کہ میرے مسلمانوں کاخیال رکھنا۔ یعنی ان کے تلک نہ لگانا۔ گھر کے اندر کی بات تو ا جیت بابو جانتے ہوںگے یا اس گھر کے داماد لیکن یہ ہر کوئی بتا سکتا ہے کہ جو کوئی بھی ہولی کے دوسرے دن گیا ہے اس نے کسی دیوار یا در پر رنگ کی کوئی بوند نہیں دیکھی اور نہ چودھری صاحب کے ہاتھوں سے یہ اندازہ ہوا کہ کل ان پر رنگ لگا ہوگا۔ ہم نے کئی برس انہیںدیکھا ،گھر پر دیکھا اور الیکشن کے زمانہ میں ہر وقت دیکھا اور جب بی کے ڈی بنانے کے لیے اندور گئے تودو دن دو رات دیکھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ وہ پوجا کررہے ہیں اور نہ یہ دیکھا کہ ان کے ماتھے پر کچھ لگا ہے۔

لباس میںوہ شیروانی اور چوڑی دار پیجامہ پسند کرتے تھے، بڑے شوق سے ایک شیروانی اس درزی سے سلوائی تھی جو جواہر لعل نہرو کا درزی تھا۔ ہم نے کبھی انہیں دھوتی پہنتے نہیںدیکھا۔ وہ صرف جاٹوں کا اتحاد چاہتے تھے ا ور دلتوں کو اپنے قریب رکھتے تھے۔ ایمانداری سے محبت اور بے ایمانی سے نفرت ان کی فطرت تھی۔ انھوں نے میرٹھ والوں کو کس طرح اپنا بنایا تھا اس کا اندازہ 1969میں اس وقت ہوا جب لکھنؤ کے وسطی حلقہ سے ہم نے امتیاز ادیب کو ٹکٹ دلوایا۔ چودھری صاحب نے ہم سے کہا کہ رکاب گنج سے ناکہ ہنڈولہ تک بیل گاڑی اور ٹھیلوں کے پہئے بنانے کے بہت سے کارخانے ہیں۔ وہ سب بڑھئی ہیںمگر اپنے کو شرما لکھتے ہیں۔ ان کے پاس جا کر کہہ دینا کہ میں نے بھیجا ہے کہ ووٹ امتیاز کو دینا۔ ہم چند دوستوں کے ساتھ گئے اور شرما جی کہہ کر مخاطب کیا تو دس منٹ میں سب ایک جگہ آگئے اور اس پر فخر کرنے لگے کہ چودھری صاحب نے بھیجا ہے۔ ووٹ کی بات تو دور وہ صرف اس پر لڑنے لگے کہ کیا کھائوگے؟ اور ایک ایک کو بلوایا کہ دیکھو انھیں چودھری صاحب نے بھیجا ہے۔ اجیت سنگھ کو اگر جانشیں بنناہے تو وہ صرف اپنے باپ کی زندگی کو اپنالیں جو لیڈر بھی تھے اور محبوب بھی تھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