کانگریس مسلمان سے ووٹ نہ مانگے، اتحاد کرے

حفیظ نعمانی

            سیاسی پارٹیوں میں ممبر بنانے کا رواج برسوں سے ختم ہوگیا ہے، جس وقت ابتدائی ممبر بنائے جاتے تھے تو ان کے ممبروں سے کریاشیل ممبر بنتے تھے وہ صوبہ کی کمیٹی کا ممبر بناتے تھے، پھر وہ صدر سکریٹری کے الیکشن لڑتے تھے اور ان کی کوئی حیثیت ہوتی تھی۔ جب کانگریس نے یہ سانچہ توڑ دیا، تو پھر ہر پارٹی نے توڑ دیا۔ اب کچھ لوگ ہیں جن کے تعلقات ہیں وہ اپنے ملنے والوں اور دوستوں کو پارٹی میں مختلف عہدوں پر قبضہ کردیتے ہیں پھر ٹکٹ لیتے اور دیتے ہیں اور وزیر بنتے بناتے ہیں اور حکومت چلاتے ہیں۔

            ہمارا کانگریس سے بہت اور برسوں تعلق رہا ہے، اس بات کو سب سے زیادہ محسنہ قدوائی صاحبہ جانتی ہیں یا شری نرائن دت تیواری جو اب از کار رفتہ ہوگئے یا سید عمار رضوی صاحب اور کسی حد تک سراج مہدی صاحب بھی واقف ہیں۔ ہم نے سیاست کو مذہب کا درجہ نہ دیا اور نہ دینا گوارہ کرسکتے ہیں، کانگریس کی طرف سے مسلسل ایسی باتیں سامنے آتی رہیں کہ ہم نے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور یہ الگ بات ہے کہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو پھر نہیں اپنایا، اس لیے کہ آر ایس ایس کو چھوڑ کر تمام پارٹی کانگریس کا ہی دوسرا چربہ ہوتی ہیں۔

            اب کانگریس کتنی بگڑگئی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے لیے اس کے پاس کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جسے وہ اعتماد کے ساتھ سامنے لا کر کھڑا کردے۔ کیا یہ کسمپرسی نہیں ہے کہ دہلی کی ہاری ہوئی شیلادکشت جو عمر کی اس منزل میں ہیں کہ گورنر بن کر آرام کریں، انہیں اس اکھاڑے میں اتارا جارہا ہے، ایک نو عمر امنگوں سے بھرپور تعلیم یافتہ با صلاحیت اکھلیش یادو حکومت کو چلا رہا ہے اور مس مایاوتی اپنے ان تمام ووٹوں کے بل پر جو کانشی رام برسوں کی محنت سے دے گئے تھے اور جن کے بل پر وہ چار بار وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں اور جو سمجھتی ہیں کہ اب کی بار مایاسرکار اور پھر بی جے پی جس کی مرکز میں حکومت ہے اور جو اس الیکشن کو جیتنے کے لیے ملک کا آدھا خزانہ خالی کرسکتی ہے اور جو ابھی تک اس میں پریشان ہیں کہ وزیر اعلیٰ کسے بنائیں ؟ لیکن وہ تو ہوگا۔ وزیر اعلیٰ ملے گا اور سب سے زیادہ طاقت سے وہ بھی لڑے گا۔

            کانگریس اس بار ایک نعرہ کے ساتھ اترپردیش میں داخل ہوئی ہے کہ ’27 سال اترپردیش بے حال‘جس پارٹی کو م افضل جیسے منجھے ہوئے صحافی کی پوری حمایت حاصل ہو وہ ایسے ہی خوبصورت نعروں کے ساتھ الیکشن لڑے گی۔ افضل صاحب نے نہیں ہم نے ان 27 سال میں ہونے والا ہر الیکشن دیکھا ہے اور الیکشن سے پہلے لکھنؤ میں رہ کر سارے اتار چڑھائو دیکھے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ متعصب ہندوئوں کا ایک طبقہ اترپردیش میں بھی ہے اور ہمیشہ سے سرگرم ہے۔ وہی مہا سبھا ہے، وہی وشوہندو پریشد ہے اور وہی بجرنگ دل یا بی جے پی ہے، وہ نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے، جیسے دہلی کا الیکشن کہ بی جے پی نے کہا کہ ہمارے جتنے ووٹ تھے وہ ایک ایک کرکے ملا، کجریوال کو کانگریس اور دوسری پارٹیوں کے منتشر ووٹ سب کے سب مل گئے اور وہ جیت گئے۔ افضل صاحب دہلی میں رہتے ہیں اور شیلا دکشت کے قصیدوں کی ڈائری ان کے پاس ہے، وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ جیسے دہلی کو اچھا بنادیا ایسے ہی اترپردیش کو بھی اچھا بنا دیں گے اور اترپردیش کے لوگوں نے پڑوسی کی جہ سے ان کے کام کا طریقہ دیکھا تھا۔

