انسان اور زمین کی حکومت (قسط 76)

رستم علی خان

الغرض کچھ دن بعد حضرت داود کو خبر ملی کہ ایک کشتی نذر کی دریا کے کنارے لگی ہے- چنانچہ حضرت داود نے سب مال کشتی کا اور اہل کشتی کو منگوایا- اور ان سے احوال کا پوچھا- انہوں نے وہی سب بیان کیا جو ہوا نے حضرت داود سے بیان کیا تھا- پس حضرت داود نے کشتی کا آدھا مال فقیروں محتاجوں کو دیا- اور باقی آدھا مال اس بڑھیا کو دیا جس کے آٹے سے ہوا نے کشتی کا سوراخ بند کیا تھا-

حضرت داود علیہ السلام نے اس بڑھیا سے پوچھا کہ تم نے خدا کی کیا اطاعت و بندگی کی تھی جو تم کو اللہ نے اتنا مال عطا کیا- وہ بولی میں نے خدا کی ایسی کوئی بندگی تو نہیں کی مگر ایک دن ایک فقیر محتاج بھوکا پیاسا میرے پاس آیا اور کھانے کا سوال کیا- اس وقت بندی کے پاس ایک ہی روٹی تھی- سو میں نے وہ روٹی اس کو دے دی- تب اس کو کھا کے پھر اس نے مجھ سے سوال کیا کہ میں بہت بھوکا ہوں اور بہت دور سے آیا ہوں- سفر کی وجہ سے بھوک زیادہ لگی ہے- سو ایک روٹی سے مجھے سیری نہیں ہوئی اور روٹی دیجئے- بڑھیا نے کہا چونکہ میرے پاس ایک ہی روٹی تھی جو میں نے اسے دے دی تھی- اس لیے میں نے کہا کہ زرا ٹھہرو میں گیہوں پیس کر روٹی پکائے دیتی ہوں- اسی واسطے میں آٹا پیس کر سر پر اٹھائے لاتی تھی کہ راہ میں ہوا سب اڑا لے گئی- میں جانتی ہوں اس وقت جو تکلیف مجھ پر گزری اس بھوکے فقیر کے سبب سے متفکر و غمناک ہو کر تمہارے پاس دادخواہ آئی تھی- اتنا مال خدا کی مہر سے تمہارے ہاتھ سے مجھ کو ملا-

تب حضرت جبرائیل بحکم ربی حضرت داود کے پاس آئے اور آ کے کہا کہ اللہ فرماتا ہے اس بڑھیا سے کہئیے کہ اتنا مال جو تو نے پایا یہ اس آٹے کا بدلہ ہے جو ہوا اڑا کر لے گئی تھی- اور اس روٹی کے بدلے جو تم نے اس فقیر کو کھلائی تھی دن قیامت کے ستر روٹیاں ملیں گی-

منقول ہے کہ بنی اسرائیل حضرت داود سے کہا کرتے کہ ہم حال قیامت کا اپنی آنکھوں سے اسی دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں یقین ہو سکے کہ قیامت میں اس طرح سے احوال گزرے گا- تب ایک دن حضرت نے فرمایا کہ کل عید کے دن تم کو تمام احوال اس کا خوب دکھاوں گا-

مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص سردار رئیس القوم مالدار تھا- اس کی ایک گائے تھی زرد رنگ، خوشنما، پاوں اس کے یاقوت سے اور سینگ اس کے جواہرات اور زری کپڑے سے سجا کر میدان میں وہ چھوڑ دیا کرتا تھا- اور بنی اسرائیل میں ایک عورت عابدہ تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا جو نیک اور صالح تھا- دونوں صحرا میں جا کر ایک عبادت گاہ بنا کر عبادت میں مصروف رہتے- ان کے پاس کھانے پینے کا کچھ اسباب نہ تھا- مگر ایک چشمہ خدا کی مہر سے ان کی عبادت گاہ کے قریب جاری تھا اور اس کے کنارے ایک درخت انار کا تھا- اس درخت پر ہر روز خدا کی مہر سے دو انار لگتے جسے وہ دونوں ماں بیٹا کھاتے اور خدا کا شکر بجا لاتے-

