کانگریس کی’ہندوتوا‘ سیاست

ڈاکٹر عابد الرحمن

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے حال ہی میں گجرات کا دورہ کیا۔ یہ دورہ انہوں نے نوجوانوں کو روزگار اور کسانوں کو ادھیکار دینے کے ایجنڈے کے تحت کیا۔ یہ دورہ دراصل گجرات اسمبلی الیکشنس کی تیاری ہے۔ اس دورے کا مقصد مذکورہ ایجنڈے کے نام دراصل کانگریس کی بے روزگاری سے جھوجھ رہے نوجوانوں، جی ایس ٹی سے پریشان بیوپاریوں اور زرعی پیداوار کی مناسب قیمت نہ ملنے سے پریشان کسانوں کے ووٹوں کو کیش کر نے کی کوشش ہے اسی طرح اس میں ریزرویشن کے معاملہ میں بی جے پی سے ناراض بلکہ اس کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے پٹیلوں کو بھی رجھانے کی کوشش کی گئی۔ خبروں کے مطابق اس دورے کے دوران راہل گاندھی نے مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور کچھ خوش نما وعدے بھی کئے۔ چلو یہ تو ہر سیاسی پارٹی اور ہر حزب اختلاف کرتا ہے لیکن اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں راہل گاندھی نے مودی حکومت کے خلاف اپنی مہم کو ہندوتوا کا تڑ کا دینے کی بھر پور کوشش کی۔ انہوں نے یہ دورہ مندروں سے شروع کر مندروں پر ہی ختم کیا۔

 گجرات کے جس حصہ سوراشٹر کا انہوں نے دورہ کیا وہاں کے ہندو ؤں کی ہر کمیونٹی کے مندر میں وہ گئے پوجا کی آرتی کی اور مندروں کے پجاریوں اور ٹرسٹیوں سے میٹنگ بھی کی یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ایک ہندو لیڈر بناکر پیش کر نے کی بھر پور کوشش کی، اور اس کا بھی پورا خیال رکھا کہ ان کی کوئی بات کوئی کمینٹ انہیں ہندو مخالف یا ذاتی طور پر ہندوؤں کے کسی لیڈر یاکسی تنظیم کے خلاف نہ ظاہر کر دے سو راجکوٹ کی ایک میٹنگ میں انہوں نے آر ایس ایس پر تنقید کی تو مصر کی تنظیم اخوان المسلمون کو بھی گھیر لیا، دونوں تنظیموں کو ایک دوسرے کے برابر قرادیتے ہوئے حساب برابر کردیا کہ آرایس ایس کی تنقید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی تنظیم سے ہمدردی رکھتے ہوں۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کانگریس آزادی کے بعد سے کم از کم راجیو گاندھی کے دور سے سیکولر ازم کے نام یہی سیاست کر تی آئی ہے لیکن ڈھکے چھپے انداز میں۔

پچھلے لوک سبھا انتخابات کے بعد یہ بات بڑی مشہور ہوئی تھی کہ کانگریس ہندوتوا سے دوری یا مسلم نوازی کی وجہ سے ہار ی۔ اس شکست کے بعد کانگریس کی تجزیاتی کمیٹیوں نے اپنے تجزیہ میں صاف طور سے کہاتھا کہ’ کانگریس کو اقلیت نوازی لے ڈوبی، اکثریتی فرقہ کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ کانگریس اقلیت نواز پارٹی ہے ہر وقت اقلیتوں کی بات کرتی ہے اس کا سیکولرازم محض دکھاوا ہے اور حالیہ انتخابات میں اکثریتی فرقہ نے اسی احساس کا اظہار کانگریس کے خلاف ووٹ دے کر کیا ‘ اس وقت پارٹی کو یہ مشورے بھی دئے گئے تھے کہ کانگریس نے سیکولرازم کے ساتھ ساتھ ’ہندتوا‘ یا’ سیکولر ہندوتوا ‘یا ’نرم ہندوتوا‘ کی سیاست کرنی چاہئے، لوک سبھا انتخابات کی ہتک آمیز شکست کے بعد سے کانگریس مسلسل اپنے آپ کو اقلیت نواز یا مسلم نواز یا مسلم پارٹی یا  مسلمانوں کی پارٹی یا مسلمانوں کی منھ بھرائی کر نے والی پارٹی کے جھوٹے الزام سے چھڑانے کی کوشش کر تی ہوئی نظر آرہی ہے اوراسی کے اظہار کے لئے راہل گاندھی نے یوپی انتخابات کی مہم کی شروعات ایودھیا سے کی تھی۔ لیکن یوپی میں ان کی یہ سیاسی قلابازی کامیاب ہونی تھی نہ ہوئی۔ ان کو یوپی میں اس سے بھی بڑی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا جو ان کے والد آنجہانی راجیو گاندھی کو رام مندر کے شیلا نیاس اور رام راجیہ کے قیام کی سیاست کے بعد دیکھنا پڑا تھا۔