            اگست میں سب نے دیکھا دہلی کا حال یہ تھا کہ سڑکوں پر کشتیاں چل رہی تھیں، ہر طرف پانی ہی پانی تھا، یہ کہنا کہ ایک سال میں کجریوال نے کردیا جھوٹ ہے ظلم ہے۔ ایک سال میں نہ سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں نہ پانی نکلنے کی جگہ پر کالونیاں بنتی ہیں۔ غلط جگہ مکان وہاں بنتے ہیں جہاں برسوں سے پانی نہیں آتا۔ وہ نالے جو دہلی میں پانی نکلنے کے لیے ہیں وہ برسوں سے اس لیے بند پڑے ہیں کہ پہلے اتنی بارش ہی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ نہ سوچنا کہ بارش بارش ہے، وہ کسی وقت بھی آسکتی ہے اور سارے ریکارڈ کو توڑ سکتی ہے۔

            شیلادکشت کی کارکردگی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ انھوں نے بعض کام اچھے بھی کئے۔ اگر بات ثبوت کی آئے تو وہ ایک خوبصورت پل جو کامن ویلتھ کے ڈائس پر وی وی آئی پی مہمانوں کے لیے بنوایا تھاوہ صرف ایک ہفتہ پہلے کھڑے کھڑے گر گیا جس پر ایک آدمی کا وزن بھی نہیں تھاوہ سب سے پہلے الیکشن لڑیں تو کجریوال نے یہ کہہ کے لڑا کہ اگر ہار گئے تو اپوزیشن کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے، کجریوال بالکل نووارد تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ الیکشن لڑنے سے زیادہ مذاق کررہے تھے لیکن وہ دوسرے نمبر پر آئے اور شیلا جی کو 7 سیٹیں ملیں، ، انھوں نے کجریوال سے مل کر حکومت تو بنالی اور صرف اس لیے بنالی کہ بی جے پی کی نہ بننے پائے، اس کے بعد صدر راج ہوگیا اور 2015ء میں جب الیکشن ہوا تو وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کو یہ دھن سوارہوگئی کہ وہ کجریوال کو نیست و نابود کرکے چھوڑیں گے، انھوں نے امت شاہ کو خزانہ کی چابی دے دی اور اجازت دی کہ جو بھی پارٹی کو چھوڑ کر آئے اسے ٹکٹ بھی دو نوٹ بھی اور ووٹ بھی۔ پھر ڈھونڈ کے وہ کرن جیسی بیدی کو لانا اور صرف اس لیے لانا کہ بیدی کجریوال کی مخالف ہیں۔

            نتیجہ آیا تو شیلا جی کی کانگریس صاف ہوگئی اور صاف ہو کر پرانی مخالف پارٹی بی جے پی کو چھوڑ کر اس نے کجریوال سے دشمنی کرنا شروع کردی، جس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ یہ دہلی کی ۱۵ سال کی ترقی کا انعام تھا کہ ایک نئے کجریوال سے خود ہار یں اور دوبارہ لڑیں تو پارٹی ہی صاف ہوگئی۔

            شیلا جی اگر ۱۵ سال حکومت کرکے باہر آجاتیں اور تب اترپردیش کو بنانے کی بات کرتیں تب کوئی سنتا۔ اب دہلی کی پٹی پٹائی ازکار رفتہ شاید صرف اس لیے تیار ہوگئیں کہ سونیا یہی چاہتی ہیں۔

