کسانوں کی فکر کسے؟ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اپنی مانگوں کے بینر اور تختیاں لئے، ملک بھر کے کسان ایک بار پھر دہلی کی سڑکیں ناپتے دکھائی دیئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر دہلی پہنچے ہوں۔ گزشتہ چند ماہ میں وہ تیسری بار اپنا حق طلب کرنے کیلئے ملک کے دارالحکومت آئے تھے۔ اس مرتبہ کے ’کسان مکتی مارچ‘ میں 27 ریاستوں کے کسان اور کھیتی سے جڑے مزدوروں کی 207 تنظیموں نے حصہ لیا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس بار کسان اکیلے نہیں تھے۔ مڈل کلاس کی کئی آرگنائزیشنز ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیں۔ ایسے وقت میں جب کئی ریاستوں میں صوبائی انتخابات چل رہے ہوں، کسانوں کا اتنی بڑی تعداد میں دہلی آنا چونکاتا ہے۔ کیا واقعی ان کی حالت’کرو یا مرو‘ والی ہو گئی ہے؟

دو دن تک کسان دہلی کی سڑکوں پر بھٹکتے رہے۔ ان کے نعرے راجدھانی میں گونجتے رہے۔ لگتا تھا کہ اس بار وہ فیصلہ کن لڑائی کیلئے دہلی آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی تکلیف حکومت کو بتانے کیلئے پارلیمنٹ تک مارچ بھی کیا۔ لیکن ان کی بات سننا تو دور سرکار نے انہیں پوری طرح نظر انداز کر دیا، کسی نے ان سے ملاقات بھی نہیں کی۔ جبکہ اس وقت جن ریاستوں میں انتخابات چل رہے ہیں، ان میں سے تین میں بی جے پی کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی اسی کی سرکار ہے۔ بھاجپا اپنے آپ کو کسانوں کے سب سے بڑے ہمدرد کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ اس لئے کسانوں کے تئیں اس کی جواب دہی زیادہ بنتی ہے،لیکن لگتا نہیں کہ وہ اپنی جوابدہی کو سمجھتی ہے۔ تبھی تو کسانوں کو کھیت چھوڑ سڑکوں پر اترنا پڑ رہا ہے۔ اور آندولن کرنے کیلئے اُنہیں دہلی کی سڑکوں پرآبا پڑتا ہے۔

کسانوں کی مانگیں اس بار بھی لگ بھگ پہلے جیسی تھیں۔ یک مشت قرض معافی، سی۔ 2 فصل کی لاگت سے ڈیڑھ گنا قیمت( ایم ایس پی ) جس کو مقرر کرتے وقت نقد لاگت، کسان کی محنت، کھیتی کی زمین کا کرایہ اور کل زرعی پونجی پر لگنے والے سود کو شامل کیا جائے۔ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنا وغیرہ۔ 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے اس کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ویسے مرکزی وزیر نتن گڈگری کہہ چکے ہیں کہ کوئی امید نہیں تھی کہ ہم الیکشن جیتیں گے، اس لئے بہت سارے وعدے کر دیئے گئے۔ ان سے پہلے بھاجپا صدر امت شاہ کالی دولت آنے اور ہر ایک کے کھاتہ میں پندرہ لاکھ جمع ہونے کے انتخابی وعدہ کو ’چناوی جملہ‘ کہہ چکے ہیں۔ تو کیا کسانوں کو مان لینا چاہئے کہ ان سے سارے جھوٹے وعدے کئے گئے اور انتخابی منشور میں بھی جھوٹ ہی کہا گیا ہوگا۔ وعدوں سے دھیان ہٹانے کیلئے ہی جے پی اپنے کمیونل ایجنڈے کو ہی آگے رکھتی ہے؟

اس بار کسانوں نے ان کے مسائل پر فیصلہ کن بحث کیلئے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی مانگ بھی کی۔ اس کیلئے انہوں نے با قاعدہ بل کا ایک مسودہ بھی تیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت خصوصی اجلاس میں مکمل زرعی بحران پر بحث کر ائے اورکسانوں کے مسائل کا مستقل حل نکالے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ہزاروں ساتھی خود کشی کر چکے ہیں۔ ہر 45 منٹ میں کسی نہ کسی’ انیہ داتا‘ کی زندگی جا رہی ہے، لیکن سرکار کو ان اموات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ گجرات میں سردار پٹیل کی مورتی لگانے کیلئے جس زمین کو تحویل میں لیا گیا، اس سے سیکڑوں آدی واسی اور کسانوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی۔ انہوں نے مورتی کی نقاب کشائی کے دن گھر میں چولہا نہ جلا کر احتجاج بھی کیا۔ مودی جی پر تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلٹ ٹرین کیلئے تحویل میں لی جانے والی اراضی کی بھی کسان مخالفت کر رہے ہیں جس کو مودی سرکار ترقی کے نام پر کچل دینا چاہتی ہے۔ مرحوم کسانوں کے معصوم بچوں نے دہلی میں ناٹک کے ذریعہ اپنا غم ظاہر کیا۔ کسانوں نے آدھے ننگے ہوکر، بھوکے پیاسے رہ کر احتجاج کیا لیکن بات بات پر جذباتی ہونے کا مظاہرہ کرنے والے وزیر اعظم کی آنکھوں سے کسانوں کی تکلیف پر کبھی ایک آنسو نہیں ٹپکا۔ اب کسان مستقل حل کیلئے زرعی پالیسی میں بدلاؤ کی مانگ کر رہے ہیں۔