ایک دن بیٹے نے اپنی ماں سے کہا، اماں جان شہر کے اندر بازار میں بہت چیزیں کھانے پینی کی بکتی ہیں- جی چاہتا ہے بازار سے کچھ لا کے کھاوں- ماں نے کہا، اے بیٹا خدا تعالی دو انار ہمیں ہر روز بے رنج و محنت عطا کرتا ہے- پس یہ کھا کر شکر ادا کر اور دوسری چیزوں کی لالچ نہ کر بیشک لالچ بری چیز ہے- یہ کہہ کر جب درخت کی طرف نظر کی تو وہ دو انار جو ہر روز لگتے تھے نہ پائے اور درخت خالی تھا-

تب اس کی ماں کہنے لگی اے بیٹا وہ جو دو انار اللہ ہمیں ہر روز عنایت کرتا تھا بسبب تمہاری لالچ اور ناشکری کے غائب ہو گئے- پس ایک رات اور ایک دن دونوں بھوکے رہے- جب دوسری رات ہوئی تو وہی گائے جس کا اوپر زکر ہوا دونوں ماں بیٹے کے پاس آئی اور بحکم ربی بولی کہ مجھے زبح کر کے کھا لو میں تمہارے رزق حلال سے ہوں- تب لڑکے کی ماں کہنے لگی کہ یہ ضرور شیطان کی شرارت ہے کہ ہمیں چوری کی طرف مائل کروا کے ہمارا ایمان ضائع کرنا چاہتا ہے- پس اس گائے کو وہاں سے ہانک دیا- دوسری صبح گائے پھر آ موجود ہوئی اور ہاتھ پاوں چھوڑ کر زمین پر لیٹ گئی اور اپنا حلق سامنے لا کے بولی اے بندہ خدا مجھ کو ذبح کر کے کھا جاو کہ میں تمہاری حلال روزی میں سے ہوں- وہ ماں بیٹا تب بھی نہ مانے اور اسے شیطان کی کوئی چال سمجھتے ہوئے وہاں سے ہانک دیا-

الغرض تیسرے دن وہی گائے پھر آ موجود ہوئی اور اپنے ذبح کرنے کا مطالبہ کرنے لگی- تب مارے بھوک کے دونوں نے ناچار ہو کر اسے ذبح کیا اور اس کا گوشت بھون کر کھا لیا۔

چنانچہ ان دونوں ماں بیٹے نے بھوک سے ناچار ہو کر اس گائے کو ذبح کر کے کھا لیا- پس جب تیسرے دن وہ گائے اپنے گھر واپس نہ گئی تو اس کے مالک نے اسے بہت ڈھونڈا لیکن کہیں نہ ملی- لوگوں کو جنگل اور میدان میں بھیجا کہ دیکھ کر آئیں لیکن کہیں نہ ملی-

آخر ایک عورت دلالہ کہ بنی اسرائیل کے ہر گھر میں خرید و فروخت کے واسطے جاتی تھی- اتفاقا اس دن ان دونوں ماں بیٹے کے گھر گئی- دیکھتی کیا ہے کہ دونوں ایک گائے ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر کھاتے ہیں- جب اس کو دیکھا تو دونوں گھبرائے اور ماں نے بیٹے سے کہا دیکھا ہم ایک عرصے سے یہاں رہتے ہیں اور خدا کے دئیے رزق حلال سے کھاتے ہیں- اور اتنے عرصے میں کوئی یہاں نہیں آیا- اور آج تو نے میری بات نہ مانی اور بیگانی گائے ذبح کر کے کھا لی سو یہ مصیبت آ پڑی- اب خدا جانے ہم پر کیا عذاب آ کر پڑنے والا ہے اور کس طرح سے ملک میں رسوا ہونے والے ہیں-

پس اس عورت دلالہ نے جا کے صاحب گائے کو اس کی گائے کے بارے خبر کی اور نشان تمام اس کو بتا دیا- تب گائے کے مالک نے جا کے حضرت داود کے سامنے فریاد گزاری کہ فلاں عورت اور اس کا بیٹا میری گائے کو بنا اجازت ذبح کر کے کھا گئے ہیں- اور قصاص کا دعوی کیا- اسی وقت حضرت داود نے حکم کیا کہ اس عورت اور اس کے بیٹے کو پکڑ کر میرے پاس حاضر کرو- تب پیادے حکم پاتے ہی وہاں سے دوڑے گئے اور اس ماں بیٹے کو لا کر حضرت داود کے سامنے پیش کیا-

