افتخار راغبؔ: حالاتِ زندگی اور شخصیت

ڈاکٹر ظفرؔکمالی

(زیڈ۔ اے۔ اسلامیہ کالج، سیوان، بہار، ہندوستان)

افتخار راغبؔ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے:

افتخار عالم ابن شیخ محمد ابراہیم ابن شیخ سلیم ابن شیخ محمد جھنکھن ابن شیخ نصر علی ابن شیخ مولا بخش۔ شیخ محمدجھنکھن کا آبائی پیشہ کاشت کاری تھا۔ ان کے چار بچے تھے:(۱)شیخ ڈھونڑھا(یہ پہلو ان اور اپنے علاقے میں    مشہور تھے)،(۲)شیخ محمد سلیم،(۳)شیخ دہاری اور (۴)شیخ علی حسین۔ ان چاروں    بھائیوں    میں    محمد سلیم نہایت سادہ مزاج انسان تھے۔ یہ لمبے قد کے گورے چٹّے خوبصورت شخص تھے۔ ان کے دل میں    قربانی کا جذبہ بہت تھا۔ اپنوں    اور بیگانوں    میں    سے کوئی ان سے جو چیز بھی طلب کرتا، یہ کبھی انکار نہیں    کرتے تھے۔ طبیعت میں    نفاست بہت تھی۔ کپڑوں    کی صفائی ستھرائی کا یہ عالم تھا کہ بسترِ مرگ پر بھی بغیر استری کا کپڑا نہیں    پہنتے تھے۔ یہ تبّت اور برما میں    عطر فروشی کا کام کرتے تھے۔ ان کی شادی موضع صندلی نزد برولی ضلع سارن حال ضلع گوپال گنج میں    شیخ رفاعت حسین کی صاحب زادی حبیب النساء سے ہوئی تھی۔ حبیب النساء کا انتقال ۱۹۷۴ء میں    ہوا۔ محمد سلیم نے ۳؍جون ۱۹۹۷ء کو وفات پائی اور نرائن پور قبرستان میں    دفن ہوئے۔

شیخ محمد سلیم کو قدرت نے تین اولادوں   سے نوازا۔ سب سے بڑی ایک لڑکی تھی جس کا بچپن میں    ہی وصال ہو گیا۔ بقیہ دو لڑکے شیخ محمد صدیق اور شیخ محمد ابراہیم ہیں  ۔ شیخ محمد صدیق سرکاری مڈل اسکول میں    ہیڈ ماسٹر تھے۔ شیخ محمد ابراہیم جنھوں    نے اپنے والد کا مزاج پایا ہے، میٹرک کے بعد ہتھوا سے آئی۔ ٹی۔ آئی کا کورس کیا۔پہلے یہ کھیتی کیا کرتے تھے۔ آئی۔ ٹی۔ آئی کے بعد ۱۹۷۹ء میں    سعودی عرب گئے اور وہاں    ایک برس رہ کر واپس چلے آئے۔ ۱۹۸۱ء میں    وہ دوحہ قطر گئے اور بیس برس ملازمت کرنے کے بعد ۲۰۰۱ء میں    مستقل طور پر گھر واپس آگئے اور کاشت کاری میں    مشغول ہو گئے۔ ان کی شادی نوتن ہریّا(گوپال گنج)میں    انوری خاتون بنت شیخ عمر علی سے ہوئی۔ خوش دامن کا نام خاتون جنت ہے جو ان کی سگی خالہ تھیں۔

شیخ محمد ابراہیم کو تین لڑکے ہیں   :(۱) افتخار عالم(۲)اظہار عالم اور(۳)ذوالفقار ابراہیم۔ اظہار عالم نے جامعہ ہمدرد سے بی۔ فارم کیا۔ ابھی بحرین میں    ملازمت کرتے ہیں  ۔ ان کی شادی موضع رام پور بھینسہی نزد شام پور ساسا موسیٰ میں    امیرا لحق کی دختر زرینہ خاتون سے ہوئی۔ ذوالفقار ابراہیم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ڈپلومہ ان میکنیکل انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد جے پور ریجنل انجینیرنگ کالج سے(بی۔ای)کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد کوٹاشہر سے  ایم۔بی۔ اے کیا اور ابھی قطر میں    ملازمت کرتے ہیں  ۔ ان کی شادی موضع برندابن میں   شیخ جہان الدین ولد مرحوم شیخ محمدکی صاحب زادی نسرین پروین سے ہوئی ہے۔

