کس نے پھر خادم الحجاج کا فیصلہ کردیا؟

حفیظ نعمانی

معاملات سے عدم واقفیت کا نتیجہ بربادی ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں نہ جانے کب حکومت کے ذمہ داروں کو کس شیطان فطرت مسلمان نے یہ سمجھا دیا کہ حج کو جانے والے مسلمانوں کے لئے اگر حکومت خادم الحجاج بھیج دے تو مسلمان اس کا احسان مانیں گے اور ہر حاجی آپ کی پارٹی کو ووٹ دے گا۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اوقاف و حج نے اسے منظور کرلیا۔ اس لئے کہ جو خرچ ہونا تھا وہ ان کی جیب سے نہیں ہونا تھا۔ اور پھر ہر سال سرکاری ملازموں میں مسلمانوں میں سے جس نے جانا چاہا اس نے سفارش یا رشوت دے کر اپنے کو خادم الحجاج میں شامل کرالیا۔ ان میں زیادہ تر وہ ہوتے تھے جن کے لڑکے یا لڑکی کی شادی ہونے والی ہوتی تھی اور وہ دوسرے ملکوں کا بنا ہوا سامان خریدکر لانا چاہتے تھے یا سونا لاتے تھے جو اس وقت وہاں کچھ سستا بھی تھا اور خالص ہوتا تھا۔

اعظم خاں نے اس میں ایک ترمیم کا فیصلہ کیا کہ سرکاری ملازم کی شرط ختم کردی جائے۔ یہ ان کی اپنی رائے نہیں بلکہ ہم جیسوں کے لکھنے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ حج کوئی سیاحت نہیں ہے کہ گائڈ جو جی چاہے بتاتا جائے اور سیاح ہاں ہاں کرتا جائے۔ حج ایک عبادت ہے اور فرض ہے اس میں ذراسی غلطی پر اللہ کی طرف سے جرمانہ ہے یعنی ایک بکرے کی قربانی۔ جس سرکاری ملازم نے خود حج نہ کیا ہو وہ کیا جانے کہ حج کیا ہے؟ جو مسلمان حج کرنے جاتے ہیں ان سے معلم (وکیل) کی فیس لی جاتی ہے اور ان کے ہر معاملہ کا ذمہ دار معلم ہوتا ہے۔ وہی خانہ کعبہ کا طواف کراتا ہے وہی ’’مروہ اور صفا‘‘ پہاڑیوں کے درمیان ’’سعی‘‘ کراتا ہے۔ وہی عرفات میدان میں دعائیں کراتا ہے اور ہر بات بتاتا ہے۔ وہی سمجھاتا ہے کہ 9  ذی الحجہ کو ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی جائے گی اس لئے ایک نماز کے بعد رُکے رہنا۔

اعظم خاں کا کہنا یہ تھا کہ جسے خادم بناکر بھیجا جائے وہ حاجی ہو، عالم ہو، مکہ مدینہ کے بازاروں سے واقف ہو اور تھوڑی عربی جانتا ہو۔ تاکہ وہ خدمت کرسکے۔ مرکزی حج کمیٹی کے ذمہ داروں نے اسے نہیں  مانا اور ہم نے اس خبر پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ کوئی خادم نہیں جائے گا۔ ہمارا بیٹا مدینہ میں 30  برس سے رہ رہا ہے اس نے نہ جانے کتنے حج کئے ہیں ۔ جب تک یہ پابندی نہیں تھی کہ مقامی لوگ بھی اگر حج کریں تو وہ رجسٹریشن کرائیں اس سے پہلے ہر سال انہوں نے حج کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ماں باپ، ساس سسر، بہن بھائیوں سب کی معلم کی فیس تو دی لیکن خود سب کو حج کرایا۔ شاید 25  سال پہلے جب ہم گئے تھے تو بیٹے نے کافی پہلے بلا لیا تھا۔ پہلے مدینہ میں رکھا پھر چاند نکلنے سے ایک دن پہلے مکہ میں پہونچا دیا اور اپنی گاڑی بھی وہیں چھوڑ دی۔ چاند نکلنے کے بعد دوسرے شہروں سے چھوٹی گاڑی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتے (چھوٹی یعنی 9 سیٹوں سے کم والی گاڑی) ہم، ہماری بیوی اور بیٹی حرم شریف کے سامنے ایک عمارت کے ایک کمرہ میں رہے۔

