پیغـــامِ عیـــدِ اضحــــٰی

ابــوہــریــرہ یــوســــفی قاسمی

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عضیم ترین سنت ہے، اس عمل قربانی کو اسلام نے کثیر اجر وثواب کا مظہر بنایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے تاقیامت ہمہ سال دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک ہر صاحب استطاعت مسلمان کے لئے ایک واجبی عمل قرار دیا گیا ہے۔

قربانی دراصل ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ زندگی ہی سے ملی ہے اور یہ اس وقت کی ایک یادگار ہے کہ ابراہیم علیہ السلام متواتر تین دن تک محوِ خواب تھے کہ میں اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہا ہوں، انبیاء کرام کا خواب چونکہ وحی کے درجے میں ہوتا ہے، اس لئے آپ نے خواب کی حقیقت اپنے بیٹے کے سامنے بیان کیا اور کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے میں خواب میں تم کو ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ حضرت اسماعیل نے یہ کلمات سنتے ہوئے بلا جھجھک بول اٹھے کہ اے ابا حضور! آپ کو جس کا حکم دیا جارہا ہے، اس کو کر گزریئے، ان شاءاللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ابھی کمسنی کے دور سے گزررہے ہیں، باوجود اس کے بھی راہِ خدا میں جاں فشانی کا جذبہ دیکھیئے کہ ابھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو حکم نہیں دے رہے ہیں، محض ایک خواب کا تذکرہ کررہے ہیں، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام فوراً اپنی جان قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام بھی اس خواب کو اللہ کا حکم سمجھ کراپنے نورِ نظر کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، چنانچہ آپ اپنے بیٹے کو قربان گاہ پر لے جاتے ہیں، زمین پر لٹاتے ہیں اور خالص اللہ کے لئے چھری چلاتے ہیں، پھر من جانب اللہ آواز آنے لگتی ہے کہ اے ابراہیم تونے واقعی خواب کو سچا کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی پوری کوشش کی اور بیٹے نے والد بزرگوار کو خوب حوصلہ بھی دلایا کہ چھری مزید تیز چلایئے، تاہم خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسماعیل علیہ السلام کی گردن مبارک میں خراش تک نہیں آئی، یہاں اللہ رب العزت کا مقصد گردن کٹوانا نہیں تھا، بلکہ دراصل ابراہیم کے لئے ایک سخت ترین آزمائش تھی، جس میں آپ صد فی صد فلاح یاب ہوئے، جس کا بہترین نتیجہ یہ نکلا کہ باری تعالی نے آپ کا یہ خالص عمل قربانی کو بیحد پسند کیا اور قیامت تک آنے والوں کے لئے رائج کردیا اور اس پر دنیا کے جمیع مسلمان ہرسال عمل پیرا ہوتے ہیں اور خالص دل سے قربانی کرنے والے بے پناہ اجروثواب کے مستحق ہوتے ہیں، اس لئے اگر کوئی بھی مسلمان صاحب استطاعت ہو تو اس کو قربانی لازمی کرنی چاہیئے، ورنہ اگر ہم وسعت کے باوجود قربانی سے گریزاں رہے تو عنداللہ ماخوذ بھی ہوں گے۔

قربانی کی فضیلت کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص قربانی کے دن اپنی قربانی کے پاس جاتا ہے اور اسے فی سبیل اللہ قربان کرتا ہے تو اللہ اس آدمی کو جنت کے قریب کر دیتا ہے، جب قربانی کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو قربانی کرنے والے کی بخشش ہوجاتی ہے اور یہی قربانی روز قیامت اس کی سواری ہوگی اور قربانی کے ہر بال کے عوض اس کو ثواب ملے گاـ

اس لئے ہمیں مذکورہ فضائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صرف اللہ کے لئے قربانی کرنی چاہئیے، اس وقت ہمیں یہ احساس ہونا چاہیئے کہ گویا ہم اپنی جان کا نذرانہ راہ خدا میں پیش کررہے ہیں اور اگر ایسا وقت آن پڑے بلکہ ہروقت ہم ان شاءاللہ اپنی اور آل اولاد کی جان فی سبیل اللہ ضرور پیش کریں گے۔ قربانی سے ہمیں ایثار کا سبق ملتا ہے، اس لئے ہمارے اندر ہر وقت جاں نثاری کا جذبہ ہونا چاہیئے، اور یہ صرف خالص اللہ کے لئے ہونا چاہیئے، جب ہم قربانی کریں تو نیت گوشت کھانے کی نہ ہو بلکہ اس کو اطاعت الہی اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت سمجھ کر کریں، سچی نیت اور نیک جذبے کے ساتھ کریں، کیونکہ ثواب کا مدار نیت پر ہے، اگر ہماری نیت رضاء الہی ہے تو جانور بارگاہِ خداوندی میں مقبولیت کا مقام حاصل کرے گا۔ طبرانی میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے خوش دلی سے اور حصول ثواب کی خاطر قربانی کی تو قربانی کا جانور اس کے لئے آتشِ دوزخ سے ڈھال بن جائے گا۔

عید اضحی کے موقع پر ہمیں غریب اور نادار لوگوں کا بھی خیال ملحوظ رکھنا چاہیئے، جو غربت کی وجہ سے قربانی کرنے کے متحمل نہیں ہیں، تو ان لوگوں تک قربانی کا گوشت ہرممکن پہنچانا چاہیئے، تاکہ وہ مسلمان بھی قربانی کے گوشت سے محظوظ ہوسکیں۔ متعدد جگہوں دیہاتوں میں سننے کو ملا ہے کہ وہاں حکومت ہند نے قربانی کی پابندی لگا رکھی ہے یا پھر دھشت گرد ہندو مسلمانوں کو قربانی کرنے سے روکتے ہیں، ایسے علاقے کے مسلمانوں کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیئے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد صفائی پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے اور اسلام نے بھی نظافت کو اہمیت دیتے ہوئے اس کو ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ قربانی کے دن گوشت، ہڈیاں، خون اور دیگر فضلات سے روڈ اور گلیوں میں گندگی پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے اور اس سے مختلف اقسام کی بیماریاں بھی وجود میں آتی ہیں اور ہندوستان میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں، لہذا اس موقع پر قربانی کے فضلات کی گندگیاں غیر ایمان والوں کے لئے کافی ناگواری باعث بنتی ہیں، عدم صفائی کی بنا پر بہت سے لوگ بے ساختہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسلمان گندی قوم ہے، اس لئے ان کی زبان پرشکوہ ہونے سے پہلے مکمل طور پر صفائی کا اہتمام کرنا چاہیئے، قربانی کے جملہ فضلات کہیں دور میدان میں زیر زمین اس طرح دفن کر دینا چاہیئے کہ اس کی بدبو ظاہر نہ اور زمین کو چیر کر کوئی جانور فضلات کو باہر نہ نکال سکے، ادھر ادھر پھینکنا غیر مناسب ہے، بلکہ قربانی کی بے حرمتی بھی لازم آئے گی۔

تبصرے بند ہیں۔