افتخار عالم تخلّص راغبؔ کی پیدایش ۳۱؍مارچ ۱۹۷۳ء میں    بروز شنبہ نرائن پور میر گنج ضلع گوپال گنج (بہار)میں    ہوئی۔ سرکاری تاریخِ پیدایش ۲؍مئی ۱۹۷۵ء ہے جو درست نہیں  ۔ دوسرے بھائی کی پیدایش کے بعد افتخار کو ان کی نانیہال نوتن ہریّا بھیج دیا گیا۔ وہاں    ان کی بسم اللہ خوانی ایک درویش کے ذریعہ کرائی گئی جو اکثر نوتن ہریّا آیا کرتے تھے۔ ان کا نام نہیں    معلوم ہوسکا۔افتخار کے نانا شیخ عمر علی عصری اور دینی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ مزاج دینی تھا۔ محلے کی مسجد میں    امامت کے فرائــض انجام دیتے۔ وہ تعلیمِ نسواں    کے زبردست حامی تھے۔ ان کی بہو اور بیٹی پڑوس کی بچیوں    کو اپنے گھر میں    پڑھا یا کرتی تھیں  ۔ ان کے لڑکے ضیاء الدین احمد شام کے وقت پڑوس کے لڑکوں    کو بلا معاوضہ تعلیم دیتے۔ افتخار کی ابتدائی تعلیم اپنے نانیہال میں    شروع ہوئی۔ انھوں    نے گھر پر اردو اورعربی پڑھی پھر ان کا داخلہ نوتن کے سرکاری اسکول میں    کرایا گیا۔ وہاں    دوسال پڑھنے کے بعد اپنے گھر واپس آئے اور اسلامیہ اردو اکیڈمی (میرگنج)میں   دوسرے درجے میں    داخل ہوئے۔ وہاں    سے تیسرے درجے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹۸۳ء میں    گھر سے قریب ہی مولوی اسماعیل میموریل اردو ہائی اسکول بنی گنج (سیوان)میں    پانچویں    جماعت میں    داخلہ ہوا۔ یہ پرائیوٹ اسکول تھا۔ میٹرک کا فارم اُچکا گانو(گوپال گنج) سے بھرا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں    اول درجے میں    کامیاب ہوئے۔ آئی۔ ایس سی۱۹۹۱ء میں    کالج آف کامرس (پٹنہ)سے اول درجے میں    پاس کیا۔ اسی کالج میں    ابھی بی۔ ایس سی تھرڈ پارٹ میں    تھے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے انجینیرنگ کے مقابلے میں    کامیاب ہوئے اور وہاں    ۱۹۹۴ء میں    داخلہ لیا۔ ۱۹۹۸ء میں    سیول انجینیرنگ میں    B.Tech.کیا۔ چھے مارچ ۱۹۹۹ء میں    دوحہ قطر چلے گئے اور ملازمت اختیار کی اور ابھی وہیں    قیام ہے۔ چونکہ افتخار کے والد ملازمت کے سلسلے میں    مستقل باہر رہے لہٰذاافتخار کی والدہ نے ان کی تعلیم میں    خصوصی دلچسپی لی  اور بڑے ماموں    ضیا الدین احمد جو سرکاری مڈل اسکول میں    ہیڈماسٹر کے طور خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئے ہیں   ، نے تعلیمی رہ نمائی فرمائی جس کے وہ دل سے معترف ہیں  ۔

۱۷؍جولائی ۱۹۹۶ء میں    افتخار کی شادی برندا بن تھاوے کے مصباح الدین احمد کی دختر قرۃالعین سے ہوئی۔ نکاح مولانا مظہرالحق ابن محمد رسول مدرس مدرسہ سراج العلوم سیوان نے پڑھایا جو اس وقت مذکورہ مدرسے کے مہتمم ہیں  ۔ دَین مہر مبلغ پانچ ہزار ایک روپے سکّہ رائج الوقت مقرر ہوا۔ افتخار کے چار بچّے ہیں   :(۱)عادل افتخار(۲)شاغل افتخار(۳)مدیحہ کلثوم(۴)واصل افتخار۔ازدواجی زندگی خوشگوار ہے۔ بیگم افتخارکی تعلیم تو گھریلو ہے، اس کے باوجود شوہر کے مزاج کے مطابق خود کو ہم آہنگ رکھتی ہیں  ۔