            م افضل صاحب معتبر صحافی ہیں مگر ہمارے اور ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم سیاسی پارٹی کو مذہب کا درجہ نہیں دیتے، مسلمان ہمیشہ کانگریس میں رہتے تھے اور سوچ سمجھ کر رہتے تھے لیکن کانگریس نے انھیں اتنے دکھ دئے کہ وہ کہیں بھی چلے جاتے ہیں، کانگریس میں نہیں آتے، اب ان کے بارے میں یہ کہنا کہ مسلمان کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں، اپنے کو دھوکہ دینا ہے، مسلمان تو یہ دیکھ رہے ہیں 1993میں دو ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ہزاروں کو زخمی کرکے ممبئی سے بھگادیا اور ہزاروں صفحات کی جسٹس کرشنا رپورٹ چھپی موجود ہے مگر کسی ہندو کو تھانے میں بلا کر بند بھی نہیں کیااور جب فساد کو روکنے کے لیے بم دھماکے ہوئے اور 262 آدمی مرے تو یعقوب میمن کو پھانسی بھی ہوگئی اور پوری دنیا کی خوشامد کی جارہی ہے کہ دائود ابراہیم کو پکڑنے میں مدد کرو تا کہ اسے ہندوئوں کو مارنے کے الزام میں پھانسی دے دی جائے اور 1993میں مرکز میں بھی کانگریس تھی اور ممبئی میں بھی اس کی ہی حکومت، ایسے انصاف کے بعد بھی اگر کانگریس کو مسلمان آتے نظر آرہے ہیں تو ہوسکتا ہے وہ دو نمبر کے مسلمان ہوں۔

            میم افضل صاحب نے مسلمانوں پر احسان جتاتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس کی ہی حکومت میں سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش ہوئی اور اس پر عمل بھی ہوا، محترم صرف اتنی وضاحت فرمادیں کہ سچر کمیٹی کس تاریخ کو ہوئی اس کے بعد کتنے دن کانگریس حکومت رہی اور اتنے طویل عرصہ میں اس پر کتنا عمل کرایا اور پورا عمل نہیں کرایا تو کیوں ؟ جبکہ 2004ء سے 2014ء تک صرف مسلمانوں کے بل پر کانگریس نے حکومت کی۔ بار بار مسلم ووٹر زخم کھاتے رہے اور کانگریس کو ووٹ دیتے رہے اب یہ بتایا جائے جو بے ایمانی ممبئی میں 1993میں ہوئی کہ مسلمان 2 ہزار مرے تو کرشنا کمیشن اور ہندو 262 مرے تو سی بی آئی اور دونوں کا نتیجہ سامنے ہے۔ اس کے بعد کون کہے گا کہ مسلمان کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں سے کہیں گے جو مسلمان کانگریس کی طرف دیکھے اسے ممبئی کانقشہ دکھائو ورنہ اس کی آنکھ کا علاج کرائو۔ اوروہ نہ دیکھے تو یہ مضمون سنادو۔

            اگر کانگریس مسلمانوں کا تعاون چاہتی ہے تو صرف ایک صورت ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے سوسیٹیں جہاں قابل ذکر مسلمان ہیں چھوڑنے کا اعلان کرے اور جمعیۃ علماء کے صدر مولانا ارشد میاں سے بات کرے کہ وہ سو امیدوار دیں اور جمعیۃ کا اپنا انتخابی نشان بتائیں، الیکشن کے بعد اگر حکومت بننے کا موقع ملا تو دونوں مل کر بنائیں، مسلمانوں کے وزیر ان کی پسند کے ہوں گے، وزیر اعلیٰ کانگریس کا اور نائب وزیر اعلیٰ جماعت کا، میں نے جمعیۃ کا نام مثال کے طور پر دیا ہے، مجھے نہیں معلوم وہ لڑیں یا نہ لڑیں، ورنہ کوئی دوسری پارٹی بنائی جائے گی، جس میں پرانے کانگریسی اور ہم جیسے کانگریس کی مدد کرنے والے اور کھلا ذہن رکھنے والے ہوں گے، لیکن ان پر حکم نہیں چلے گا اگر یہ نہیں ہوگا تو مسلمان کو ہم کانگریس میں نہیں آنے دیں گے، اسے غلام نبی آزاد، م افضل اور حاجی سراج مہدی سے ہی کام چلانا پڑے گا۔

            اگر تجویز سمجھ میں آتی ہے تو پھر کیرالا کی طرح الیکشن لڑنا پڑے گا، مسلمان بولنے اور لڑانے ہر جگہ جائیں گے اور راج ببر، غلام نبی آزاد، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی ہر مسلمان کو کامیاب کرانے میں مدد کریں گی، اگریہ ہوتا ہے تو کانگریس کی زندگی ہے ورنہ گھر کے اندر ہی جشن مناتے رہیں، رجت شرما نے ۱۰ سیٹیں دے دی ہیں، آخری بات جیسے بہار میں لالواور نتیش میں دوستانہ معاہدہ ہوا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