کرناٹک: سرمایہ داریت نے جمہوریت کو خرید لیا

ڈاکٹر سلیم خان

ایک زمانے میں کرکٹ کا ٹیسٹ میچ پانچ دنوں تک کھیلا جاتا تھا  اور ایسا بھی ہوتا کہ تیسرے ہی دن شائقین کو اندازہ ہوجاتا کہ یہ میچ ڈرا ہونے والا ہے اس کے باوجود  پانچ دن کے بعد ہی فیصلہ سنایا جاتا۔ ایسے میں  نتیجے کو جاننے کا اشتیاق نہ کھلاڑیوں میں  ہوتا اور نہ شائقین میں لیکن انتطار سبھی کر کرنا پڑتا تھا۔  ایسا ہی کچھ کرناٹک میں ہوا لوگ کمار سوامی کو دیکھ کر کہتے رہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی  اور بلآخر ان کو بلی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھ ہی لیا۔ گزشتہ سال   کرناٹک کے اندر بی جے پی کو سب سے زیادہ ۱۰۵ نشستوں پر کامیابی ملی تھی  لیکن وہ اکثریت کےنشان سے ۸ کے فاصلے پر رہ گئی۔   انتخابی نتائج کے بعد اسےیقین تھا کہ جنتا دل ایس کی بلواسطہ یا بلاواسطہ حمایت حاصل ہوجائے گی یعنی اگر کمار سوامی  اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے  دوران غیر حاضر بھی رہیں  تب بھی کام ہوجائے گا۔ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی نے این سی پی  سے اسی طرح کی حمایت حاصل کی تھی جس کا خمیازہ  اول تو شیوسینا کو آگے چل کر کانگریس اور خود این سی پی کو بھگتنا پڑا تھا۔

 کانگریس نے اپنے  سےکم نشستیں  حاصل کرنے والے کمار سوامی کو وزیراعلیٰ کی کرسی تھماکرکرناٹک کا  سیاسی  منظر نامہ  بدل دیا۔اب  بی جے پی کی دوسری حکمت عملی یہ تھی کہ کسی طرح کانگریس کے رہنماوں کو خرید لیا جائے ایسے میں اگر ان پر دل بدلی قانون کے تحت کارروائی  ہوجائے اور وہ اپنی رکنیت گنوا بیٹھیں تب بھی کل اراکین اسمبلی کی تعداد ۲۱۰ سے کم ہوجائے تاکہ  بی جے پی ۱۰۵ ارکان اسمبلی کی مدد سے اکثریت میں آجائے لیکن یہ خواب  بھی اس وقت شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا کیونکہ کانگریسی اراکین  وزیر بن کر عیش کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ ملک کے اگلے وزیراعظم راہل گاندھی ہوں گے۔ اس سے انہیں مرکزی حکومت  سے بھی استفادے کا موقع مل جائےگا لیکن قومی انتخاب کے بعد وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ اس لیے یدورپاّ نے پھر سے کوشش کی اور ۱۳ کانگریسی  اور ۳  جے ڈی ایس ارکان اسمبلی کو خرید کر یرغمال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