افتخارکا قد اوسط اور رنگ سانولا ہے۔ چہرے پر ہلکی داڑھی ہے۔ عام پوشاک پینٹ شرٹ ہے۔ کھانے پینے میں    کوئی خاص پسند نہیں    لیکن کھانا جو بھی ہو اس کا خوش ذائقہ ہونا ضروری ہے۔ نماز پڑھتے ہیں   لیکن مکمل طور پر اس پر کاربند نہیں    رہ پاتے۔ روزے پورے رکھتے ہیں  ۔ مزاج اسلامی ہے۔ قیامِ پٹنہ کے دوران میں    اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنا ئزیشن کے پروگراموں    میں    برابر شریک ہوتے رہے لیکن اس کے باضابطہ ممبر نہیں    تھے۔اسی آرگنائزیشن کے ہفتہ وار پروگرام کے تحت ابونصر فاروق صاحب قرآن و حدیث کا درس دیتے تھے۔ افتخار ان کی شخصیت اور علم سے بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر احمد عبدالحئی کی مسجد کے درسِ قرآن میں    بھی وہ ذوق و شوق کے ساتھ شامل ہوتے۔ جب یہ جامعہ ملّیہ کے طالبِ علم تھے تو انھیں    اسلامک ڈپلومنٹ بینک کی جانب سے اسکالر شپ بھی ملی تھی۔

افتخار راغب جب ہندستان میں    ہوں    تو راقم الحروف سے ملاقاتیں    ہوتی رہتی ہیں  ۔ دوحہ قطرے سے بھی گاہے بگاہے فون سے گفتگو ہوجاتی ہے۔ میں    نے ہر ملاقات میں    ان میں    تہذیب و شائستگی کی وہ جھلک دیکھی جو عصرِ حاضر میں    کمیاب ہے۔ ان کی گفتگو نپی تلی اور مہذبانہ ہوتی ہے۔ مزاج میں    خاکساری ہے لہٰذا خاکسار طبیعت لوگوں    کو پسند بھی کرتے ہیں  ۔ انانیت پسند حضرات سے چڑھتے اور جو لوگ اپنے منھ میاں    مٹھو بنتے اور ہمیشہ اپنا ہی ذکرِ خیر کرتے رہتے ہیں  ، ان سے متنفر رہتے ہیں۔ وہ بذلہ سنج ہیں ۔ بات میں    بات پیدا کرکے دوستوں    کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں  ۔ منظّم زندگی بسر کرنے کی کوشش برابر کرتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں    کبھی کامیاب نہیں    ہوتے۔ کسی کام میں    ضرورت سے زیادہ سوچتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ان کی طبیعت کا عکّاس ہے  ؎

تم بہت سوچنے کے عادی ہو

تم گنواتے رہوگے ہر موقع

اختلاف سے بچنے کی سعی کرتے رہنا ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ گیارہ برس کی عمر میں    جب یہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے، اپنی ایک ہم جماعت سے انھیں    معصومانہ دل رفتگی ہو گئی۔ اس فریفتگی کا علم شاید محبوبِ دل ستاں    کو بھی تھا۔ اس کے مرکزِ توجہ بننے کی وجہ سے افتخار دیہی زندگی کی ’خرافات‘ سے محفوظ رہے۔ اس حادثے کو زمانہ بیتا لیکن کچی عمرکے تین چار برس کی یاد آج بھی ان کے دل میں    چٹکیاں    لیتی ہے۔

افتخار کی دائیں    آنکھ کمزور ہے۔ پٹنہ میں    ڈاکٹر آراین پانڈے ماہرِ امراضِ چشم نے ۱۹۹۲۔۱۹۹۳ء میں    مشورہ دیا تھا کہ پڑھائی چھوڑ دیں    ورنہ دوسری آنکھ کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ انھوں    نے ڈاکٹر کی راے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اپنی تعلیم مکمل کی لیکن آنکھ کی کمزوری سے اردو کی ادبی کتابیں    کم پڑھیں    جس کی وجہ سے ان کی اردو کی بنیاد مضبوط نہیں    ہو پائی۔پھر بھی اپنی تحریروں    میں   غلطیوں    سے بچنے کی بھر پور کوشش کرتے  ہیں  ۔

افتخار کے گھر کا ماحول بہت پرسکون ہے۔ تینوں    بھائی آپس میں    مل جل کر رہتے اور اپنے والدین کا دل سے احترام کرتے ہیں  ۔ اس عہد میں    جب رشتوں    کی پاسداری کا لحاظ تقریباً خاتمے کے قریب ہے، افتخار کے یہاں    کی پاکیزہ فضا دیکھ کر بہت سکون ہوتا ہے۔ ان کے بچے بھی بڑے مہذب اور شایستہ اطوار کے ہیں  ۔ بچوں    کی تعلیم و تربیت پر وہ خصوصی توجہ دیتے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں    رہتے ہیں  ۔

