کرسی پرستوں کی داستانِ الم

تنویر احمد خطیب

بات بر حق ہے اور بار ہا آزمائی ہوئی ہے کہ سیاست میں نہ ہی کوئی کسی کا دائمی دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن۔ تاریخ میں ایسے واقعات کی بھر مار ہے۔ سیاسی بازی گروں کی سیاسی دوستیوں و دشمنیوں کی ہزار ہا داستانیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور موجودہ دور میں بھی ایسی داستانیں رقم ہوتی جا رہی ہیں۔ تاریخ میں جب کوئی بھی واقعہ رقم ہو تا ہے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے سبق ہوتا ہے۔ گو انسان اپنے آپ کو اُس تاریخ سے علیحدہ سمجھتا ہے یہ سوچ کر کہ وہ لوگ کمزور تھے، نا سمجھ تھے، نا تجربہ کار تھے اور سیاسی طور نا بالغ تھے تبھی جا کر وہ حالات کا مقابلہ نہ کر سکے اور ناکامیوں کا سامنا کرتے رہے۔

ریاست جموں و کشمیر میں پے در پے اتنے واقعات ہمارے سامنے آئے مگر ہم اُن سے کوئی سبق حاصل کرنے سے قاصر رہے نتیجہ یہ رہا کہ ہمیں آئے روزاُسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس صورتحال کا سامنا ہم نے نہرو دور میں کیا تھا۔ ریاست کے مانے جانے سیاست دان شیخ محمد عبداللہ جسے عرف ِ عام میں شیر کشمیر بھی کہتے ہیں۔ شیخ کو ’’شیرکشمیر‘‘ بنانے میں نہرو نے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ نہرونے ایک ایسا سیاسی کارڈ کھیلاکہ شیخ عبداللہ کو زمین سے اٹھا کرمحلوں کا بادشاہ بنایادیا اور سیاسی راہوں کی ایسی سیر کرائی کہ پھر سیاست کی اِ ن خار دار راہوں سے شیخ عبداللہ کا واپس آنا بھی نہرو نے ہی طے کیا۔ کہاں ایک غریب گھرانے کا نواجون اور کہاں نیڈوخاندان کی صاحبزادی! بڑی ہی حکمت عملی اور دانائی کے ساتھ پنڈت جو اہر لعل نہرو نے اُس کی تربیت کی، سیاست کے گُر سکھائے، کس وقت وعدہ وفا کر نا ہے، کس وقت دھوکا دینا ہے، کہاں آنسو بہانے ہیں، کہاں مسکرانا ہے یہ تمام سیاسی پینترے نہرو نے اچھے ڈھنگ سے سکھا دیئے۔ پھر اِسی نیڈو خاندان اور نہرو کی تربیت یافتہ لڑکی کے ساتھ شیخ عبداللہ نکاح کیا گیا۔