ان ارکانِ اسمبلی  کی رکنیت اگر ختم بھی ہوجائے تو ارکان اسمبلی کی جملہ تعدداد۲۰۹ ہوجائے گی اور اس کا نصف ۱۰۵ بی جے پی کے پاس ہے ۔  اب ذرا تصور کریں کے جب  ان ۱۶ مقامات پر دوبارہ انتخابات منعقد ہوں گے اوراگر اس کے بعد  ۹  مقامات پر کانگریس و جے ڈی ایس کا اتحاد نیز ۷ پر بی جے پی کامیاب ہوجائے تو  کیا ہوگا ؟یہ کوئی خیالی مفروضہ نہیں ہے بلکہ قومی انتخاب کے فوراً بعد ہونے والے مقامی بلدیاتی انتخابات میں کانگریس کو بی جے پی سے بڑی کامیابی مل چکی ہے اس لیے امکان تو بہر حال موجود ہے۔ مٹھی بھر عوام نمائندوں کو خریدنے کی بہ نسبت کسی حلقۂ انتخاب کے سارے رائے دہندگان کو خریدلینا خاصہ مشکل کام ہے۔ اس صورت میں  بی جے پی پھر سے اقلیت میں آجائے گی۔ اس کے۱۱۲ اور اتحاد کے ۱۱۳ ارکان ہوجائیں گے۔ پھر سے بازار لگے گا اور دوبارہ خریدو فروخت ہوگی اور پھر سرکار گرے گی اور سنبھلے گی۔ یہی وہ  جمہوریت جس میں‘ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے ’۔ علامہ اقبال جمہوریت کے بہت بڑے ناقد تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے آزمائش کے وقت  اس  طرز حکومت میں بندوں کو پہلے دھن دولت کے ترازوپر تولہ جاتا ہے۔ ان کے وفاداری کی بولی  لگا کر خریدا جاتا ہے اور اس کے بعد  جاکر پھر گنتی ہوتی ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں ہر موڑ پر دھن دولت کا کھیل ہوتا ہے۔ پارٹی کے رہنما سرمایہ کے زور سے خود کو وزیراعظم یا صدارتی امیدوار بناتے ہیں۔ ہندوستان میں مودی اور امریکہ میں ٹرمپ نے یہی  کیا ورنہ ان سے قابل لوگ پارٹی  میں موجود تھے۔ اس کے بعد پیسے کے زور صحافیوں کو خریدا جاتا ہے تاکہ رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ پارٹی  ٹکٹ بیچ کر روپیہ کماتی ہے اور امیدوار  روپیوں کے عوض رائے دہندگان کی وفاداری خریدتے ہیں۔ اس مشق کے بعد جو امیدوار کامیاب ہوتے ہیں وہ روپیوں کے ڈھیر پر اپنے ضمیر کا سودہ کردیتے ہیں۔ بعثتِ محمدؐ سے قبل دنیا بھر میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور غلاموں اور لونڈیوں کو بیچا اور خریدا جاتا تھا۔ نظام اسلامی نے مختلف اصلاحات کے ذریعہ اس برائی  کا قلع قمع کردیا۔  مغربی تہذیب  کے حامل اس کے بعد بھی افریقی عوام کو  غلام بناکر جہاز میں بھر بھرکے امریکہ لے جاتے رہے  اور  اب جمہوریت کا علمبردار ٹرمپ انہیں اپنے ملک سے نکلنے کی دھمکی دے رہا ہے۔

سنگھ پریوار اپنے آپ کو نظریاتی تحریک کہتا ہے لیکن کیا یہ  باغی  کانگریسی  سنگھ کے نظریہ سے اتفاق کرکے اس کے ساتھ آئے ہیں ؟  لکشمی کےیہ پجاری  جو اپنے آپ کو بیچ کر بی جے پی کے ساتھ آئے ہیں کل خودکو فروخت کر کسی اور جماعت میں چلے جائیں گے۔ ایسے لوگ کسی پارٹی تو کیا اپنی قوم کے تئیں بھی وفادار نہیں ہوسکتے۔ کسی مرد سے بیاہ رچا لینے کے بعد جو کام ایک   طوائف بھی نہیں  کرتی وہی غداری   جمہوری سیاستداں کسی پارٹی میں رہتے ہوئے  ببانگ دہل  کرتے  ہیں۔ یہ خبر گردش کررہی ہے کہ   اس بار  کانگریس اور جے ڈی ایس کےارکان اسمبلی  کے ضمیر کو دیش بھکتوں نے دس دس کروڈ میں خریدا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سنگھ پریوار اپنے سیاسی مفاد کی خاطر  ملک میں کس ابن الوقتی اور موقع پرستی  کو فروغ دے رہا ہے؟

