اے اہلیان ِ گول! محبت کی زباں ہو جا!

محمد شفیع میر

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑےنوعِ انساں کو 

اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہو جا!

محبت فاتح عالم ہے،محبت دلوں کو اسیر کرتی ہے،محبت زندہ قوموں کا شعار ہے،محبت دلوں کو حیات بخشتی ہے اور انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ہمدری و ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔

  انسان فطری طور پر محبت پسند ہے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کے باوجود دنیا میں ہر سو انسان کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہر جانب قتل و غارت، جنگ و جدل، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد برپا ہے۔ ملکوں سے لے کر افراد تک سب نفرت کی آگ جلانے میں مشغول ہیں۔ نفرت کی یہ آگ دنیا میں پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے، لیکن محبت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اس آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکانے میں مشغول ہے۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے کافی رنج ہوتا ہے کہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا اہلیان ِ گول کو ہے ۔ کئی برسوں سے محبت کے بجائے علاقے کو نفرت نے آ گھیرا ہے اور یہ نفرتیں پھیلانے کا کام محض ایک ٹولے کی ناپاک فطرت ہے جو سماج میں نفرتوں کا زہر گھول کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ گو کہ نفرتیں پھیلانے کے اس ناپاک مشن کو کامیاب کرنے میں سوشل میڈیا خاص طور پر واٹسپ کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا۔مشن ِ نفرت کے تحت نفرت پھیلانے والے اِس سماج دشمن ٹولے نے پہلے پہل غیر مستقیم طریقے سے سماج کو نفرتوں کی مہلک وبائوں میں مبتلا کرنے کےکافی جتن کئے لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا رہا، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ مشن رُکا نہیں بلکہ اسے عملی طور کامیاب بنانے میں ایک نئے قسم کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔سماج کو نفرت کی مہلک بیماری میں مکمل طور سے مبتلا کرنے کیلئے ،آپسی بھائی چارے کا ختم کرنے کے لئے، محبت کا جنازہ نکالنے کے لئے اور  انسانیت کا گلا گھونٹے کیلئے براہ ِ راست حملے کئے جانے لگے ۔ افسوس نفرتوں کی بھٹی گرمانے والوں کا نہیں بلکہ اس بھٹی میں کودنے والوں کا ہے ۔ جو نفرتیں پھیلانے والے اس گروہ کی سازشوں کا شکار بڑے ہی آرام کے ساتھ ہوتے جا رہے ہیں۔ کافی افسوسناک اور مایوس کن ہے کہ کل تک محبتیں بانٹنے والے آج صرف اور صرف غلطی فہمی کا شکار ہو کر نفرتوں کی ایسی آگ سلگانے پر آمادہ ہو گئے ہیں کہ اب دور دور تک نفرتوں کی گھٹائیں چھائی نظر آ رہی ہیں۔

کافی مایوس کن اور تکلیف دہ ہے کہ آج سماج کےآئینہ اس قدر گرد آلود ہے کہ اپنا چہرا بھی دیکھنا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ وجہ صرف غلط فہمیاںہیں ،تحقیق کی کوئی کوشش نہ کرنے کے نتائج ایسےہی ہوا کرتے ہیں۔ میں کافی جذباتی ہوکر یہ بات کہنے پر مجبور ہورہا ہوں کہ اگر سماج کو غلط فہمیوں سے نکلالنے والے ہی غلط فہمیوں کا شکار ہو جائیں تو خدارا ناچیز کو اس بات کا جواب دیجئے کہ پھر اس سماج کو نفرت کی آگ میں جلنے سے کون بچا پائے گا۔ محبتیں بانٹے والے ہی اگر نفرتوں کو فروغ دینے کے مرتکب ہو جائیں گے تو پھر یہ سماج کس طرح ایک صحتمند اور انسانوں کی بستی والا سماج کہلایا جائیگا۔