نہرو نے 1947میں پہلا سیاسی کارڈ کھیل کر شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم کے تخت پر بٹھا دیالیکن ساتھ ہی شیخ عبداللہ کے ساتھ ابن الوقت سیاست دانوں کا ایک لشکر بھی تعینات کر رکھا۔ چھ سال تک شیخ اور نہرو کے درمیان سیاسی چوہے بلی کا کھیل چلتا رہا۔ شیخ عبداللہ کا خواب تھا کہ میں ریاست جموں و کشمیر کا خود مختار بادشاہ بنوں لیکن نہرو کے ذہن میں شیخ عبداللہ کے بارے میں پورا پلاٹ بناہوا تھا۔ جب نہرو نے دیکھا ابن الوقت مضبوط ہو چکے ہیں تو شیخ عبداللہ کو آناً فاناً آسمان سے اُتار کر زمین پر دے پٹکااور یوں شیخ عبداللہ کا خودمختار بادشاہ بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ لیکن چانکیائی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے پنڈت جو اہر لعل نہرو نے شیخ محمد عبداللہ کو جیل میں ڈال کر ایک اور سیاسی کارڈ کھیلا۔ قابل ِ غور بات تو یہ ہے کہ جیل میں بھی شیخ عبداللہ کا اِتنا خیال رکھاکہ شیخ کی شاہانہ طبیعت میں فرق نہیں آنا چاہیے۔ کیونکہ نہرو کو یہ سیاسی مہرہ ابھی بھی درکار تھا یہی وجہ تھی کہ شیخ عبداللہ کو جیل میں بھی شاہانہ قسم کی سہولیات فراہم رکھی گئی تھیں۔ سیاسی پینترا بازی کا یہ چوہے بلی والا کھیل اسی طرح جاری رکھا گیا۔ ایک طرف سے شیخ محمد عبداللہ کو پابند ِ سلاسل رکھا گیا اور دوسری جانب بخشی غلام محمد کو مسند ِ اقتدار پر بیٹھایا گیا۔ دلی نے ریاست کی ایک ایک سیاسی شخصیت کو اپنی شاطرانہ چالوں کا شکار بنایا۔ اپنی شاطر دماغی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے دلی والوں نے بخشی غلام محمد کو حد سے زیادہ مرعات دی گئیں اور اُن کا دماغ اِس نہج پر پہنچایا کہ بخشی یہ سمجھ بیٹھے کہ اب جو کچھ بھی ہے وہ میں ہی ہوں۔ لیکن چانکیائی سیاست کا کیا کہنا اُن کی فطرت ہی ریاستی قائدین کو بطور ِ سیاسی مہرہ استعمال کرنا رہا ہے۔ اِسی اصول پر کام کرتے ہوئے بخشی غلام محمد کے لئے بھی ماحول بنانا شروع کر دیا۔ بخشی غلام محمد کو’’ ننگ ِ ملت، ننگ ِ قوم ‘‘کے القاب سے مشہور کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد بخشی کو جو اقتدار بخشا گیا تھا ایک دم چھین لیا گیا اور یوں بخشی بھی دلی کے شاطرانہ روائے کا شکار ہو گیامگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بخشی غلام محمد کی سمجھ میں یہ بات کبھی آئی ہی نہیں کہ یہ کیا ہوا؟اور نہ اُس کے بعدآنے والے سیاست دانوں کو اس سے کوئی سبق ملا۔ بے وفائی، دغا بازی اور فریب کاری کے اس سلسلے نے تھمنے کا نام نہیں لیا۔ سیاسی طور ریاست کو اپنا غلام بنائے رکھنے کیلئے شمس الدین نامی ایک عام سے انسان کو وزیر اعظم کا تاج پہنا کر تحت نشین بنا دیا، لیکن صرف چھ ماہ کی مدت میں دلی کا دل بھر گیا اور شمس الدین کو بھی چلتا کر دیا۔

اب یہاں سے دلی والوں کی نئی گیم شروع ہو گئی غلام محمد صادق کوریاست جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنایا دیالیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ غلام محمد صادق کٹھ پتلی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ 1971میں چنڈی گڑھ کے ایک ہسپتال میں آخری سانس لی، 1971جو کہ برصغیر کا ایک ایسا سال تھا جب پاکستان کا ایک بازو توڑ دیا گیا اور غلام محمد صادق کے بارے میں یہ بات پھیلائی گئی کہ غلام محمد صادق کو پاکستان کا ٹوٹنا برداشت نہ ہوسکااور اسی غم میں وہ دنیا چھوڑ گئے۔

اسی طرح سے غلام محمد صادق کے اِ س دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد میر قاسم کو ریاست جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اُ ن کی بھی کوئی خاص پوزیشن نہیں رہی، اعتماد اور بھروسے کا یہ عالم رہا کہ جموں و کشمیر کا انسان اپنے ہندوستانی ہونے کا کتنا بھی دم بھرے لیکن اُس کی نیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگا رہا۔ دلی دربار میں جموں و کشمیر کے ایک ایک فرد کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔

یہاں قارئین کرام کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گا۔ میرے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ ایک بار میں میر قاسم کا انٹرئیو لینے گیا تو آف دی ریکارڈ جو بات انھوں نے بتائی وہ آج بھی پوری ریاست جموں و کشمیر کی عوام کے لئے چشم کشا ہے۔ میر قاسم کچھ یوں کہہ اُٹھے کہ’’میں کسی کام کے سلسلے میں دِلی گیا ہوا تھا تو یہاںگھر والوں نے کچھ کاغذات میری بہن کے حوالے کئے اور کہا کہ ان کاغذات کو لیکر آپ دلی جائو اور قاسم صاحب سے دستخط لے لو، بہن کو لینے کیلئے میں نے گاڑی ائیر پورٹ بھیج دی۔ ہمشیرہ چار پانچ روز دلی میں ہی ٹھہری، بات آئی اور گئی۔ لیکن اب کچھ عرصہ گزراکہ دلی دربار سے فون آیا اور یہ خبر دی گئی کہ آپ کیخلاف ایک فائل تیار ہو ئی ہے اور وہ فائل وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پاس جانے والی ہے۔ الزام ہے کہ پاکستان سے کوئی عورت آپ سے ملنے دِلی آئی تھی جوچار پانچ روز تک آپ کے ہاں ٹھہری۔ یہ سنگین الزامات سن کر میں دھنگ رہ گیا، پائوں تلے زمین کھسک گئی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے کون ہے وہ عورت جو مجھ سے ملنے دلی آئی تھی۔ بلآخر جب میں نے دماغ پر زور ڈالا تو مجھے اچانک یاد آگیا کہ دلی میں میرے ہاں میری ہمشیرہ ٹھہری تھی کہیں یہ فائل اُسی پر تیار تو نہیں کی گئی۔ میں نے تمام ثبوت اکٹھے کئے اور دلی دربار میں پیش کر دئے، تمام ثبوتوں پر تحقیقات کر کے دلی والے کچھ قدرے مطمئن ہو سکے ‘‘۔ اس کہانی کو پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میر قاسم نے تو دلی والوں کو بر وقت مطمئن کیا لیکن مکمل طور سے شکوک و شبہات کا ازالہ نہ ہو سکا۔

یہی وجہ ہے کہ میر قاسم ابھی اقتدارمیں ہی تھے کہ پھر سے شیخ عبداللہ کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل شروع کیا گیا اور اِ س کھیل کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے جو ڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ اِس جوڑ توڑ میں قریباً چار پانچ سال کا عرصہ بیت گیا تو پھر اچانک میر قاسم کو کہا گیا اب آپ فارغ ہیں اور جا کر اپنی زندگی آرام سے گزاریں۔

شیخ عبداللہ کو بطورِ تحفہ ایک ٹوٹی ہو ئی کرسی پر بٹھا کر نوکری دی گئی لیکن اس نوکری سے بھی شیخ عبداللہ کو برخاست کرنے کیلئے ایک اور سیاسی گیم کھیلی گئی۔ اب کی بار ہندوستان کے چہتے اور منظور نظر مفتی محمد سعید کو مہرے کے طور استعمال کیا گیا۔ مفتی محمد سعید کے اشارے پر اسمبلی میں شیخ عبداللہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ اُس وقت اسپیکر کے عہدے پر عبدالغنی گونی ؔ فائز تھے، وہ بھی کانگریس کے ڈسے ہوئے تھے،انھوں نے اسمبلی کو دوسرے دن کیلئے ملتوی کر لیا۔ شیخ عبداللہ کو دلی سے واپس بلایا گیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور انھیں یہ مشورہ دیا کہ آپ اسمبلی میں پہنچ کر استعفیٰ پیش کر یںاور ساتھ اسمبلی کو تحلیل کر نے کی تحریک بھی پیش کریں۔ اسمبلی تحلیل ہوئی اور مفتی محمد سعید کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

واضح رہے مفتی خاندان اور شیخ خاندان کی سیاسی جنگ کے آغاز کا یہ پہلا دن تھا۔ دو خاندانوں کے بیچ سیاسی جنگ کی پہلی اننگ میں شیخ عبداللہ نے ایسے دائو کھیلے کہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹے۔ یہاں سیاست کا یہ کرسی پرستانہ کھیل تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہاں شیخ عبداللہ کی زندگی کے سورج غروب ہونے کا وقت آن پہنچا اور یوں سیاست کا ایک چراغ گل ہو گیا۔ اب یہاں سے کون بنے گا وزیر اعلیٰ کا نیا کھیل شروع ہو گیا؟گیند دلی والوں کے پالے میں تھی۔ ریمورٹ کنٹرول اندرا گاندھی کے ہاتھ میں تھا وہ جسے چاہیے اقتدار دے سکتی تھی۔ گو کہ اندرا گاندھی کی مرضی یہ تھی کہ غلام محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنانے بنایا جائے لیکن حالات نے کروٹ بدلی۔ کچھ اپنوں اور کچھ غیروں نے اندرا گاندھی کو آئینہ دکھاتے ہوئے یہ باور کرایاکہ غلام محمد شاہ پاکستان نواز ہے۔ انھوں نے کبھی دل سے کیا زبان سے بھی ہندوستان کی حاکمیت کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ بلآخرفاروق عبداللہ کو وزیر اعلیٰ بنانے پر اتفاق ہو ہی گیاہے۔ فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ فاروق عبداللہ چونکہ اُس وقت سیاسی ہتھکنڈوں سے واقف نہیں تھے اس لئے پرانے سیاست دانوں کی سیاست سمجھنے سے قاصر رہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم پلان مرتب کر کے غلام محمد شاہ کے ساتھ 12ممبران اسمبلی کھڑے کر دیئے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ آناً فاناًفاروق عبداللہ سے اقتدار چھین لیا گیا اور غلام محمد شاہ تحفہ ٔ اقتدار سے نوازا گیا۔ گو کہ غلام محمد شاہ ہندوستان کے لئے ایک کڑوی گولی تھی مگر وقت کا تقاضا یہ تھا کہ برداشت کر نا پڑا۔