وہ اپنے دوستوں    کے جذبات کا بے حد خیال رکھنے والے ہیں  ۔ وہ سب سے مسکراکر ملتے اور نرمی سے گفتگو کرتے ہیں  ۔ پر لطف مواقع پر کھلے دل سے قہقہے بھی لگاتے ہیں  ۔ وہ خاموشی سے ضرورت مندوں    کی ہرممکن حاجت روائی کرتے رہتے ہیں  ۔ ان کے یہاں    تصنع اور موقع پرستی کا گزر نہیں  ۔ ان سے بیسیوں    برس کی ملاقات ہے لیکن آج تک کبھی غصے کی حالت میں    نہیں    دیکھا۔ ضد کا مادّہ ضرور ہے۔ چونکہ سادہ دل ہیں    اس لیے خلوص کی دولت سے بہرہ مند ہیں  ۔ انھیں    ہر قدم پر اسلامی احکام کا پاس و لحاظ رہتا ہے۔ دل میں    اللہ کا حقیقی خوف موجود ہے، اس چیز نے انھیں    بہت سی دنیوی آلایشوں    سے محفوظ رکھا ہے۔

افتخار راغبؔ کے گھر میں    کسی کو اردو ادب سے دل چسپی نہیں    تھی لیکن افتخار کی طبیعت میں    بچپن سے ہی ایک قسم کی موزونیت تھی۔ اردو کی درسی کتابوں    میں    جو نظمیں    تھیں    انھیں    زبانی یاد کرکے گنگناتے رہتے تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا ہائی اسکول کے زمانے میں    ہی ہوگئی تھی اور افتخار عالم نے اپنے لیے راغبؔ تخلص منتخب کر کے اپنا پورا نام افتخار عالم راغبؔ لکھنا شروع کر دیا۔وہ رمضان کے ترانے لکھتے اور فلمی نغموں    کی پیروڈیاں    بھی۔ بقولِ خویش وہ شروع سے ہی انفرادیت پسند تھے۔ اسکول میں    ڈرامے میں    حصہ لیتے تھے۔ سارن کمشنری کے مقابلہ جاتی ڈرامے میں    انھیں    انعام سے نوازا گیا تھا۔ انھیں    علم الحساب سے خصوصی دل چسپی تھی۔ رسالوں    میں    دشوار سوالات ڈھونڈتے اور انھیں    حل کرتے، پٹنہ جانے کے بعد۱۹۸۹ء سے باضابطہ شاعری شروع کی۔ ابتدا میں    وہ پٹنہ کے شاہ گنج محلہ میں    رہتے تھے، قریب ہی کیفؔ عظیم آبادی کا قیام تھا۔ یہ ان کے پاس اصلاح کی غرض سے کچھ کلام لے کر گئے۔ کیفؔ نے حوصلہ افزائی تو ضرور کی لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے اصلاح سے معذرت کی اور اپنے استاد رمزؔ عظیم آبادی کے نام رقعہ لکھ کر دیا۔ رمزؔ صاحب نے انھیں    اپنے حلقۂ شاگردی میں    داخل کرلیا۔

انھوں   نے کچھ غزلوں    پر اصلاح کے ساتھ ساتھ شعری رموز و نکات سے بھی آشنا کیا۔ راغب چونکہ سائنس کے طالب علم تھے اور انجینیرنگ میں    داخلے کی تیاریوں    میں    مصروف تھے اس لیے شاعری پر بھرپور توجہ کرنا ممکن نہیں   تھا۔ جب وہ مقابلے میں    کامیاب ہوکر دہلی چلے گئے تو رمزؔ سے ان کا رابطہ باقی نہیں    رہ سکا۔ انجینیرنگ کالج میں    ان کے استاد ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی ادبی ذوق رکھنے والے تھے اور ایسے طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔راغب نے انھیں    بھی کچھ کلام دکھایااور ان سے کچھ فنی نکات سیکھے۔ انھوں    نے مشورہ دیا کہ پڑھائی کی مدت میں    پوری توجہ تعلیم پر ہونی چاہیے۔ شاعری کا ذوق باقی ضرور رہے لیکن شاعری تعلیمی سلسلہ مکمل ہونے کے بعد کی جائے۔