تب حضرت نے ان سے پوچھا تم کیوں بیگانی گائے ذبح کر کے کھا گئے- انہوں نے کہا اے خلیفتہ اللہ وہ گائے تین دن تک ہمارے دروازے پر آ کر پڑی رہی- اور ہانکنے سے بھی نہ جاتی تھی- اور بولتی تھی کہ میں تمہارے حلال رزق سے ہوں مجھے ذبح کر کے کھا لو- اور ہم تین دن کے بھوکے تھے پس ناچار ہو کر اسے ذبح کر کے کھا گئے-

یہ سن کر گائے کے مالک نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو بھلا گائے بیل یا جانور بھی کسی سے بات کیا کرتے ہیں- حضرت داود نے اس کا جواب دیا کہ البتہ اللہ کے حکم سے کر سکتی ہے- القصہ صاحب گائے نے دونوں ماں بیٹے سے قصاص طلب کیا- حضرت نے فرمایا تم ان دونوں کو معاف کر دو ہزار اشرفی ہم سے لے لو- وہ بولا میں ان کو ہر گز معاف نہ کروں گا بلکہ اپنی گائے کا قصاص لوں گا- پھر حضرت نے اس سے کہا کہ چمڑا بھر گائے کا برابر اشرفیاں ہم سے لے لو اور انہیں معاف کر دو- لیکن وہ جاہل اس پر بھی نہ مانا اور قصاص کا مطالبہ کرتا رہا-

اتنے میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا، اے داود اللہ نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل آپ سے احوال قیامت دنیا میں دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں- سو ان سے کہدو کہ کل عید کے دن تمام لوگ میدان میں جمع ہو جائیں احوال قیامت کا وہاں دیکھیں گے- تب حضرت نے ان سے کہہ دیا اور صاحب گائے سے بھی کہا کہ تمہارا فیصلہ بھی اسی میدان میں ہو گا- چنانچہ دوسرے روز عید کو تمام زن و مرد بچے بوڑھے اس میدان میں اکٹھے ہوئے- اور حضرت داود منبر پر چڑھ کر زبور کی تلاوت کرنے لگے- تمام لوگ آپ کی خوش الحانی سے مبہوت ہو گئے- اس وقت حضرت جبرائیل امین نازل ہوئے۔

چنانچہ عید کے روز تمام لوگ بنی اسرائیل کے میدان میں حاضر ہوئے اور حضرت داود منبر پر چڑھ کر زبور کی تلاوت کرنے لگے- اور حضرت جبرائیل بھی نازل ہوئے- پس اس شخص گائے والے نے دوبارہ اپنی فریاد عرض کی اور قصاص چاہا- تب جبرائیل نے حضرت داود سے کہا کہ اس شخص سے پوچھئیے کہ وہ دن یاد ہے جب شام سے ایک بڑے سوداگر کے ساتھ نوکر ہو کر فلانے راہ سے شہر مصر کو جاتا تھا- اور اس سوداگر کے پاس پانسو اونٹ اور بھیڑ بکریاں اور بہت سا مال اسباب تجارت کا تھا- پس تو قوی تھا اور اسے مار کر تو نے سب کچھ اس کا چھین لیا اور وہاں سے مصر جا کر خوب منافع کمایا اور پھر واپس شام آ کر رہنے لگا- اور خوب مال و متاع تو نے جمع کیا یہاں تک کہ تو بنی اسرائیل کا رئیس اور سردار ہوا- پس جس سوداگر کو تو نے قتل کیا اور مال اسباب اس کا چھینا- یہ عورت اس کی بیوی ہے اور یہ لڑکا اس کا بیٹا ہے جو تیری گائے زبح کر کے کھا گئے ہیں- اور جو کچھ تیرے پاس ہے سب ان دونوں کا ہے-

حضرت داود نے جبرائیل سے یہ حقیقت سنکر صاحب گائے سے اس بارے دریافت کیا تو اس نے اس بات سے انکار کر دیا اور صاف مکر گیا- اور کہنے لگا کہ میں نے ہرگز کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ کسی کا مال اسباب چھینا ہے- یہ تو میرے پاس آباو اجداد سے ہے- اور یہ کہ جس نے بھی آپ سے یہ کہا اس نے جھوٹ بولا ہے- تب خدا کے حکم سے زبان اس کی گنگ ہوئی اور اس کے اعضاء نے گواہی دی- اس کے ہاتھ نے کہا یہ سچ ہے میں نے اس کی گردن پر چھری چلائی اور اس کا مال اسباب سب لوٹ لیا- اور اسی طرح اس کے تمام اعضا نے ایک ایک کر کے گواہی دی- اور بنی اسرائیل تمام یہ حال دیکھ کر متعجب ہوئے-.تب حضرت داود نے فرمایا اے قوم! یہی حال قیامت کے دن ہو گا- جس کسی نے جو نیک و بد کیا ہو گا اس کے سامنے پیش ہو گا اور ہاتھ پاوں اور دیگر اعضا اس کی گواہی دیں گے جیسا کہ اس صاحب گائے خے ساتھ ہوا- جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا، "آج ہم مہر کر دیں گے ان کے منہ پر اور بولیں گے ہم سے ان کے ہاتھ پاوں جو کچھ وہ دنیا میں کماتے تھے”-