ملک کے لوگوں کو سب سے زیادہ 52 فیصد روزگار زرعی شعبہ سے ملتا ہے۔ ستر فیصد آبادی کو روزی روٹی چلانے میں کھیتی باڑی سے مدد ملتی ہے، لیکن زراعت کی قومی آمدنی یا جی ڈی پی میں محض 16 فیصد کی حصہ داری ہے۔ سبزانقلاب والے ملک میں کھیتی کی یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ ملک کی معیشت کیلئے بھی یہ اچھا اشارہ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف میں بے کھیت، منجھولے اور چھوٹے کسان ہیں۔ اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ 72۔ 1971 میں دیہی علاقوں میں اوسطاً دو ایکڑ سے کم زمین والے خاندانوں کی تعداد 77.53 فیصد تھی جو 2013 میں بڑھ کر 92.18 فیصد ہو گئی۔ جوت کا رقبہ جو 1.53 ہیکٹیر تھا وہ 1992 میں 1.01 اور 2013 میں گھٹ کر 0.59 ہیکٹئر ہو گیا۔ خاندانوں کی آپسی تقسیم کی وجہ سے زمین کا رقبہ اتنا کم ہو گیا کہ کھیتی منافع کے بجائے گھاٹے کا سودا ہو گئی۔ دوسری طرف نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی نہیں ہیں۔ اکنامک سروے آف انڈیا 2017 کی رپورٹ کے مطابق 15۔29 سال کی عمر کے 30 فیصد نوجوان نہ تو کسی روزگار میں ہیں نہ ہی تعلیم یا کسی طرح کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس صورتحال سے آئندہ ملک کا مستقبل کیسا ہوگا،یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

کسان مکتی مارچ میں پہنچے کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے کہا کہ آج ملک کے سامنے دو بڑے مدے ہیں۔ ایک کسان کا مستقبل اور دوسرا نوجوانوں کیلئے روزگار۔ انہوں نے کہا کہ کسان اپنا حق مانگ رہا ہے تحفہ نہیں۔ مرکزی حکومت 15امیر خاندانوں کے ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپے کے قرض کو معاف کر سکتی ہے تو کروڑوں کسانوں کا قرض معاف کرنے میں اس کو پریشانی کیوں ہے؟ جبکہ کسانوں کا قرض امیر خاندانوں سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار اب بنکوں کے 12.5 لاکھ کروڑ روپے کا این پی اے معاف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ وہیں کسانوں کی مانگوں کی حمایت کرنے والے سماجی کارکن اور سینئر صحافی پی سائی ناتھ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں کھیتی میں ہونے والے پبلک انویسٹمنٹ، کھیتی سے نج کاری کی واپسی پر بحث ہو۔ اس پر بھی بات ہو کہ آئندہ تیس برسوں کے اندر ملک میں کیسی کھیتی چاہئے، کارپوریٹ کے ذریعہ کی جانے والی یا عوامی کھیتی۔

ملک میں کسانوں کی اکثریت ہے۔ ان کی روزی روٹی زراعت کے ساتھ جڑی ہے۔ دیہی معیشت کی بنیاد کھیتی پر ٹکی ہے۔ ان کے مسائل حل ہوں، اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ الیکشن صحیح وقت ہوتا ہے کسی بھی مسئلہ پر بات کرنے کا لیکن اس وقت کسان اپنی ضرورت پر نہیں، ذات، مذہب جیسے غیر ضروری مسلوں پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب وہ خود ہی اپنی تکلیف کوایشو نہیں بنائیں گے تو عوامی نمائندے ان پر بحث کیوں کریں گے؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسانوں کے قرضے معاف نہیں ہوئے۔ 2008 میں یو پی اے سرکار نے 60 ہزار کروڑ کے قرضے معاف کئے تھے۔ اس کا چناؤ میں اسے فائدہ بھی ملا تھا۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کسان پھر قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان میں بھی وہ کسان زیادہ پریشان ہیں جو قرض کی ادائیگی کرتے یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرض معافی کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ملتا۔

دراصل کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے دو طرفہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ ایک سرکار کی سطح پر، وہ کسانوں کو قرض سے آزاد کر زراعت کیلئے ایسی پالیسی بنائے جس سے کھیتی منافع بخش کاروبار بن جائے۔ کسانوں کو قرض کی ضرورت نہ پڑے اور اگر وہ قرض لیں تو وہ ان کی آمدنی کو بڑھانے والا ہو۔ اس پر سود نہ کے برابر ہو۔ دوسری طرف کسانوں کو اس سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے جو ان کے ایشوز پر سنجیدگی سے زمینی سطح پر کام کرنے کو تیار ہو۔ الیکشن میں بھی وہ مدوں کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔

اس سے ایک طرف کسانوں کی تکلیفیں کم ہونگی تو دوسری طرف ملک کی معیشت میں زرعی آمدنی کی حصہ داری بڑھے گی۔ اس سے ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