قطر جانے کے بعد روزگار کی تلاش کے ساتھ راغب نے ادبی حلقوں    سے روابط استوار کرنے کی کوشش کی۔ مدھوبنی( بہار)کے رہنے والے امجد علی سرور ؔ سے جب ان کی شناسائی ہوئی تو انھوں    نے قطر کے ادبی حلقوں    سے ان کا تعارف کرایا اور یہ پہلی بار ’’بزمِ اردو قطر‘‘  کے  ۱۹۹۹ء کے سالانہ طرحی نعتیہ مشاعرے میں    شریک ہوئے۔ افتخار،امجد علی سرورؔ، لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر عزیزؔ رشیدی (مرحوم)، منصورؔ اعظمی اور  جمشیدؔ انصاری کے ساتھ ایک عرصے تک ایک ہی مکان میں    رہے جہاں    دیگر شعرا کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا اور شعر و سخن پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ وہاں    انھوں   نے امجد علی سرورؔ کو کچھ غزلیں    دکھائیں    لیکن مشوروں    پر اتفاق نہیں    ہونے اور فکر و خیال میں    اختلاف کی وجہ سے یہ سلسلہ آگے نہیں    بڑھ سکا۔افتخار راغب ان کے علاوہ دیگر دوستوں    کو بھی اپنا کلام سناتے اور کسی کی طرف سے بھی کوئی نشاندہی ہوتی کہ یہ مصرع کچھ کمزور ہے یااوربہتر ہونا چاہیے تو وہ ان مشوروں    پر سنجیدگی سے غورکرتے اور اشعار میں    تبدیلیاں    کرتے۔ انھوں    نے بزمِ اردو قطر کے ماہانہ طرحی مشاعروں    اور ایک عرصے تک ہونے والی ہفتہ وار تنقیدی نشستوں    سے کافی استفادہ کیا ہے۔

سائنس کا طالبِ علم ہونے کے باوجود اردو ادب کے تئیں    افتخار کی شیفتگی قابلِ قدر ہے۔ اپنی ملازمت اور گھریلو ذمّے داریوں    کے بعد انھیں    جوبھی وقت ملتا ہے وہ شعرو ادب کے مطالعے میں    صرف کرتے ہیں  ۔ وہ بڑی پابندی اور شغف کے ساتھ غزلیں    کہتے ہیں  ۔ طبیعت کا تخلیقی وفور انھیں    سدا سرگرمِ عمل رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۴ء سے لے کر ۲۰۱۹ء تک ان کے پانچ مجموعہ ہاے کلام زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں  ۔ یعنی ’’لفظوں    میں    احساس‘‘۲۰۰۴ء میں    (۲۰۱۱ء میں    اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔۲۰۰۶ء میں    آدم پبلشرز نئی دہلی کے زیرِ اہتمام اس کا ہندی ایڈیشن بھی چھپا)،’’خیال چہرہ‘‘ ۲۰۰۷ء، ’’غزل درخت‘‘ ۲۰۱۴ء، ’’یعنی تو‘‘ ۲۰۱۷ء اور ’’کچھ اور ‘‘ ۲۰۱۹ء میں  ۔ اتنے مجموعوں    کی اشاعت کے بعد ان کا تخلیقی جوش کم نہیں    ہوا بلکہ وہ اور بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں    ان کی شاعری کی اینڈرائڈ ایپ بھی تیار ہو چکی ہے جو Google Play Store میں    انسٹال کرنے کے لیے دستیاب ہے جس میں    سارے مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں  ۔

راغب میری طرح گوشہ گیر نہیں   ۔ انھیں    ادبی مجلس آرائی کا بہت شوق ہے۔ وہ فیس بک پر بھی مسلسل اپنی غزلیں    پوسٹ کرتے رہتے ہیں    اور واٹس ایپ کی دنیا میں    بھی بہت معروف ہیں  ۔ چھوٹی بڑی محفلوں    اور مشاعروں    میں    کلا م سنانا انھیں    نہایت مرغوب ہے۔ موقع محل ہوتو وہ زیادہ سے زیادہ اشعار سنانے سے نہیں    چوکتے۔ متعدد شہروں    میں    اپنی کتابوں    کی رونمائی کرتے رہتے ہیں  ۔ گلوکاروں    نے ان کی غزلیں    ساز کے ساتھ گائی بھی ہیں  ۔ افتخار راغب پہلے صرف تحت میں    کلام سناتے تھے لیکن اب ترنم میں   بھی پڑھنے لگے ہیں   ۔ ذاتی طورپر مجھے ان کا ترنم قطعی پسند نہیں    لیکن شاعر کے من کی موج کے آگے کس کی چلی ہے۔