ادھر غلام محمد شاہ جب مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوئے اُدھر فاروق عبداللہ اپنی سیاسی صلاحیتوں کا تجربہ کرنے لگے۔ غلام محمد شاہ اور اندرا گاندھی کے خلاف لوگوں کو استعمال کرتے گئے۔ کیونکہ عوام سیاسی کھلاڑیوں کا ایک عام ہتھیار ہوتا ہے جسے سیاست دان اپنی سیاسی دکان چلانے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سیاست دان نبض شناس ہو، عوام کی نبض کو پکڑ نا جانتاہو،فاروق عبداللہ نے عوامی نبض کو اپنے قابو میں کر لیا۔

انتخابی بگل بجااور انتخابات ہوئے، نتائج سامنے آئے توفاروق عبداللہ اپنے تجربے میں کامیاب ہو گئے۔ فاروق عبداللہ اقتدار میں واپس لوٹ آئے۔ لیکن یہ ایسے انتخاب تھے جنھوں نے ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ پورے برصغیر کو پلٹ کر رکھ دیا۔ مسلم متحدہ محاز جو ایک طرف عوام کی ایک بہت بڑی حمایت لیکر میدان میں اُتری تھی دوسرے طرف ہندوستان نے فاروق عبداللہ کو بطور ِ مہرہ میدان میں اُتار کرایک ایسی بھیانک سازش رچی جس نے بعد میں نتائج بھی بھیانک ہی پربا کر دیئے۔ ریاست جموں و کشمیر کو ایک ایسی جنگی صورتحال کی طرف دھکیل دیا گیا جس صورتحال سے ریاست کا ابھی تک باہر آناممکن نہ ہو سکا۔ قتل و غارت گری کے درمیان1996میں پھر سے فاروق عبداللہ کو یہ کہہ کر لندن سے واپس بلایا گیاکہ اگر آج واپس آتے ہو تو ٹھیک وگرنہ کبھی واپس نہیں آ پائو گے۔ فاروق عبداللہ واپس لوٹے اور یہاں پہنچتے ہی فاروق عبداللہ کو پھر سے انتخابی مہرہ بنایا گیا اورکامیاب کرایا گیا۔ لیکن دلی والوں کی سیاسی سازشیں رچنے کا سلسلہ ہر گز نہ تھمااِدھر ظاہری طور تو فاروق عبداللہ کو کامیاب کرایا گیا لیکن اندرونی طور اُس کے پر کاٹنے شروع کر دیئے۔ بلآخر دلی نے ایک نیا مہرہ میدان میں لاکر کھڑا کر دیا،مفتی محمد سعید کو سامنے لایا گیا،پی ڈی پی کی تشکیل دی گئی۔ اُنہیں مخصوص نعرے دیئے گئے جو کشمیریوں کا دل لبھانے کے لئے تیارگئے تھے۔ تیار کئے گئے نعروں نے کام کر دیا مفتی محمد سعید اچانک ریاست کے سیاسی اُفق پر چھا گئے، کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ تین سال مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہے۔ تین سال کے بعد مفتی محمد سعید کی اُمیدوں کے بر خلاف غلام نبی آزاد کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ لیکن اب کی بار دِلی کو بھی اپنی ہی جیسی دغا بازری کا سامنا کرنا پڑا۔ جو کھیل کانگریس دوسروں کے ساتھ کھیلتی آئی تھی وہی کانگریس کے ساتھ کھیلا گیا چھ ماہ قبل ہی مفتی محمد سعید نے حمایت واپس لے کر غلام نبی آزاد کو الوداع کہہ دیا۔

