آزادی کی رسم اور روح : ایک جائزہ

عبیدالکبیر

آ ج کی مہذب دنیا میں بنی نوع انسان کے اندر رسم اور روح میں عدم یکسانیت کا معاملہ  بہت نمایاں ہے۔ کسی بھی چیز کے تئیں آج کی دنیا کارویہ کچھ عجیب قسم کا ہو چلا ہے۔ آج ہم دنیاوی معاملات میں اور بسا اوقات دینی معاملات میں بھی کسی خاص دن میں کچھ خاص اعمال انجام دیکر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب دنیا کے تقریباً ہر کو نے میں انسانی سماج سے اقدار رفتہ رفتہ رخصت ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان اقدار میں سے بعض تو وہ ہیں جن کو آج کی دنیا میں افراد کی ذاتی زندگیوں تک محدود تصور کیا جاتا ہے اور ان کو بحیثیت مجموعی انسانی سماج میں کوئی ترجیحی مقام حاصل نہیں تاہم ایسی چیزیں جو ابھی تک انسانی زندگی میں اخلاقی طور پر قابل اختیار سمجھی جاتی ہیں ان کے لئے بھی سال میں کچھ ایام مخصوص کر لئے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں مدر ڈے  فادر ڈے اور لیڈی ڈے کے موقعہ پر  تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں لوگ اپنے والدین وغیرہ کےساتھ  ایک رسمی ملاقات کر کے فارغ ہو جاتے ہیں اور  خدمت والدین کا گویا حق ادا ہو جاتا ہے۔ آج اقوام عالم میں مخصوص دن منانے کا چلن بہت عام ہے ان میں سے کچھ ایام تو ایسے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر پوری دنیا میں منائے جاتے ہیں۔ البتہ کچھ ایام ایسے بھی ہیں جو الگ الگ ملکوں میں کسی خاص یادگار موقعہ پر منائے جاتے ہیں تاہم ان رسوم  میں عموماً یہ قدر مشترک دیکھنے کو ملتی ہے کہ یہ سبھی ایام گویا  بس ایک رسم کو نباہنے کے لئے ہی ہیں باقی ان کے پیچھے جو روح کارفرما ہوتی ہے اس کا عملی زندگی سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ایسے مواقع پر انسان کے فطری جذبات میں کسی قدر حساسیت پیدا ہونے کی بنا پر اکثر ایسے سوالات پر توجہ دی نہیں جاتی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی رسم کی روح  کو عین اس رسم کی ادائیگی کے وقت بھی فراموش کردیا جائے  تو پھر کب اس کو ملحوظ رکھا جائے گا ؟تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ بھی کسی مشن اور نصب العین کے تئیں مخلص اور سنجیدہ رہے ہیں ان میں اپنے مقصد کا گہرا شعور اور اس کی روح سے والہانہ وابستگی نمایا ں رہی ہے۔ اور جہاں بھی رسم کو اصل غایت کا درجہ ملا وہاں اس کی روح پراگندہ ہو گئی۔ آج کی دنیا میں جس قسم کے اخلاقی زوال کا ہم سامنا کر رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ ان دنوں وطن  عزیز کے سوا سو کرور باشندگان کی زبانوں پر آزادی کا ترانہ ہے۔ ملک کے کونے کونے میں سبھی طبقہ خیال کے لوگوں نے جشن آزادی کی تقریبات  کا اہتمام کیا۔ اسکولوں اور مدرسوں میں بچوں نے  رنگا رنگ پروگراموں کے ذریعہ اس روایتی جشن کو پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا۔ علاوہ  ازیں ہمیشہ کی طرح جگہ جگہ لوگوں نے ترنگا لہرا کر تحریک آزادی کے قائدین اور شہدا ءکو خراج عقیدت پیش کیا۔ بھارت کی آزادی کی تحریک  جس کی یاد میں یہ سبھی کچھ کیا گیا بلا شبہ ہماری قومی تاریخ کا ایک نمایاں باب ہے۔ بر صغیر کی سیاسی تاریخ میں انگریز تاجروں کی آمد اور ہندستاں جیسے عظیم ملک پر ان کےاستیلاء کا واقعہ غالباً گذشتہ پانچ سو سالوں کا سب سے اہم حساس اور دور رس واقعہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندستان  جن حالات سے دوچار ہوا اس کا بیان بڑی ضخامت چاہتا ہے ۔ بھارت میں انگریزوں کی آمد صرف  اسی بات پر منتج نہیں ہوئی کہ ایک ملک کو غلام بنالیا گیا  بلکہ ان کی آمدبین الاقوامی سطح پر یورپ کی توسیع پسندی کے  فروغ کا ذریعہ ثابت ہوئی جس کے نتائج بہت دور رس اور دیر پا  ثابت ہوئے ۔ مغربی دنیا میں برطانوی قوم کو جن خصوصیات کی بنا پر قابل نفرت تصور کیا جاتا ہے ان میں سے ایک ان کی توسیع پسندی کا جذبہ اور اس کے حصول کے لئے مکر وفریب کی سیاست بھی ہے۔ ہندستان میں انگریزوں کے دوسو سالہ دور اقتدار میں یہ جذبہ نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ٹیپو سلطان کی شہادت سے لیکر 15 اگست 1947 تک سرزمین ہندستان اور یہاں کے باشندوں پر جو کچھ بیتی وہ ایک گوری قوم کے کالے کرتوتوں کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے ۔ انگریز ی اقتدار کے لئے  سب سے بڑا چیلنج مسلمان ہی تھے کیونکہ اس وقت وہی اس ملک میں فرماں روائی کر رہے تھے  اور مسلم علما نے انگریزی اقتدار کے خلاف مسلح جد وجہد کو مسلمانوں کا  مذہبی فریضہ قرار  دیا تھا۔ آگے چل کر  آزادی کی تحریک نے ایک ملی جلی تحریک کی شکل اختیا ر کرلی جس میں وطنیت کی بنیاد پر جدوجہد کے سلسلے کو آگے بڑھا یا گیا اور یہ کوشش  آخر کار  قربانیوں کے ایک لمبے سلسلے کی بدولت کامیاب  بھی ہوئی ۔ انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی میں جو مشترکہ اہداف تھے ان کا حاصل یہ ہے کہ تمام ہندستانی بلا تفریق دین و ملت رنگ ونسل اور  ذات پات بحیثیت ہندستانی  قوم کے اس ملک  کا حصہ ہوں گے۔ چنانچہ آزادی کے بعد جو دستور مرتب ہوا اس میں ان چیزوں کو ملحوظ رکھا گیااور اس میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جو اقلیتوں کے حقوق کی ضامن ہیں۔ بھارت کا یہ دستور گویا اس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے لئے آزادی کا عمومی انعام تھا جسے ہم آزادی کی روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر عجیب بات ہےاور انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جو حقوق کاغذ پر دئے گئے ان کا  اثر زمین پر بہت کم دیکھنے میں آیا۔ ملک پر حکمرانی کرنے والے لوگوں نے عملاً دستور کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ آج  بھارت میں بسنے والے کمزور طبقات کے لوگ ستر  بہاریں گذرنے کے باوجود آزادی کی روح سے مستفید ہونے میں ہنوز ناکام نظر آتے ہیں۔ بات صرف مسلم اقلیت  ہی کی نہیں ہے بلکہ دیگر اقلیتیں جیسے دلت وغیرہ بھی کسی صبح نو کی منتظر ہیں۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کے اعتراف میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔ اس دعوے کی صداقت کا جائزہ لینے کے لئے ہمارے سیاسی لیڈروں کی تقریروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا کافی ہوگاجن میں ملک اور قوم کے درد سے بے تاب قائدین آرٹی آئی کے مستند حوالوں کے ساتھ عوام کے حال ذار کا رونا روتے ہیں۔ آج حکمران جماعت کے سربراہ اپنی جن حصولیابیوں کا پرچار کررہے ہیں کل تک ان کی جماعت جب اپوزیشن میں تھی تو وہ بھی یہی رونا روتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں ملکی نظام کے منفی پہلو کا تذکرہ صرف ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر کرنا چاہئے ؟ جو لوگ اس ملک میں باغبان کی حیثیت سے اپنی شناخت پکی کر چکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں ان کو ضرور اس سوال پر غور کرنا چاہئے۔ جہاں تک بھارتی عوام اور ان کے اجتماعی ضمیر کی بات ہے تو ان سے یہ امید آج بھی قائم ہے کہ وہ دستور کے تقاضوں پر کھرا اترنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اس کے لئے آمادہ بھی ہیں۔ اب یہ ذمہ داری یہاں کے ارباب اقتدار کی ہے کہ وہ دستور کی بنیاد پر ملک کی ترقی کا راستہ ہموار کریں۔ آزادی کی یادگارکو انگریزوں کی آمد سے پیدا شدہ مسائل سے برائت کا اظہار ہونا چاہئے اور ارباب حل وعقد کو بطور خاص یہ ملحوظ رکھنا چاہئےکہ اقتدار کے حصول یا بقا کے لئے ان کا دامن ایسے طرز عمل سے آلودہ نہ ہو جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے آزادی کی تحریک برپا کرکے ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ مجاہدین آزادی کی قربانیوں کے ساتھ ایک کھلواڑ قرار پائے گا اور شاعر کی زبان میں یہ کہنے کی گنجائش بہر حال باقی رہے گی کہ

وہی پھول چاک دامن وہی رنگ اہل گلشن

ابھی صرف یہ ہوا ہے کہ بدل گئے شکاری

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