کرپشن کہیں مودی حکومت کے لئے وبال جان نہ بن جائے

محمد شمشاد       

ہندوستان کا ہر آدمی امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا نوکر، بابو ہو یا چپراسی وہ اپنے کوکرپشن کے جھولے میں جھولتا اوراس چکی میں پیساتا ہوا پاتا ہے اوروہ اس سے نجات کا خواہش رکھتا ہے۔ اس کا اعلاج ہونابھی لازمی ہے کرپشن کسی بھی ملک کیلئے ایک گھن کا کام کرتی ہے۔ وہ کسی بھی ملک کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اسکا ذمہ دار کون ہے آج ہمارا ملک بھی اسی تیراہے پر گامزن ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بیماری کا اعلاج کون کرتا ہے اور اس بیماری کے لپیٹ میں کون کون لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

 کرپشن ایک ایسی سماجی برائی ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی ملک پاک صاف نہیں رہ پایا ہے لیکن گزشتہ برسوں کی کوششوں نے یہ ثابت کردیا ہے اگر کسی ملک کے تمام لوگ مل کر اسکے خلاف جنگ کریں تو انہیں کامیابی ضرور حاصل ہوگی اس مہم کی بدولت کئی ممالک اس معا ملے میں گزشتہ سال اپنی شبیہ کو بہتر بنانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں تاہم اس معاملے میں ہمارا ملک ہندوستان کی صورتحال چین اور روس سے بہتر ہونے کے باوجود 2014جیسی ہی رہی ہے جبکہ ڈنمارک اس معاملے میں سب سے زیادہ کامیاب ملک رہا ہے اور اس نے بدعنوانی کو ختم کرنے کے معاملے میں سب سے بہتر کارکردگی کی ہے اور وہ 168 ممالک کی اس فہرست میں مسلسل دوسری بار سب سے بہتر کارکردگی کی بنیاد پر اپنا بلند مقام بنانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ سب سے بری حالت برازیل کی ہے جو پانچ پوائٹ کمی کے ساتھ 7مقام  نیچے پھسلتے ہوئے 76 واں مقام پر پہنچ گیا ہے بدعنوانی کی سطح میں خراب کارکردگی کرنے والے ملکوں میں شمالی کوریا اور سومالیہ بھی شامل ہے ان دونوں ملکوں نے انڈیکس میس 8-8 پوائنٹ کھوئے ہیں۔

کرپشن سے متعلق سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی بین الا قوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تازہ سروے اور مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے اس بدعنوانی مخالف تنظیم نے مختلف ممالک میں کرپشن کی سطح کی پیمائش کیلئے ایک پیمانہ (انڈیکس ) بنا رکھا ہے اس پیمانے پر کسی بھی ملک کی صورتحال کا اندازہ وہاں کے سرکاری اور عوامی زمرے میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کے بنیاد پر لگایا جاتا ہے اس انڈیکس میں بھارت کا مقام 38پوائنٹ کے ساتھ گزشتہ سال کے اپنے 76 واں برقرار ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس کے مطابق چین 37 پوائنٹ کے سا تھ 83 ویں مقام پر اور روس 29 پوائنٹ کے ساتھ 119 ویں مقام پر ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان صفوں میں ان ملکوں میں کوئی بہتر ی نہیں آئی ہے۔

