کرنسی پر پابندی سے عوام دہشت زدہ 

نہال صغیر
ملک میں کرنسی کی منسوخی پر اپوزیشن کے احتجاج سے پارلیمنٹ تعطل کا شکار بناہوا ہے ۔اسی ہنگامے کے بیچ انکم ٹیکس ترمیمی بل پاس بھی ہوگیا۔اس بل سے سامنے آنے والے نئے حدود و قیود سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جمہوری ملک میں نہیں بلکہ کسی آمرانہ حکمراں کے زیر سایہ زندگی گذارنے کے لئے مجبور کر دیئے گئے ہیں۔حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آکر بیان دیں ۔ لیکن بے چارے وزیر اعظم خود میں اتنی اخلاقی جرات نہیں پاتے کہ وہ اپوزیشن کے تیز و تند زبانی حملوں سے اپنی حکومت کے فیصلوں کا دفاع کر پائیں ۔یہی سبب ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے پھررہے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ میں ملک کے سوالوں کے جواب کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔صرف یہ دعویٰ کردینا کہ ان کا یہ قدم بدعنوانی اور دہشت گردی پر ایک سخت چوٹ ہے سے کام نہیں چلے گا ۔آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ نظر بھی آنی چاہئے اور اسے ثابت بھی کیا جانا چاہئے ۔ ملک ہی نہیں دنیا کی نامی گرامی ہستیاں یہ کہہ چکی ہیں کہ کرنسی پر پابندی سے بدعنوانی پر قابو پانا ناممکن ہے ۔اس سے قبل نوے کی دہائی میں روس نے بھی اپنے یہاں ایسے ہی فرمان جاری کئے تھے اور اس کے بعد روس دنیا کے نقشہ پر متحدہ روس سے محض ایک ملک بن کر رہ گیا اور اس کی دنیا میں سوپر پاور کی حیثیت ختم ہو گئی ۔مودی کے بھکتوں نے نوٹ پابندی کو بدعنوانی اور دہشت گردی پر کراری چوٹ سے تعبیر کرنا شروع کیا تھا ۔حکومتی پیمانے پر اب سب جگہ وہ اشتہار نظر آرہا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی اور بدعنوانی کی اس جنگ میں عام آدمی کا پیسہ محفوظ ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پیسہ محفوظ ہو کر ہی کیا کرے گا جب بروقت اس کی ضرورتیں پوری نہ کر سکے ۔
کولکاتا ہائی کورٹ کے جج نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ حکومت نے ہوم ورک کے بغیر ہی اتنا سخت اور اہم فیصلہ نافذ کردیا ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں اب حالات قابو میں آرہے ہیں لیکن اب بھی جبکہ چوبیس دن گذر چکے ہیں بینکوں کے باہر قطار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔یہ اس عجلت کا ہی انجام تھا کہ اب تک ملک میں اقتصادی ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے ۔بازار ویران ہیں اور بینکوں میں قطار ہے ۔جن لوگوں کو حالات قابو میں نظر آرہے ہیں شاید ان کے گھروں میں حکومت نے سہولیات فراہم کرادی ہوں گی تاکہ وہ بھکتوں کی طرح مودی مودی کی رٹ لگاتے رہیں ۔حکومت کے اشتہاروں میں دو دعوے نظر آرہے ہیں ایک تو بدعنوانی اور سیاہ دولت پر کنٹرول اور دوسرے دہشت گردی کا خاتمہ ۔لیکن پچھلے پندرہ دنوں میں ایک دو واقعات کے علاوہ کچھ ایسا نظر آیا ہے کہ لوگوں نے نوٹوں کے بنڈل کوڑوں پر پھینک دیئے ہوں۔جن واقعات میں نوٹوں کو ضبط کیا گیا یا بسوں سے باہر پھینکا گیا یا کوڑے میں ڈالا گیا ان کی تعداد کتنی ہے ۔ممکن ہے کہ یہ خود حکومتی کارندوں نے اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہی کیا ہو۔عام طور پر جو خبریں آئی ہیں اور جو ہم نے بھی دیکھی اور محسوس کی ہیں اس میں جن لوگوں کے پاس کالی کمائی ہو سکتی تھی وہ پوری طرح مطمئن نظر آئے انہیں گھبراہٹ یا پریشانی نہیں ہے ۔کیجریوال نے بھی الزامات عائد کئے ہیں کہ ایسے سارے لوگوں اور خصوصاً بی جے پی اور ان کے قریبی لوگوں کی سیاہ دولت کو پہلے ہی جھٹکے میں سفید کردی گئی ہیں ۔کیجریوال کے ان الزامات میں سچائی بھی نظر آتی ہے کیوں کہ نئے نوٹوں کے بنڈل کی تصاویر دو روز قبل سے ہی سوشل میڈیا پر نظر آرہے تھے اور بھی ایسے کئی شواہد ہیں جیسے کہ کسی بی جے پی لیڈر کی بیٹی کا نوٹوں ہاتھ میں لے کر فوٹو کھنچوانا اور مغربی بنگال کے بی جے صدر کا پارٹی اکاؤنٹ میں کروڑوں روپئے جمع کرانا ۔پریشان و تباہ حال تو وہ عام آدمی ہے جس کو اس ملک میں صرف ووٹ دینے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے قاتل کے انتخاب تک کی سہولیات دستیاب ہے ۔اس کے بعد کوئی اس کی خیر خبر لینے والا نہیں ۔حکومت کے اچانک احمقانہ فیصلوں سے اسے کئی دنوں تک بھوکوں رہنا پڑا ۔اس کے بچے ہسپتال میں بغیر علاج کے مرتے رہے ۔