اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک سب سے محبوب عمل

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

عربی زبان کا ایک محاورہ: ’’أَوّلُ الغَیْثِ قَطْرَۃ ثُمَّ یَنْہَمِر‘‘ (موسلا دھار بارش کا آغاز ایک قطرے سے ہوتا ہے۔ ) اسی مفہوم کو فارسی زبان میں یوں ادا کیا گیا ہے : ’’قطرہ قطرہ دریامی شود‘‘ (ایک ایک قطرہ کرکے دریا بن جاتا ہے۔ ) اس چیز کا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں برابر مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ رائی کا ایک ایک دانہ اکٹھا کیا جائے تو کچھ عرصے میں وہاں اونچا سے ڈھیر لگ جائے گا۔ روزانہ ایک ایک روپیہ جمع کیا جائے تو کچھ دنوں میں خاطر خواہ رقم جمع ہوجائے گی۔ یہی حال انسانی اعمال کا بھی ہے۔ بعض اعمال بظاہر بہت معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ اتنے معمولی کہ ہم میں سے کوئی انھیں خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن وہی اعمال دین میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اگر انھیں تسلسل اور پابندی سے انجام دیا جائے۔

انسان اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے جلد باز واقع ہوا ہے۔ قرآن میں ہے :

وَکَانَ الإِنْسَانُ عَجُوْلاً۔ (بنی اسرائیل:11)

’’ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ‘‘

خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ۔ (الأنبیاء: 37)

’’انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ‘‘

کسی عمل کو پابندی کے ساتھ برابر انجام دیتے رہنا اس کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ اس میں جوش پیدا ہوتا ہے تو وہ بڑے سے بڑے عمل پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اسے انجام دینے کے لیے جی جان سے لگ جاتا ہے۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس کا جوش ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اس کی طبیعت اچاٹ ہوجاتی ہے اور اس عمل کی طرف اس کا میلان باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے احادیث میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ انسان جو نیک عمل بھی آسانی سے انجام دے سکتا ہو، انجام دے۔ لیکن اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ اس پر مداومت اختیار کرے۔ وقتی طور پر انجام دیے گئے عمل کثیر سے بہتر وہ قلیل عمل ہے جسے پابندی سے انجام دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

أَدْوَمُہٗ وَإِنْ قَلَّ۔

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، مسند احمد: 6/165، 176)

’’وہ عمل جو مقدار میں اگر چہ کم ہو لیکن جسے خوب پابندی سے انجام دیا جائے۔ ‘‘

اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کو تلقین فرماتے رہتے تھے کہ نیک اعمال کی انجام دہی میں میانہ روی اختیار کریں۔ اتنا ہی عمل کریں جتنے پر پابندی کرسکتے ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ جوش میں آکر وہ زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کریں لیکن پھر بھی بہت جلد ان کی طبیعت اکتاجائے اور اسے ترک کردیں۔ ایک مرتبہ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہؓ کے پاں ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے۔ دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ عرض کیا : فلاں عورت ہے۔ اس کی نمازوں کا بہت چرچا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ رات بھر سوتی نہیں ہے۔ عبارت کرتی رہتی ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ مدینہ کی سب سے عبادت گزار عورت ہے۔ ‘‘ آپؐ نے اس کی تحسین اور ہمت افزائی نہیں کی بلکہ تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أحبَّ الدینِ إِلی اللہِ عزّوجلّ مَا دُوْوِمَ عَلَیْہِ وَإِنْ قَلَّ۔

(مسند أحمد:6/46-51، صیح بخاری: کتاب الایمان: باب (أحب الدین إلی اللہ أدومہ)

’’ اللہ و عزوجل کے نزدیک دین کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے سے پابندی سے انجام دیا جائے خواہ وہ کم ہو۔ ‘‘

حضرت عائشہؓ ہی سے ایک دوسرا واقعہ مروی ہے۔ فرماتی ہیں :

’’لوگ مسجد نبوی میں رمضان کی راتوں میں جماعتوں کی شکل میں نماز پڑھتے تھے۔ ایک رات نماز عشاء کے بعد آپؐ مسجد میں گئے اور وہاں موجود لوگوں کے ساتھ جماعت سے لمبی نماز ادا کی۔ اگلے دن دوسرے لوگوں کو معلوم ہوا تو انھیں بھی حضور کی اقتداء میں نفل نماز (تراویح) ادا کرنے کا اشتیاق ہوا۔ چنانچہ اس رات مسجد کھچا کھچ بھرگئی۔ آں حضرت ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھائی، پھر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ صحابہ انتظار کرتے رہے کہ آپ تھوڑی دیر کے بعد پھر تشریف لائیں گے۔ مگر آپؐ حجرے سے باہر نہیں نکلے اور صحابہ مسجد میں آپؐ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ تب آپ مسجد میں تشریف لائے اور صحابہ سے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں رات بھر غافل نہیں رہا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ تم لوگ میرا انتظار کررہے ہو لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ ‘‘

ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا:

أکْلفُوا من الأعمالِ ما تُطیقُون، فإن اللہَ لَا یَمَلُّ حتی تَمَلُّوا۔

(مسند أحمد:6/40، 61، 241، 267-268، صیح بخاری: کتاب اللباس، باب الجلوس علی الحصیر و نحوہ)

’’اتنا ہی عمل کرو جتنا آسانی سے کرسکتے ہو، اس لیے کہ اللہ اجر دینے میں نہیں اکتائے گا، تم ہی عمل سے اکتا جاؤگے۔ ‘‘

زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کے پیچھے عموماً یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ نیک اعمال آخرت میں بلندیٔ درجات کا ذریعہ بنیں گے اور انسان بارگاہِ الٰہی میں سرخ رو ہوکر جنت کا مستحق ہوگا۔ یہ جذبہ ایک حد تک تو درست اور قابل قدر ہے لیکن اس میں زیادتی سے انسان اپنے عمل پر انحصار کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت سے اس کی توجہ ہٹتی ہے۔ اسی لیے آں حضرت ﷺ نے اس سے ہوشیار کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سَدِّدُوْا وقَارِبُوْا وَاعْلَمُوْا أن لَنْ یُدخِل أحدَکُمْ عَمَلُہ الجنَّۃَ، وإِنَّ أحبَّ الأعمالِ أدْوَمُہَا إلی اللہِ وإنْ قَلَّ۔

’’اچھے کام کرو، لیکن میانہ روی اختیار کرو؛ اور جان لو کہ کوئی شخص اپنے عمل کی بنا پر جنت میں نہیں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے انجام دیا جائے خواہ وہ کم ہو۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس موقع پر صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھی جنت میں اپنے عمل کی وجہ سے نہیں جائیں گے؟ فرمایا:

وَلَا أَنَا، إِلَّا أنْ یَتَغَمَّدَنِیْ اللّٰہُ بِمَغْفِرۃٍ وَّرَحْمَۃٍ۔

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، مسند أحمد:6/125، 372)

’’ ہاں میں بھی، إلا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت اور رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔ ‘‘

متعدد ازواج مطہرات نے شہادت دی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کو بھی وہی عمل محبوب تھا جس کی پابندی کی جائے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں :

کَانَ أحبَّ الأعمالِ إِلَیْہِ العملُ الصَّالِحُ الذِیْ یَدُوْمُ عَلَیْہِ العَبْدُ وَإن کان یَسِیْراً۔

(ابن ماجہ: ابواب الزہد، باب المداومۃ علی العمل، مسند أحمد:6/289، 204، 205، 319-322)

’’آں حضرت ﷺ کو سب سے پسندیدہ وہ نیک عمل تھا جس پر انسان پابندی کرے خواہ وہ معمولی ہو۔ ‘‘

حضرت عائشہؓ کے شاگردوں مسروقؒ، اسودؒ، ابوصالحؒ وغیرہ نے الگ الگ مختلف اوقات میں ان سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا؟ انھوں نے ہر ایک کو یہی جواب دیا: ’’وہ عمل جس کی پابندی کی جائے۔ ‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، مسند أحمد:6/94، 113، 147، 203، 279، 289)

حضرت عائشہؓ اس کی بعض مثالیں بھی بیان کرتی ہیں۔ مثلاً وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کو وہ (نفل) نماز پسند تھی جو پابندی سے ادا کی جائے خواہ اس کی مقدار کم ہو۔ آپؐ  جو نماز پڑھتے تھے اس کی پابندی کرتے تھے۔

(صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب صوم شعبان، مسند أحمد:6/189)

حضرت عائشہؓ کے شاگرد سعد بن ہشامؒ نے ان سے حضور کے تہجد کا طریقہ دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا:

’’آں حضرت ﷺ جو نماز ادا کرتے تھے اس کی پوری پابندی کرتے تھے۔ اگر کسی رات نیند، درد یا بیماری کی وجہ سے نماز ادا نہ کرپاتے تو اس کی جگہ دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔ ‘‘

وہ مزید فرماتی ہیں :

’’رسول اللہ ﷺ کوئی بھی کام کرتے تھے تو اس کی پابندی کرتے تھے۔ آپؐ نے کبھی پوری رات نماز میں نہیں گزاری۔ نہ ایک رات میں پورا قرآن پڑھا اور نہ رمضان کے علاوہ کبھی پورے ایک ماہ کا روزہ رکھا۔ ‘‘

(سنن الدارمی: کتاب الصلاۃ، باب صفۃ صلاۃ النبی، مسند أحمد:6/54)

ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ کے شاگرد مسروقؒ نے ان سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ رات میں کس وقت تہجد کے لیے بیدار ہوتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا:

’’آپؐ مرغ کی بانگ سن کر اٹھتے تھے۔ ‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، مسند أحمد:6/94، 147، 203، 229)

ام المؤمنین حضرت میمونہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ نماز عصر سے قبل دو رکعتیں (یا جتنا آپ پڑھ سکتے تھے) پڑھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ صدقہ کے جانور تقسیم کرنے میں دیر لگ گئی جس کی بنا پر عصر کا وقت تنگ ہوگیا۔ چنانچہ آپؐ نے عصر کی فرض نماز جماعت سے پڑھائی پھر وہ رکعتیں ادا کیں جو آپ عصر سے قبل پڑھا کرتے تھے۔ حضرت میمونہؓ آگے یہ بھی فرماتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ جو (نفل)نماز ادا کرتے تھے یا جو کام بھی کرتے تھے اس کی پابندی کرنا چاہتے تھے۔  (مسند احمد:6/334-335)

احادیث بالا میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے سے نہیں روکا گیا ہے اور نہ ایسا کرنے والوں کی ہمت شکنی کی گئی ہے۔ بلکہ ان میں انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں صحیح رخ دیا گیا ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو ش  میں آکر وقتی طور سے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اپنی قوتِ کار کا صحیح اندازہ کرے جو نیک کام وہ آسانی سے انجام دے سکتا ہو، اسے انجام دے، لیکن کوشش کرے کہ اس کی انجام دہی پابندی اور تسلسل کے ساتھ ہو۔ وقتی جوش میں انجام دیے گیے عملِ کثیر کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو اگرچہ مقدار میں کم ہو لیکن اس پر مواظبت کی جائے اور اسے پوری پابندی اور تسلسل سے انجام دیا جاتا رہے۔

تبصرے بند ہیں۔