2008میں پھر سے انتخاب ہوئے لیکن اب کی بار مفتی خاندان نہیں شیخ خاندان نے بازی ماری۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس ملی جلی سرکار کے روپ میں سامنے آئی۔ چھ سال تک عمر عبداللہ نے اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے سر کے بال سفید کر دیئے۔ 2014میں پھر سے انتخاب ہوئے۔ مودی لہر نے جموں میں اپنا جھنڈا گاڑا اور کشمیر کے سیاست دانوں کو اپنے قدموں میں لا کھڑا کر دیا۔ مفتی محمد سعید نے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کا ہاتھ بڑھایا۔ اقتدار میں رہنے کیلئے اِس اتحاد کے بننے پر لاکھ صفائیاں پیش کی گئیں کہ یہ اتحاد تعمیر و ترقی، بات چیت اورکسی صحتمند سیاسی عمل کا ایک مثالی اتحاد ثابت ہوگا لیکن اِس مثالی اتحاد سے نفرتیں بڑھی، خلیج بپا ہوئی، جموں الگ ہوا اور کشمیر الگ ہوا، دو ممالک کو جوڑنے کی باتیں کرنے والے جموں اور کشمیر کو بھی ایک دوسرے سے جدا کر گئے۔ دو متضاد قوتوں کے اس اتحاد میں کوئی کام احسن طریقے سے بن پانا ایک نا ممکن سی بات تھی اِس کی کئی مثالیں ہمارے اطراف بکھری پڑیں ہیں۔

وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو مفتی محمد سعید نے سرینگر بلایا، ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا،بھیڑ کو جمع کرنے کا ہر کوئی حربہ استعمال کیا گیالیکن یہ سب کرنے کے باجود بھی اُسی جلسے میں مودی نے لاکھوں لوگوں کے سامنے مفتی سعید کو اوقات کا سبق دیا اور سبق ایسا دیا کہ مفتی محمد سعید اپنی صاحبزادی کولیکر دس پندرہ روز پوری وادی میں گھومے اور جا کر ٹھکانہ دلی کے ایمز میں بنا لیا،کہنے کی بات یہ ہے ہم آغاز سے پہلے انجام کی فکر ہر گز نہیں کرتے۔ جس طریقے سے مفتی محمد سعید نے ہندوستان کیلئے جموں و کشمیر میں کام کیا ہے اُس کے لئے مفتی بھارت رتن کے حقدار تھے مگر ایسا ناممکن ہے، جموں و کشمیر کے کسی فرد کے لئے بھارت رتن کیوں کر ہو سکتا ہے جبکہ اُنہیں ہر وقت شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ شیخ سے لیکر محبوبہ مفتی تک دلی والوں نے ان تمام سیاسی بازی گروں کو بطورِ مہرہ استعمال کیا اس کے علاوہ دلی والوں کے سامنے یہاں سے سیاست دانوں کی کوئی اوقات نہ رہی۔