وہ لائین میں لگا مایوسی کی حالت میں دل کی حرکت کو کنٹرول نہیں کرپایا اور اپنی زندگی ہارتا گیا لیکن غریبوں کی حمایت کے دم بھرنے والے نتیش بابو بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔شاید نتیش بابو کو وزارت عظمیٰ کی کرسی بہت قریب نظر آرہی ہے اس لئے وہ عوام کی فلاح اور ان کی بہتری کے بجائے کچھ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا زیادہ ٹھیک سمجھتے ہیں ۔انہیں وہ بوڑھا نظر نہیں آتا جس کو یکم دسمبر پرائم ٹائم پر این ڈی ٹی وی کے رویش کمار نے دکھایا تھا۔چار گھنٹے بعد جب اس کا نمبر آیا تو بینک سے کیش ختم ہو چکا تھا۔اس بوڑھے سے معلوم ہواکہ اس کی بیوی کی لاش گھر میں پڑی ہوئی ہے ۔ایسی ہزاروں درد کی سچی داستانیں ہیں جو موجودہ حکومت کے نام نہاد دیش ہِت میں جنم لے چکی ہیں۔ایسی کہانیاں ،ایسے درد جس سے آپ کا سینہ پھٹ جائے اگر آپ انسان ہیں تب۔ورنہ مودی بھکت سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان مجبور اور مایوس عوام کے عزت وقار اور ان کی مظلومانہ موت کا مذاق اڑاتے ہوئے مل جائیں گے۔
یہ بات صاف ہو گئی کہ کرنسی پر پابندی سے کسی بدعنوان کی پیشانیوں پر کوئی بل نہیں آئے ۔اس کا مطلب یہ کہ انہیں اس فیصلہ سے کوئی فرق نہیں پڑا ویسے بھی امریکہ کے سابق وزیر اور ملکی ماہر معاشیات بھی کہہ چکے ہیں کہ سیاہ کمائی نقد کی صورت میں انتہائی کم ہوا کرتی ہے وہ فوراً لوگ غیر ملکی کرنسی سونا یا زمینات وغیرہ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔مودی حکومت بھی سوئس بینک سے کالی کمائی واپس لانے کے وعدے پر آئی تھی اور اس دعوے کے ساتھ آئی تھی کہ صرف سو دن میں وہ اگر اسے واپس نہیں لائے تو انہیں پھانسی پر لٹکادینا ۔اب تو آٹھ سو دن سے بھی زیادہ بیت گئے ۔کیا کریں ،ملک کو ایسے حالات کے حوالے کردیا جائے کہ کوئی اس پر سوال نہیں کرپائے ۔اب وہی حالات ہیں کہ کوئی سوئس بینک کی بات نہیں کررہا ہے ۔ملک میں افراتفری کا ماحول ہے ۔حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ جب بیس پچیس افراد ہی بینکوں کی لائنوں میں مرے تھے توایک صاحب کا کہنا تھا کہ لوگ تو راشن کی لائن میں بھی مرا کرتے ہیں ۔یعنی انہیں عوام کی موت پر کوئی افسوس نہیں ہے ۔
کرنسی بین پر اشتہارات میں جو دوسری اہم بات کہی گئی ہے اور جو آجکل ہاٹ کیک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ اس سے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل ہو گی ۔یہ دہشت گردی اس بلا کا نام ہے جس کی وجہ سے دو نوں وقت فاقہ کرنے والا بھی پیٹ کی آگ اور اپنی ضرورتوں کو بھول کر حکومت کے پرفریب نعروں کا شکار ہو جاتا ہے ۔لیکن کیا کرنسی بین سے واقعی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے لیکن اس کو عملی طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔اس کی عملی شکل یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک مزاحمت پسند کی سلامتی دستوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے اس کے پاس سے دو ہزار کے نوٹ ملے ۔اس کے بعد کشمیر میں واقع نرگوٹہ فوجی کیمپ پر مزاحمت پسندوں کا حملہ جس دو فوجی افسران سمیت کئی فوجیوں کو موت کے منھ میں پہنچادیا ۔ہے نا حیرت انگیز بات ۔مودی حکومت اور ان کے بھکت تو اس طرح کادعویٰ کررہے تھے کہ نیا نوٹ گویا دہشت گردوں کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جیسے ہی کوئی دہشت گرد اس نوٹ کو ہاتھوں میں لے گا وہ رڈار میں آجائے گا اور اس کی ساری پلاننگ ناکام ہو جائے گی اور حکومتی اہلکار یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد سدرشن چکر ہلاتا ہوا اس تک پہنچ جائے گا اور اس طرح بغیر کسی خون خرابے کے وہ جیل میں ہوگا ۔اسی لئے دوسرے دن ہی اکھلیش یادو نے اس نوٹ کو لہراتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اسکی نقل چھاپنا مشکل ہے ؟بے شک ایسا نہیں ہے اس کے دو دن میں ہی نقلی نوٹ بازار میں آنے کی بھی خبر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جس کی وجہ سے یہ نوٹ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور رہے گا ۔ کل ملا کر حکومت کے اس احمقانہ فیصلہ اور اس کے طریقہ کار کی ایک لچر توضیح کے سوا اور کچھ نہیں۔یعنی کرنسی بین سے دہشت گردی میں کمی آئے یا نہ آئے لیکن عوام اس فیصلہ سے دہشت زدہ ضرور ہیں۔کہ پتہ نہیں کب سونا کو بھی پیتل سمجھنے کا فرمان جاری ہو جائے ۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