قطر کی فعال ادبی شخصیات میں    افتخار راغب کا بھی شمار ہوتا ہے۔ وہ قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم ’’بزمِ اردو قطر‘‘ (قائم شدہ ۱۹۵۹ء )کے ۲۰۱۰ء سے جنرل سکریٹری ہیں   ۔ ’’حلقۂ ادب اسلامی قطر ‘‘ کے بھی پانچ برسوں    تک (۲۰۱۰۔۲۰۱۵ء) جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں    اور ابھی مجلسِ عاملہ کے رکن ہیں  ۔ ’’گزرگاہِ خیال فورم‘‘  کی ماہانہ غالب فہمی کی نشستوں    میں    پابندی سے شریک ہوتے ہیں   اور اکثر و بیش تر غالب کے مصرعوں    پر شگفتہ تضمین بھی پیش کرتے ہیں  ۔ ’’انجمن شعرائے اردو ہند قطر‘‘، ’’انڈیا اردو سوسائٹی قطر‘‘ اور ’’کاروانِ اردو قطر‘‘  وغیرہ کے مشاعروں    میں    پابندی سے شرکت کرتے رہے ہیں  ۔ وہ ’’ انڈین ایسوسی ایشن آف بہار اینڈ جھارکھنڈ‘‘ کے جشن یومِ بہار کے موقع سے ہونے والے عالمی مشاعرے کے کوآرڈی نیٹربھی رہ چکے ہیں  ۔ قطر کے علاوہ دیگر خلیجی ممالک کے بڑے مشاعروں    میں    شریک ہوتے رہتے ہیں  ۔

افتخار راغب کا مزاج صلحِ کل کا ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں    اور آپسی نزاع سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں  ۔ وہ جہاں    بھی رہیں    تمام ادبی برادری کو متّحد رکھنا چاہتے ہیں    لیکن اپنی تمام تر ایمانداری کے باوجود اس میں    کامیاب نہیں    ہوپاتے۔ انھیں    بھی ادبی گروہ بندی اور ذاتی عناد کا شکار ہونا پڑا۔ ان سے ادبی پرخاش رکھنے والوں    کی کمی نہیں   ۔ پہلے وہ مجھے سمجھاتے تھے لیکن اب وہ خود ادبی ریشہ دوانیوں    کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں  ۔

۱۹۹۰ء میں    سب سے پہلے روزنامہ ’’قومی تنظیم ‘‘پٹنہ میں    ان کی ایک مناجات چھپی جس کا مطلع تھا    ؎

ہو مشعلِ ہدایت قرآن زندگی بھر

قایم رہے خدایا ایمان زندگی بھر

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رسالے’’ تہذیب‘‘ میں    بھی کچھ غزلیں    شائع ہوئی تھیں    اور اب تووہ باقاعدہ ہر جگہ چھپنے لگے ہیں  ۔ افتخار نے نظمیں    بھی لکھی ہیں  ، حمد و نعت، قطعات اور دوہے بھی لیکن بنیادی طورپر وہ غزل کے ہی شاعر ہیں  ۔ ان کا ظریفانہ ذوق بھی عمدہ ہے۔ اسی ظریفانہ ذوق کی کارفرمائی ہے کہ اب وہ باضابطہ طنزیہ مزاحیہ اشعار کہنے لگے ہیں    اور بہت جلد مزاحیہ مجموعہ بھی شائع کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں  ۔

افتخار راغب کی زندگی جن بنیادی قدروں    سے وابستہ ہے اس کی جھلکیاں    ان کے کلام میں    ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں  ۔ انتظار نعیم نے بجا طورپر انھیں    پاکیزہ احساس کا شاعر کہا ہے۔ ہر انسان کے اندر نفسِ امّارہ کی صورت میں    ایک شیطان چھپاہوتا ہے۔ اگر اس سرکش پر قابو نہ پایا جائے تو انسان زندگی بھر ظلمت کی وادیوں    میں    بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ حرص و ہوس، جوروجفا، ظلم و استحصال، جبرو استبداد، مکرو فریب اور جاہ طلبی و غیرہ وہ مختلف صورتیں    ہیں    جن کا بہروپ بھر کر وہ شیطان ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ افتخار سادہ دل  ہوتے ہوئے مکرو فریب کی چال بازیوں    سے خوب آشنا ہیں   اور اپنے اشعار کے ذریعے اس شیطانی جال کو توڑنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں  ۔ بعض جگہوں    پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں    کوئی جوگی دھوٗنی رمائے بیٹھا ہے۔ وہ جوگی جب کبھی گیان دھیان سے اپنا سر اٹھاکر اس مایہ نگری کی جانب دیکھتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے  ؎