اس کے تجزیہ میں گزشتہ 2014 میں 176ممالک کو شامل کیا گیا تھا جبکہ اس بار صرف 168 ممالک کو ہی شامل ہیں قابل ذکر ہے کہ بھارت سے 65 پوائنٹ زیادہ حاصل کر کے بھوٹان کی درجہ بندی 27ویں ہوگئی ہے اس سروے کے مطابق بھوٹان بھار ت سے بہتر حا لت میں ہے جبکہ بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کا پرفارمنس اس سے برا رہا ہے لیکن ان سب کے باوجود پاکستان نے اپنی حالت کو سدھارنے میں کامیابی حاصل کی ہے اس معاملے میں چین کی رینکنگ 83واں ہے تو بنگلہ دیش کا 39۱ واں رہا ہے گزشتہ چار بر سو ں میں کرپشن کی گرفت میں سب سے زیادہ پھنسنے والوں ملکوں میں لیبیا، آسٹریلیا، برازیل، اسپین اور ترکی کا نام درج کیا گیا ہے جبکہ یونان، سینگال، اور برطانیہ نے اس دوران بدعنوانای کو ختم کرنے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے مطابق جو ممالک بدعنوانیوں کو ختم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں ان میں کئی سطح پر مماثلت پائی گئی ہے ان ملکوں میں صحافت کی آزادی، بجٹ سے منسلک اطلاعات تک عام آدمی کی آسان رسائی، اقتدار پر فائز لوگوں کی ایمانداری، غریب و امیر میں غیر امتیازی سلوک اور دیگر سرکاری محکموں کی بہ نسبت پوری طرح آزاد عدالتی نظام کی خوبیاں دیکھی گئی ہیں دوسری طرف جن ممالک میں بدعنوانی کی سطح مسلسل بڑھتی رہی ہیں وہاں خانہ جنگی، اقتدار، پولس اور عدلیہ جیسے سرکاری اداروں کی کمزوی اور صحافت کی آزادی کے خلاف ورزی جیسی باتیں عام طور پر دیکھی گئیں ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر ملک کی عوام چاہتی ہے کہ انکے مسا ئل کم ہوں سرکاری دفاتر میں کرپشن کا خاتمہ ہو، انہیں مہنگائی اورذات پات کی نفرت بھرے ماحول اور غر بت سے نجات ملے جو اس ملک کے سنگین مسائل ہیں اور جس سے ملک کی اکثریت پریشان حال ہے اور وہ چاہتی ہے کہ یہ ملک بنگارو لکشمن، یدورپا، ریڈ ی برا در، مدھوکوڑا، ڈی راجہ، امیت شاہ اورجگدیش شرما جیسے بدعنوان رہنمائوں اور دبنگوں سے پاک ہو اور یہاں کی عوام کو کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کی آزادی حاصل ہو اسی وجہ کریہاں کی عوام لوہیااورجے پی کی تحریکوں کی حمایت کی تھی اور مرکزی حکومت میں تبدیلی بھی لا نے کی کوشش کی تھی لیکن یہاں کی ہندووادی احیاء پرستوں اور انکے سرپرستوں نے اسے ناکام بنا دیا۔

 یہ خوش آئند بات ہے کہ اس وقت نظام کی خرابی سے نالاں تعلیم یافتہ، صاف ذہن و کردار اور بدعنوانی کے شکارعوام اور عام آدمی سیاست سے جڑے ہیں وہ بدعنوانی کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اب ہندوستان کی عوام اس پرانے طرزکی حکومت میں تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے اب انہیں کسی قوم سے ڈرا کر، آزادی کی دوہائی اوربڑے رہنمائوں کے پوسٹروں کو دیکھا کر عوام کو بہلانا ناممکن ہے حقیقت چاہے جو بھی ہو لیکن اس کامیا بی کے اثرات ملکی سیاست میں قائم ہو چکے ہیں اگر کیجریوال اپنے وعدہ کو پورا کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں تو بلا شبہ یہ ثابت ہوجائے گا کہ ایک نوجوان اور نا تجربہ کار سیاستداں بھی اس ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کی ترقی و فروغ میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔

2014 کے عام انتخاب میں تقریبا تمام پارٹیوں نے کرپشن اور ملک کی ترقی کو اپنا ایجنڈا بنایا ہے اوراس نے سیاست کے ہزاروں سوالوں کو انہوں نے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسکے قبل کسی اور نے اس کرپشن کو اپنا ایجنڈا نہ بنایا ہو رام منوہر لوہیا کی قیادت میں سوشلسٹ پارٹی نے1967کے انتخاب میں اسی بدعنوانی کو لیکر اندرا گاندھی کے خلاف مہم چلائی تھی جسکے وجہ کر کانگریس کو ہندوستان کے نو ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور پہلی بار مخلوط حکومت بنانے کا موقع ملا تھا اسوقت بھی یہی شور اٹھا تھا کہ اب بھارت کرپشن فری ملک بن جائیگا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوااسکے بعد 1977 میں جے پی تحریک نے بھی کانگریس کے متبادل کے طور پر جنتا پارٹی کو پیش کیا تھااور کانگریس کو ذلت آمیزسکشت کا سامنا کرنا پڑا تھا یہاں تک کہ اندرا گاندھی کو بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا اس بار مرکز اور اکثر صوبوں سے کانگریس کی حکومت کا پہلی بار خاتمہ ہواتھا مرارجی ڈیسائی کووزیراعظم بننے کے چند ماہ بعد جئے پرکاش نارائن اس دنیا سے رخصت ہو گئے 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت تو بن گئی لیکن وہ حکومت زیادہ دنوں تک نہیں ٹک سکی آخر کار مرارجی ڈیسائی کو استعفی دینے پر مجبور ہونا پڑا اور چرن سنگھ کو وزیراعظم اور جگجیون رام کو نائب وزیراعظم کی حیثیت سے حکومت کی باگ ڈورتھمادی گئی لیکن وہ بھی اسے زیادہ دنوں تک کھینچنے میں ناکام ر ہے اور اسی وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں ایک نئی پارٹی کا قیام عمل میں آگیا ہاں اس تحریک نے کچھ نئے لوگوں کو سیاست کے میدان میں آنے کا موقع ضرور فراہم کر دیاجے پی تحریک نے جارج فرنانڈیز، رام کرشن ہیگڑے، لالو پرشاد یادو، رام بلاس پاسوان، ملائم سنگھ یادو، شرد یادو، نتیش کماراور اجیت سنگھ جیسے سیکڑوں لوگوں کی سیاسی زندگی کی راہ ہموار کردی۔