الغرض حضرت داود نے ان ماں بیٹے سے کہا کہ اس گائے والے نے تمہارے باپ کو قتل کر کے سب مال اسباب اس کا چھینا تھا- پس قتل کے قصاص میں اس شخص کو قتل کروا دیا اور مال اسباب اس کا جتنا تھا ان ماں بیٹے کو عنایت کیا کہ وہی اس کے اصل حقدار تھے- تب دونوں ماں بیٹا اور حضرت داود بھی خدا کا شکر بجا لائے کہ انصاف کے ساتھ حقداروں کا مال ان تک پنہچ گیا-

منقول ہے کہ جب حضرت داود کا وقت آخر قریب آیا تو حضرت جبرائیل نے انہیں ایک صندوق لا کر دیا- اور فرمایا کہ اے داود اپنے بیٹوں سے پوچھو کہ اس صندوق کے اندر کیا ہے- جو بتائے گا وہی اس سلطنت اور بنی اسرائیل کو خیلفہ ہو گا اور اللہ اس کو سلطنت عظیم عطا کرے گا اور ایسی بادشاہت اس کے آگے پیچھے کسی کی نہ ہو گی- اور پیغمبری عطا فرمائے گا- تب حضرت داود نے اپنے بیٹوں سے پوچھا لیکن کوئی جواب نہ دے سکا- چنانچہ حضرت سلیمان حاضر خدمت ہوئے اور کہا اگر اجازت ہو تو میں عرض کروں- حضرت نے اجازت دی- تب حضرت سلیمان نے فرمایا اس میں ایک انگشتری ہے اور ایک چابک ہے اور ایک خط- بس یہ تین چیزیں ہیں ان کے سوا کچھ نہیں- جب صندوق کو کھولا تو وہی کچھ تھا جو حضرت سلیمان نے بیان کیا تھا-

تب جبرائیل نے فرمایا یہ تین چیزیں معجزے سے ہیں- یہ انگشتری جو بھی ہاتھ میں رکھے گا ہر چیز کائنات کی اس کے تابع ہو گی اور حکم مانے گی- اور جب اس میں دیکھے گا تو مشرق تا مغرب جو بھی بھلا برا زمین پر ہو رہا ہو گا سب دکھے گا- اور یہ چابک نار جہنم سے ہے- پس جو کوئی گمراہ ہو گا یا سرکش ہو گا تو جب صاحط چابک اس پر حکم کرے گا یہ اس گمراہ و سرکش کو پکڑ کر لائے گا- اور بنا آقا کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور جب کوئی ایسا کرے گا تو اس پر اس کی نحوست سے عذاب اترے گا-

پھر جبرائیل نے حضرت داود سے کہا کہ اب اپنے بیٹوں سے پوچھو کہ اس خط میں کیا ہے- تب حضرت داود نے پوچھا پر کوئی اس کا حال بیان کر سکا- تب حضرت سلیمان نے فرمایا اس میں پانچ مسلئے ہیں- اور وہ یہ ہیں، "ایمان”، "محبت”، "عقل”، "شرم” اور "طاقت”- پھر پوچھا بدن میں ان کے قیام کے بارے بتاو- تب حضرت سلیمان نے فرمایا، ایمان اور محبت کی جگہ دل میں ہے- اور عقل کا مقام سر ہے، اور اسی طرح شرم آنکھوں میں اور طاقت ہڈیوں میں قیام کرتی ہے- چنانچہ جب تمام باتیں بتائیں تو حضرت داود نے انہیں اپنا خلیفہ کیا اور تحت پر بٹھایا اور خود گوشہ تنہائی میں جا بیٹھے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے- اور ایک سو برس کی عمر میں وفات پائی اور بعض نے لکھا کہ ایک سو بیس برس کی عمر پائی- واللہ اعلم الصواب

تبصرے بند ہیں۔