مٹّی کے ہیں    مٹّی میں    مل جائیں    گے

رہ جائے گا چاندی سونا، سمجھے نا

جھوٹے کا انجام برا ہے سچ بولو

سچائی کا سر اونچا ہے سچ بولو

دل میں    ہردم خوف ہے سچ کھل جانے کا

یوں    جینا بھی کیا جینا ہے سچ بولو

جیون کیا ہے آندھی میں    اک ریت کا گھر

کتنے پل قائم رہنا ہے سچ بولو

اللہ دیتا ہے عزت بھی ذلّت بھی

جھوٹی شان میں    کیا رکھّا ہے سچ بولو

باطل کی پہرے داری میں    بھی راغبؔ

سارا عالَم بول رہا ہے سچ بولو

تقسیمِ عظیم کے بعد ہندو پاک کے جن شعرا کو اپناوطن چھوڑنا پڑا، ان کی شاعری میں    ہجرت کا کرب خاصا نمایاں    نظر آتا ہے۔ چونکہ یہ ہجرت خاک و خون کے دریا سے گزرکر ہوئی تھی اس لیے اس کرب و اضطراب کی کیفیت کچھ اور تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ بدلتے منظر نامے میں    تلاشِ رزق کے لیے لوگ بڑی تعداد میں    اپنے وطن سے دور سات سمندر پار جانے پر مجبور ہوئے۔ لمبے لمبے عرصے تک اپنے وطن، اپنی مٹّی اور اپنے عزیزوں    سے جدائی بھی کسی ہجرت سے کم نہیں    لیکن تقسیمِ عظیم اور موجودہ ہجرت کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اُس ہجرت کا غم اجتماعی تھا اور موجود ہ ہجرت کا درد انفرادی ہے۔ جو ادیب و شاعر اس ہجرت کا کرب جھیل رہے ہیں    ان کے کلام میں    اس المیے کا اظہار بڑی شدّت سے ہوا ہے۔ حال ہی میں    اس المیے سے دوچار پاکستانی شاعر یعقوب تصوّؔر کا مجموعۂ کلام ’’سیپیوں    کی قید میں   ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نمونے کے طورپر ان کے یہ تین اشعار دیکھتے چلیں ؎

مسافرت کی صعوبت میں    عمر بیت گئی

بچی تو پانو سے کانٹے نکالتے گزری

خدایا دشت نوردی کا شوق کس کو ہے

مسافروں    نے فقط آب و دانہ چاہا ہے

صبح کو چہرہ جلے، شام کو آنکھیں    بھیگیں   

عمر صحرا میں    کٹے، شہر میں    گھر رکھتا ہوں   

افتخار راغبؔ نے بھی اس دربدری کا عذاب سہاہے بلکہ سہہ رہے ہیں    لہٰذا ان کے یہاں    بھی یہ خیال مختلف شکلوں    میں    بیان ہوا ہے جس سے ان کی قلبی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ؎

اک اک لمحہ گن کر کاٹ رہا ہوں   

ہجر کے دن یا پتھّر کاٹ رہا ہوں   

پردیسی ہوں    دیکھ لے اے تیرہ شب

کتنی مصیبت دن بھر کاٹ رہاہوں   

ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں    میں   

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں    میں   

گر یہ دھوکا نہیں    ہے تو راغبؔ ہے کیا

تیرے ہونٹوں    پہ مسکان پردیس میں   

بے وطن ہو تو پھر پڑے گا ہی

واسطہ روز، روزِ محشر سے

پردیسی کو چین کہاں    حاصل راغبؔ

گھر جاکر آرام سے سونا، سمجھے نا

لے جائے جہاں    چاہے ہوا ہم کو اڑاکر

ٹوٹے ہوئے پتّوں    کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس میں    رہ کر کوئی کیا پانو جمائے