 مفتی ایجنڈا آف الائنس کے انجام کو بھانپ گیا تھا اس سے قبل کہ وہ اس صورتحال کا کوئی دوسرا راستہ نکالتے لیکن موت کا فرشتہ اُن کے ہاں ہحاضر ہوااور یوں مفتی سعید اس سیاسی دنیا دور بہت دور چلے گئے اور حقیقی دنیا میں اپنا گھر بسا لیا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ محبوبہ مفتی والدکے غم میں نڈھال سوگ مناتی گئی جب سوگ لمبا ہوگیا تو دِلی والوں نے اُن کے سوگ کو کم کرنے کے لئے پی ڈی پی کے کچھ ایم ایل ایز کو دلی بلایا اور ساتھ میں محبوبہ جی کو بھی یہ پیغام پہنچایا کہ آپ نے کیا سوچا ہے۔ ہمارے پاس تو اور آپشن بھی ہیں آپ نہیں تو اور کوئی صحیح۔ محبوبہ جی کو بھنک لگ گئی کہ کوئی اور سازش رچی جا رہی ہے، دلی دوڑی چلی گئی اور دلی دربار سے آشر واد لیکر وزیر اعلیٰ کے تخت پر بیٹھتے ہی ہندوستان اور وزیر اعظم ہندوستان کا حق ادا کرنے کے لئے دن رات ایک کر لئے۔ گوکہ محبوبہ مفتی یہاں اپنے والد کے انجام کو بھول گئی،لیکن وجہ اپنی سیاسی بساط کو بچانا تھا وگرنہ اپنوں کے ستم برپا ہونے میں کوئی دیر نہ لگتی، کیونکہ دلی والوں کے پاس ایک ایسی جادو کی چھڑی ہے جو ریاست کے کسی بھی سیاست دان کے ضمیر کو بہکاوے میں لا سکتی ہے۔ جادو کی یہ چھڑی اگر شیخ عبداللہ اور مفتی سعید جیسے نبض شناس سیاسی ہستیوں پر چل سکتی ہے تو پھر انصاری اور بخاری پر کیونکر نہیں چلے گی ؟؟ یوں کہا جائے کہ دلی والوں کو ریاستی سیاست دانوں کو قابو کرنے میں کمال کا فن حاصل ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ دلی والوں کہ یہ خوبی ہے کہ وہ ملک کو چلانے کے لئے ایک ریاست کے ساتھ دھوکا دھڑی میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے لیکن ریاستی سیاست دانوں نے دلی کی اِس خوبی کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اگر دلی والے ملک کو چلانے کی خاطر ریاست جموں و کشمیر کے سیاست دانوں کو یکے بعد دیگرے اپنی جادوگری کا شکار کرتے ہیں تو کیوں نہ ریاستی سیاست دان بھی ریاست کو چلانے کے لئے اپنی خودی کو جگائیں، بیدار ہو جائیں، ریاست کی سوچیں نہ کہ اقتدار کی فکر میں ریاست کو دائو پر لگائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوط اتحاد کے توڑنے میں بھاجپا کو قصوروار گردانہ جا رہا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کو آئندہ آنے والے انتخاب کے لئے لائحہ عمل طے کر نا ہے اس کے لئے کسی کو بھی قربان کرنا پڑے کوئی گریز نہیں کیا جائے گا۔ اچانک محبوبہ مفتی کو یہ پیغام دیا جاناکہ اب آپ وزیر اعلیٰ نہیں ہیںایک بہت بڑی سازش کا شاخسانہ ہے اور آنے والے انتخابات میں کامیاب ہونے کا ایک اہم قدم ہے۔ اس کی ایک جھلک گویا دیکھنے کو مل ہی گئی۔ اتحاد فوت ہونے کے فوراًبعد افواہوں اور خبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نئی حکومت سازی کی تیاریوں کے پروگرام ہونے لگے۔ ممبران ِ اسمبلی سب کچھ بھول کر باغیانہ رُخ اختیار کر گئے ایسا لگ رہا تھا کہ جادوی کی چھڑی کام کر جائے گی اور یوں بھاجپا باغی ممبران کے ساتھ حکومت بنائے گی لیکن نئی حکومت سازی کا یہ کھیل کیوں تھما اس کی بہتر معلومات یا تو بھاجپا کے پاس ہوگی یا پھرپی ڈی پی کے اُن ممبران ِ اسمبلی کے پاس جو باغیانہ رُخ اختیار کر کے نئی حکومت سازی کا حصہ بننے کے لئے تڑپ تڑپ کر خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ بات بھول چکے تھے جہاں مفتی سعیدکی وفا کام نہ آئی وہاںاُن کا وجود ڈل میں ایک قطرے کی مانند ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ڈل میں ایک پتھر مارے جانے سے تھوڑا سا اضطراب ضرور ہوگالیکن پھر خاموشی !کل کیا ہوگا لوگ اس بارے میں اٹکلے لگا رہے ہیںلیکن ہو گا وہی جو دلی والے چاہیں گے جو آج تک ہوتا آ رہا ہے، کشمیر جلتا ہے تو جلتا رہے، لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں،عصمتیں لُٹتی ہیں تو لٹتی رہیں، اُن لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں، اُن کے لئے صرف آج ہے لیکن اُن کے لئے بس اتنا کہہ کر وداع چاہو ں گا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کتاب سادہ رہی گی کب تک، کبھی تو آغاز ِ باب ہو گا

جنھوں نے بستی اُجاڑ ڈالی، کبھی تو اُن کا حساب ہوگا

سحر کی خوشی منانے والوسحر کے تیور بتا رہے ہیں

ابھی تو اِتنی گھٹن بڑھی گی کہ سانس لیناعذاب ہوگا

وہ دن گئے کہ جب ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے

اُٹھے گی ہم پہ جو انیٹ کوئی، تو پتھر اُس کا جواب ہوگا

سکون ِ صحر ا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو

جو آج کا دن سکوں سے گزرا، تو کل کا موسم خراب ہوگا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