کتاب ’حضرت مولانا علی میاں ندویؒ: یادوں کے جھروکے سے‘ کا رسم اجرا

رپورٹ: ڈاکٹر نشاط احمد صدیقی

12 جنوری 2018 کی رات ایک یادگار ادبی تقریب کے دوران مذکورہ کتاب کی رسم رونمائی عمل میں آئی،  تقریب کے ناظم اور جدید ترقی پسند شاعری کی معروف آواز جناب عتیق انظر صاحب نے فرمایا: کہ اس کتاب کے مصنف ہمارے عزیز دوست اور کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں ندوی صاحب ایک علم دوست اور لکھنے پڑھنے سے گہرا تعلق رکھنے والے شخص ہیں، وہ مترجم بھی ہیں اور اس پہلے کئی کتابوں کا ترجمہ کر چکے ہیں، انکی یہ نئی کاوش برصغیر کے مشہور عالم مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے بارہ میں ہے، اس موضوع پر مزید اظہار خیال کے لئے میں کاروان اردو قطر کے نائب صدر جناب حسیب الرحمن صاحب کو زحمت دوں گا۔

حسیب الرحمن صاحب نے کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب محمد شاہد خاں صاحب ایک عجیب و غریب اور جناتی قسم کے آدمی ہیں، ہم ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں، قریبی گھریلو تعلقات بھی ہیں لیکن وہ کس وقت کیا کام کرتے ہیں اس کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ بادی النظر میں وہ ایک نوکری پیشہ آدمی ہیں لیکن ذرا اور قریب سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بزنس سے بھی ان کا اچھا خاصا تعلق ہے، علمی و ادبی تقریبات کے انتظام و انصرام میں وہ سب سے آگے نظر آئیں گے، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں، اور اس سب کے باوجود وقفہ وقفہ سے ان کی ایسی نگارشات منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ آدمی حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ابھی پچھلے دنوں ہم لوگوں نے ان کی خاکہ نگاری کا خوب لطف اٹھایا، اور یہ سچ بھی ہے کہ انہوں نے جس کسی کی بھی تصویر کشی کی اس کا حق ادا کر دیا۔ ان کی یہ تازہ ترین کاوش حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ سے متعلق ہے، حضرت مولانا کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی شخصیت گذشتہ صدی میں اپنی نظیر نہیں رکھتی، شاہد صاحب نے اس شخصیت سے جڑی اپنی یادوں کو اس کتابچہ میں قلمبند کیا ہے اور بجا طور پر دریا کو کوزہ میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا کے تربیتی اسالیب کو خاص طور سے اجاگر کرنیکی کوشش کی ہے، حضرت مولانا ایک بات اکثر فرمایا کرتے تھے اور جس کا تذکرہ اس کتاب میں بھی ہے کہ دنیا میں دو چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، ایک اخلاص اور دوسرے اختصاص، اگر کوئی انسان اپنے اندر یہ دو خوبیاں پیدا کرلے، یعنی کسی فن میں اسپیشلائزیشن حاصل کر لے اور اپنے اس فن سے وہ ڈیڈیکیشن کی حد تک مخلص بھی ہو تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کبھی ناکام نہیں رہیگا، اگر وہ سات پردوں کے پیچھے بھی جا کر کہیں چھپے گا تو یہ دنیا اسے ڈھونڈھ نکالے گی، کیونکہ وہ اس دنیا کی ضرورت بن چکا ہوگا۔

حسیب الرحمن صاحب نے مزید فرمایا کہ: میں یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ کسی ایک کتابچہ میں اس کے تمام پہلووں کا احاطہ کیا جا سکے، لیکن جناب محمد شاہد صاحب نے ان کی شخصیت کی ما بہ الامتیاز صفات اور ان کے تربیتی اسالیب کا

خلاصہ بڑی کامیابی سے اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔ حضرت مولانا کے حالات و سوانح پر کئی مبسوط تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ، خود حضرت مولانا نے "کاروان زندگی” کے نام سے اپنی خود نوشت سو انح حیات سات جلدوں میں تحریر کر دی تھی، اس کے علاوہ مولانا محمد رابع ندوی صاحب جو اس وقت ندوہ العلماء کے ناظم ہیں اور وہ ہیں تو حضرت مولانا علی میاں کے بھانجے لیکن ایک طویل مدت تک سفر و حضر میں ان کے رفیق رہے ہیں، انہوں نے بھی حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت پر "مولانا سید ابو الحسن علی ندوی عہد ساز شخصیت۔ مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں” کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہے جو اس موضوع پر مستند ترین دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ بطور فخر نہیں، البتہ تحدیث بالنعمہ کے طور پر یہاں ذکر کرتا چلوں کہ حضرت مولانا  رابع حسنی ندوی کی مذکورہ بالا تصنیف کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی سعادت اس ناچیز کو حاصل ہوئی ہے۔ اپنے اس تجربہ کی روشنی میں بھی میں یہ کہ سکتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ضخیم کتابیں پڑھنے کی فرصت نہ ہو وہ جناب محمد شاہد صاحب کی اس کتاب سے بھی حضرت مولانا علی میاں کی شخصیت کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ میں اس آڈیٹوریم میں موجود تمام خواتین و حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔

جناب حسیب الرحمن صاحب کی اس گفتگو کے بعد ممتاز شاعر اور ادیب جناب ڈاکٹر راحت اندوری کے ہاتھوں اس کتاب کا رسم اجراء عمل میں آیا، اس موقع پر دوحہ کی معروف و معتبر ادبی و سماجی شخصیات کے علاوہ ہندو پاک سے تشریف لائے ہوئے متعدد مہمان شعراء بھی موجود تھے۔

ترتیب و پیش کش: محمد شاہد خاں ندوی

دوحہ  ۔  12 جنوری 2018؁ء

تبصرے بند ہیں۔