کانگریس پارٹی نے یوپی کی شکست کے بعد کسی مثبت سیاسی پالسی اپنانے کی بجائے مزید منفی سیاست اپنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے سب سے پہلے یوپی کی شکست کا ٹھیکرہ مسلمانوں ہی کے سر پھوڑا کہ ’لوگوں نے کانگریس کومسلمانوں کی پارٹی سمجھ لیا اسی لئے ووٹ نہیں دیا‘۔ اور یہ کہ ’ پارٹی اگر علٰحیدہ انتخابات لڑ تی تو بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتی تھی، سماج وادی پارٹی سے غیر قدرتی اتحاد کی وجہ سے کئی لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ کانگریس مسلم پارٹی ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم ووٹروں کا بڑا حصہ اس سے دور ہوگیا۔

دوسری جانب آر ایس ایس ہندو شناخت کے پیغام کے ساتھ گھر گھر پہنچی جسے ایس پی کے ساتھ متحد کانگریس موثر طریقہ سے کاؤنٹر نہیں کرسکی۔ ‘ اپنی ہار کے تجزیوں میں اس طرح مسلم مخالفت کا صاف صاف اظہار بھی دراصل ہندوتواسیاست کی پہلی سیڑھی ہی تھی جس کا مقصد اس طرح کی کھلی مسلم مخالفت کے ذریعہ ہندو ووٹوں کو رجھانے کی کوشش ہے لیکن اسے بھی ناکام ہی ہونا ہے کیونکہ کانگریس نے منافقانہ طور پر اس مسلم مخالفت کے ذریعہ جن لوگوں کو اب تک پالا پوسا اب وہ خود کانگریس سے بھی بڑے ہو گئے ہیں، ان لوگوں نے اپنی مسلم مخالفت سے ابتدائً تو کانگریس کو فائدہ پہنچا یا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس مسلم مخالفت کو کانگریس مخالفت میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتے رہے اور آج وہ پوری طرح کامیاب ہیں، اب ہندتوا سیاست مسلمانوں سے زیادہ کانگریس مخالف ہو کر سامنے آئی ہے، اب یہ لوگ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کہہ کر کانگریس کی طرح منافقا نہ طور پر مسلمانوں کو ساتھ ملانے کے لئے زبانی جمع خرچ ہی سہی، کر رہے ہیں لیکن کانگریس کے لئے ان کی زبانوں پر معدو میت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ براہ راست کانگریس مکت بھارت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اور ہر الیکشن کا نتیجہ ان کی حمایت کر رہا ہے۔

اب دو تین مہینوں میں گجرات میں الیکشنس ہونے والے ہیں اور راہل گاندھی اسی کی تیاری میں مندر مندر پھر رہے ہیں ٹھیک ہے مندر جانے سے کسی کو کیا پرابلم ہو سکتا ہے کیونکہ مغربی سیکولر ازم یعنی لادینیت تو ملک میں مسلمانوں سمیت کسی کو بھی قبول نہیں لیکن نہروین سیکولرازم یا سرو دھرم سنبھاؤ ہر کسی کو قبول ہو سکتا ہے اور اگر راہل گاندھی کی یہ سیاست سرو دھرم سنبھاؤ کے لئے ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ ’ہندوتوا ‘،’ نرم ہندوتوا‘ یا’ سیکولر ہندوتوا ‘ کی سیاست ہے جسکا گمان غالب ہے تو سمجھئے کہ کم از کم کانگریس کے لئے تو یہ مزید ناکامیوں کی ضمانت ہے کیونکہ وہ اس شدت سے ہندوتوا سیاست نہیں کر سکتے جس شدت سے بی جے پی کرتی ہے۔پھر بھی ان کو مبارک کہ وہ اسی سیاسی دلدل کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن یہ بھی ان کے سیاسی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ مودی سرکار کے ترقی، گڈ گورننس، کرپشن کے خاتمے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بلیک منی کی واپسی کے وعدے پوری طرح کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں اور اس پر سرکار گھر چکی ہے اسی طرح مودی جی نے ان وعدوں کو پورا کر نے کے نام جو اقدامات کئے خاص طور سے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ان کی ناکامی اور بجائے خود نقصان کی خبریں بھی آ گئی ہیں جس کے چلتے خود مودی جی کے بھکت بھی ان سے ناراض ہو رہے ہیں اور خود بی جے پی میں بھی ان کی پالسی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

ایسے وقت میں راہل گاندھی یا کانگریس پارٹی کا مودی سرکار کی ناکامیوں کے تناظرمیں کسی مثبت حکمت عملی اپنانے کی بجائے ہندوتوا کی منفی سیاست کی طرف بڑھنا بتا تا ہے کہ وہ اب وہاں بھی نہیں ہے جہاں پچھلے لوک سبھا انتخابات کے وقت تھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