اس کے بعد1989 میں ایک بار پھر اسی کرپشن کواجاگر کرتے ہوئے وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے راجیو گاندھی کے خلاف ملک بھر میں ایک تحریک چلائی تھی وہ بھی غیر کانگریسی رہنمائوں اور پارٹیوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوئے اس بار بھی کانگریس کو ذلت آمیز سکشت کا سامنا ہواتھاِ اوراسے مرکز کے ساتھ ہی ریاست بہار، آسام، مغربی بنگال، اڑیسہ، اترپردیش، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراسٹر، گجرات، کر ناٹک، تمل ناڈو، اندھرا پردیش تقریبا پورے ملک میں منہ کی کھانی پڑی قابل ذکر بات یہ ہے کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے راجیو گاندھی کی حکو مت میں وزارت مالیات اور دفاع میں با اختیاروزیر رہنے کا شرف حاصل تھا جب انہوں نے وہاں بڑے پیمانے پر کرپشن میں مبتلا دلالوں اور رشوت خوروں کو اڈہ جمائے دیکھا اوران تاجروں، سرمایہ داروں اوربڑے بڑے بیچولیوں کے خلاف کاروائی کرنا شروع کیا توہندوستان کا سب سے بڑا اسکینڈل بوفورس سامنے آگیا۔ اس کے بعد راجیو گاندھی تلملا اٹھے اسی وجہ کر وی پی سنگھ کو نہ صرف اپنی کرسی سے بلکہ کانگریس سے بھی باہر کا راستہ دکھا دیاگیا۔ بہر حال وشوناتھ پرتاپ سنگھ کوبھلے ہی اس لڑائی میں راجیو گاندھی کی وزارت سے دست بردار ہونا پڑا لیکن انکے اس تحریک نے گاندھی پریو ا ر کو بھی ہندوستان کی سیاست سے گوشہ نشینی اختیار کرنے کیلئے مجبورکر دیا اسکے علاوہ وی پی سنگھ نے ہندوستان کے لوگوں کو تین چیزوں کا تحفہ ضرور دے دیا پہلا یہ کہ جے پی تحریک کے شاگردوں میں جارج فرنانڈیز، لالو پرشاد یادو، رام بلاس پاسوان، ملائم سنگھ یادو، شرد یادو، نتیش کمار، بیجو پٹنائیک اور اجیت سنگھ جیسے رہنمائوں کو سیاست کے میدان میں ہیرو بنا دیا دوسری یہ کہ انہوں نے منڈل کمیشن کے ذریعہ دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کو ہمیشہ کے لئے کانگریس سے الگ تھلگ کر دیا تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ بھارت کی سیاست میں کمزور اور مجبورو لاچار سمجھے جانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی ایک دم سے مرکز اور کئی ریاستوں میں حکومت کرنے کی پوزیشن میں آگئی جو کبھی اپنے خواب وخیال میں بھی مرکز ی یا ریاستی حکومت کاتصور نہیں کرتی تھی اور ایک وقت وہ بھی آگیا جب 1996میں ان کے شاگردوں اور حواریوں کے سہارے اٹل بہار ی باجپائی کی قیادت میں بھاجپا ہندوستان کی مرکزی حکومت پر قابض ہوگئی اور اسی دور میں خون سے رنگا ہوا گجرات میں 2002 کا وہ عظیم سانحہ گزرا جسے یہا ں کے عوام کو بھولنا مشکل ہے اسی کا سلہ ہے کہ آج نریندر مودی کو ہندو ستان کا وزیر اعظم بننے کا موقع فراہم کر دیا۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لوہیا کی تحریک نے جن سنگھ کو جنم دیا تو جے پی آندولن نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اور وی پی سنگھ کی تحریک نے ہندوستان کے عوام کو بھاجپا کے رحم وکرم پر جینے کے لئے مجبور کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