بی جے پی رہنما یدورپاّ چوتھی بار وزیراعلیٰ بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔  وہ پہلی بار اسی طرح کانگریس کے دھرم سنگھ کی سرکار کو گراکر نائب وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ کانگریس کی مانند انہوں نے کمار سوامی کی حمایت کرکےانہیں  وزیر اعلیٰ بنایاتھا۔ ان کے درمیان  یہ معاہدہ تھا  کہ ۲۰ ماہ بعد کمار سوامی اقتدار یدورپاّ کے حوالے کردیں گےلیکن مایاوتی کی مانند کمار سوامی  بھی اپنے وعدے سے مکر گئے اور بی جے پی نے ان کی سرکارگرادی اور صوبے میں صدر راج نافذ ہوگیا۔ اس کے بعد ان دونوں نے بغیر حلالہ کے نکاح کرلیا کمار سوامی کی حمایت سے یدورپاّ پہلی بار نومبر ۲۰۰۷؁ میں وزیر اعلیٰ بنے لیکن یہ شادی ایک ہفتہ میں ٹوٹ گئی یدورپاّ  کی حالت پھر اقتدار سے محروم بیوہ کی سی ہوگئی۔ ۲۰۰۸؁ میں یدورپاّ پھر سے وزیر اعلیٰ بنے  لیکن  ۳ سال بعد بدعنوانی کے الزامات میں  انہیں استعفیٰ دینا پڑا تو انہوں نے اپنے وفادار ووکالیگا رہنما سدانند گوڑا کواس امید میں و زیر اعلیٰ بنایا کہ بری ہوتے ہی وہ ان کے لیے وزارت اعلیٰ کی کرسی خالی کردیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد وہ بی جے پی کے ۱۲۰ میں سے ۷۰ ارکان اسمبلی کے ساتھ روپوش ہوگئے۔

یہ ان کی   اپنی پارٹی پہلی بغاوت تھی اس دباو کے نتیجے میں گوڈا کو جانا پڑا۔ دوسری مرتبہ کوئی خطرہ مول لینے کے بجائے انہوں نے اپنی ہی ذات  لنگا یت کے جگدیش شطار کو وزیراعلیٰ بنایا مگر اس کو بھی رسوا کیا اور ۱۲ ارکان کو اپنے ساتھ لے جاکر حکومت کو اکثریت سے محروم کردیا۔ ۲۰۱۳؁ کے اسمبلی  سے قبل  بی جے پی سے الگ ہوکر کرناٹک جنتا پارٹی بنادی اور بی جے پی کا ووٹ ۲۱ فیصد سے گھٹا کر ۸ فیصد پر پہنچا دیا۔ اس طرح کانگریس کو اقتدار نصیب ہوا لیکن ۲۰۱۴؁ انتخاب سے قبل وہ بی جے پی میں لوٹ آئے ، بی جے پی نے بھی بے حیائی کا مظاہرہ کرتےہوئے انہیں پارٹی کی کمان تھما دی  لیکن گزشتہ سال وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے  اس کے باوجود وزیراعلیٰ کا حلف لیا اور ڈھائی دن کے وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۴ماہ بعد انہوں نے پھر دولت کی مدد سے اقتدار پر جال ڈالا ہے اور وزیراعلیٰ بننے جارہے ہیں۔  اس موقع پر جولوگ ہندوستان میں جو لوگ جمہوریت کا قتل عام پر آنسو بہا رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ یدورپاّ کا شکریہ ادا کریں کیونکہ انہوں نے جمہوری نظام  کے چہرے پر پڑی خوبصورت نقاب کو نوچ کر اس کا اصلی چہرہ دکھا دیا۔

ایک سنگھ سیوک کے طور پر اپنی  سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والے یدورپاّ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اقتدار کی ہوس اور بدعنوانی کے معاملے میں یہ جعلی دیش بھکت  سنگھ پریوار   کانگریس اور جے ڈی ایس سے دوہاتھ آگے ہے۔ دھن دولت کی سیاست کرنے والے اعلیٰ درجہ کے بدعنوان ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اقتدار ناگزیر ہے اس لیے کہ ان کے سرپر ہمیشہ ہی جیل جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے لیکن وہی لوگ اپنی پارٹی کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں بھی  رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک بی ایس یدورپاّ بھی ہیں۔ مودی نے اپنے گرو سمیت اچھے اچھوں کو ۷۵ سال کی عمر کا بہانہ بناکر سیاسی بساط کے کوڑے دان میں پھینک دیا لیکن اگر ان میں ہمت ہے تو یدورپاّ کو ان کی عمر یادلاکر ٹھکانے لگائیں دال آٹے کا بھاو معلوم ہوجائے گا۔ یدورپاّ نے تو اپنا کام کردیا لیکن جن زعفرانی  بھکتوں اور مغربی جمہوریت کےمداحوں کی آنکھوں پرعصبیت و مرعوبیت کا جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ شاید ہی ہٹے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