گملے میں    لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

افتخار راغبؔ کے کلام میں    اسلامی افکار و نظریات کی چھاپ گہری ہے۔ جذبۂ اصلاح پسندی کی وجہ سے کہیں    کہیں    مقصدیت کی لَے ذرا اونچی ہوگئی ہے اور یہ چیز غزل کے مزاج کو زیادہ راس نہیں    آتی۔ کوئی بھی خیال اگر شعری تجربہ نہیں    بنے یا اس میں    کمی رہ جائے تو اس سے فن متاثر ہوئے بغیر نہیں    رہ سکتا۔ راغبؔ اگر حالیؔ کی قدیم و جدید دونوں    دور کی غزلوں    کا مطالعہ کریں    تو انھیں    اس کا احسا س ہوگا کہ دوسرے دَور میں    اخلاقیات کی علم برداری کی وجہ سے غزل کی مجموعی فضا خاصی خشک، بے کیف اور بوجھل نظر آتی ہے جب کہ دَورِ اول کی غزلوں    میں    ایک خاص کیفیت اور جاذبیت ہے۔ راغبؔ کے یہاں    حسن و عشق کے موضوعات بھی ہیں    لیکن ان کے یہاں    رنگینی کم ہے۔ روایت کی پگڈنڈیوں    پر چلنا انھیں    زیادہ عزیز ہے۔ چونکہ ان کا دل حقیقت شناس ہے اور اصلاحی ادب کی جانب ان کی طبیعت کا رجحان زیادہ ہے، لہٰذا وہ انسانی قدروں    کے محافظ کی حیثیت سے زیادہ سامنے آتے ہیں  ۔ وہ اپنی بات اشارے کنایے میں    کم کہتے ہیں۔ ان کے یہاں    صراحت زیادہ اور ابہام کم ہے۔ معنی کی اکہری سطح کی وجہ سے ابتدائی مجموعوں    میں    تہہ داریت کا فقد ان ہے۔

راغبؔ کے اشعار میں    ان کے ذاتی مشاہدے کا رنگ ہر قدم پر جھلکتا ہے۔ ان کا سماجی احساس بھی بڑا بالیدہ ہے اور جابجا سیاست کی پرچھائیاں    بھی دیکھنے کو ملتی ہیں  ۔ اندازِ فکر مثبت ہے۔ ان کی رجائیت پسندی ہی ان سے یہ کہلواتی ہے کہ   ؎

اس درجہ اجالوں    سے ہے رغبت مجھے راغبؔ

ہوتا نہ میں    انسان تو ہوتا کوئی سورج

چھوٹی بحر کی غزلوں    میں    راغبؔ کا فن زیادہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ایسی غزلوں    میں    سادگی کے ساتھ حسن بھی ہے اور لہجے کی دل کشی بھی۔ ان اشعار میں    ان کے جذبے کا سوز سمویا ہوا لگتا ہے۔  ؎

چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی

ہم طرزِ جہاں    سے ہٹ کے روئے

قصرِ دل ہوگیا کھنڈر راغبؔ

اس نے بھی کیسی حکمرانی کی

بڑے ہی کام کی مٹّی مرے وجود میں    ہے

سو مجھ پہ بھی تو کبھی چشمِ کوزہ گر ٹھہرے

کہاں    ہے آج تمھارا وہ جامِ جم راغبؔ

ہمارے پاس تو جامِ سفال اب بھی ہے

جیسے اشعار دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں    جو پہلی کتاب’’ لفظوں    میں    احساس‘‘ سے ہیں     لیکن ایسے اشعار کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

افتخار راغبؔ باصلاحیت فن کار ہیں  ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ صاحبِ دل ہیں    اور دل بھی ایسا جو چوٹ کھایا محسوس ہوتا ہے۔ وہ ذرا سی توجہ سے اپنے لہجے میں    وہ فنی رچاو پیدا کرسکتے ہیں    جو عام شعرا کے بس کی بات نہیں  ۔ انھیں    اس کا ادراک ہے کہ لفظوں    میں    احساس پرونا آسان نہیں    ہوتا۔ وہ اپنی غزلوں    میں    فنی نکات کا خیال رکھنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔ وہ غزل کی تہذیبی روایت سے وابستہ رہتے ہوئے مضامینِ تازہ کی تلاش میں   سرگرداں    رہتے ہیں   ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں    ’’بازار کا رنگ‘‘ اختیار کرنے سے بچتے ہیں  ۔ اپنے انفرادی لہجے کی تلاش میں    وہ بے حد کوشاں    ہیں  ۔ ان میں    محنت، ہمت اور لگن کی کمی نہیں  ۔ ان میں    فن کے تئیں    سنجیدگی اور شیفتگی کا جذبہ بھی ہے۔ ابھی ان کے یہاں    سوز اور اثر آفرینی کی کچھ کمی ہے اور یہی چیز بقولِ شاعر پتھر کو بھی گداز کردیتی ہے۔ میرؔ کے لفظوں    میں    غزل موزوں    کرتے وقت اگر وہ تامّل کرنے اور دل جگر خون کرنے کی روش اختیار کرلیں    تو مجھے پوری توقع ہے کہ وہ بہت جلد اپنی منزل کو پانے میں    کامیاب ہوجائیں    گے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