یہاں مجھے سماج کے آئینہ سے جتنی ناراضگی ہے اُس سے بھی زیادہ ناراضگی اُن لوگوں سے ہے جو سماجی سدھار کے دعویدار ہیں۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سماج سدھار کہلانے والے حقیقی معنوں میں سماج سدھار کے دعویدار ہیں؟ لیکن اگر اُن کی موجودگی میں سماج بکھر رہا ہے تو پھر یہ دعویداری محض مفاد ِ خصوصی کی دکان چلانے تک محدود ہو سکتی ہے۔ صاف ہے اور ہر با ضمیر و سچے انسان کو یہ کہنے سے ہر گزگریز نہیں کرنا چاہیے کہ بہتر اور خوشحال سماج کے دعویداروں کی موجودگی میں نفرتوں کا سرعام پروان چڑھنا اُن کی ناکامی کا کھلاثبوت ہے اور ایسے سماجی دعویداروں کو سماج سدھارکادعویدار کہلانے سے قبل سماجی لحظ سے انسان بننے کی مشق کرنا ہوگی۔ سماج میں سینکڑوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور سینکڑوں قسم کے لوگوں کو ایک نظرئے کی تسبیح میں پرونا اگر ممکن ہے تو پھر محض چند لوگوں کی آپسی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ناکامی اور مجرمانہ خاموشی کی کیا وجہ ہے؟

ایک طرف سے سماج نفرتوں کی آگ میں آتشزنی کا شکار ہو رہا ہے اور دوسری جانب سے محبتوں کی بنیاد پر سماج کو بہتر سمت میں لانے کی کوشش کہاں تک بہتر سماج کی مثال ہو سکتی ہے؟؟ اس سوال کا جواب مستقبل میں سماج سدھار کے دعویداروں کا دینا پڑے گا؟؟، گو کہ اس سوال کا جواب ناچیز نہیں مانگ رہا ہوںلیکن آنے والے وقت آپ کو اس سوال کا جواب ضرور مانگے گا ۔اللہ سبھی حضرات کی عمر دراز کرے لیکن اگر آپ اس جہاں سے کوچ بھی چکے ہونگے تو آنے والا آپ کی لحد پر آکر آپ سے اس اہم سوال کا جواب چیخ چیخ کر مانگے گا۔بے شک میری یہ تحریر ناگوار بھی گزرے گی اور اسے محض بچگانہ حرکت اور دیوانگی کے طور سمجھا جائے گالیکن ایک مخلصانہ گزارش ہے کہ تحریر کو مثبت نظریئے کی بنیاد پر اور موجودہ صورتحال و مستقبل کی سوچ پر منحصر رکھ کر پڑھا جائے ۔اور پھر فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ جو چاہیں فیصلہ کر سکتے ہیں۔

آخر میں ناچیز اُن حضرات سے خصوصی طور مخاطب ہوں جوحالیہ دنوں میں نفرتوں کا شکار ہو کر ماضی میں پروان چڑھائی گئی محبتوں کی کہانیوں کو محض ایک غلط فہمی کے عوض نفرتوں میں تبدیل کر گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ غلط فہمی کا ازالہ مل بیٹھ کر کیا جاتا اور نفرتوں کانیٹ ورک چلانے والوں کو سختی سے یہ پیغام دیاجاتا کہ ہم محبتوں کے متلاشی ہے تمہاری ناپاک سازشیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی لیکن ہوا یوں کہ محبت اور اتفاق کی دنیا کو خیر باد کہہ کر نفرتوںکی گھٹا ٹوپ اندھیری نگری میں قدم رکھا گیا۔وجہ یہی رہی کہ غلطی فہمی کے باعث جذبہ ٔ نفرت ،جذبہ ٔ محبت پر حاوی ہو ہی گئی ۔

اگر انسان اپنے فطری جذبۂ محبت کو جذبۂ نفرت پر حاوی کرنے کے لیے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنے اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر قابو نہ پاسکے۔ نفرت کی آگ بجھانے کے لیے پہلے ہر انسان کو خود اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا اور اپنی زندگی کو مثبت رجحانات کے تابع کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے دل کو دوسروں کی نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ کر دنیا کو محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔یہاں میں سماج کے آئینے اور اپنے دوستوں سے بس اتنا کہہ کر اجازت چاہوگا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایسے دوست و احباب کا انتخاب کرنا چاہیے جو نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کرتے ہوں، تاکہ معاشرے سے نفرت کا خاتمہ ہو اور زیادہ سے زیادہ محبت پھیلے اور منفی ذہنیت کے ایسے افراد سے مکمل اجتناب و کنارہ کشی کی جائے جو ہمیشہ نفرت پھیلانے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