ہم نے ایک تالا لیا جس کی تین چابیاں تھیں ایک ایک چابی تینوں کو دی اور یہ فیصلہ کیا کہ کوئی کسی کا نہ انتظار کرے نہ تلاش کرے نماز سنتیں نفل دعا اور طواف جس کا جو جی چاہے کرے اور کمرہ پر آجائے۔ ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر دعا مانگتے رہے اور خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ گئے کہ مغرب کی نماز پڑھ کر جائیں گے۔ شاید ایک گھنٹہ گذرا ہوگا کہ ایک صاحب بادامی رنگ کا کھدر کا کرتہ اسی رنگ کی گول ٹوپی سفید پائجامہ پہنے بالکل سامنے آکر کھڑے ہوئے اور مسرت بھرے لہجہ میں سلام علیکم کہہ کر ہاتھ بڑھا دیا ان کی مسکراہٹ سے پہچانا کہ وہ عبدالسمیع ڈی وائی ایس پی قیصر باغ تھے جن کو ہمیشہ وردی میں دیکھا تھا۔ ہم نے ہاتھ پکڑکر برابر بٹھا لیا اور وہ بھی دعا مانگنے لگے۔

دونوں نے مغرب کی نماز سنتیں نفل سب ساتھ پڑھے اور میں انہیں لئے ہوئے اپنے کمرہ میں آگیا۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے خود کہا کہ میں خادم الحجاج کے کوٹہ سے آیا ہوں ۔ میں نے تعجب سے معلوم کیا کہ آپ لوگوں کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے؟ کہنے لگے یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم۔ میں تو سامنے جو ڈسپنسری ہے وہاں رات کو جب سب بند کرنے لگتے ہیں تو اسٹریچر پر سوجاتا ہوں ۔ اس وقت میں نے غور کیا کہ وہ جب سے آئے ہیں مجھے کم اور کمرہ کو زیادہ غور سے دیکھ رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ دس حاجیوں کے لئے تھا اور دس بستر بھی بچھے تھے۔ میں نے کرید کرید کر معلوم کیا کہ آخر جب آپ کو خادم بنایا گیا تھا تو یہ بھی تو بتایا گیا ہوگا کہ کس ضلع کے حاجیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے؟ سمیع صاحب کا جواب تھا کہ یہ لکھنؤ میں کسی نے نہیں بتایا اور نہ یہاں کوئی یہ بتانے والا ہے کہ ہم کیوں آئے ہیں اور کیا کریں ؟ سمیع صاحب کوئی ہیڈ کانسٹبل یا سب انسپکٹر نہیں تھے ڈپٹی ایس پی تھے۔ خبر کے مطابق ایک کروڑ 75  لاکھ روپئے حکومت کے اس میں خرچ ہوں گے پھر کوئی چھچھورا ایم ایل اسے طعنہ دے گا کہ پونے دو کروڑ مسلمانوں نے خادموں کے لئے لے لئے۔

پانچ سال اکھلیش کی سرکار رہی کسی نے شکایت نہیں کی کہ خادم کوئی نہیں تھا۔ شکایت کون کرتا جبکہ کوئی حاجی نہیں بتا سکتا کہ اس کی کسی خادم سے ملاقات ہوئی اور اس کی وجہ سے یہ آرام ملا۔ بی جے پی حکومت میں محسن رضا صاحب نے یہ سوچا ہوگا کہ انہیں 146  خادم بھیجنے کا یعنی 146  حج کا ثواب ملے گا۔ اللہ نیت کو جانتا ہے اور نیت پر ہی ثواب ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پونے دو کروڑ روپئے کی بربادی ہے اور اس کی حقیقت انہیں اس وقت معلوم ہوگی جب اُترپردیش کے حاجی واپس آئیں گے اور بتائیں گے کہ ان کی تو کسی خادم سے نہ ملاقات ہوئی اور نہ ان کی صورت دیکھی تب معلوم ہوگا کہ فیصلہ غلط تھا۔

کانگریس کے زمانہ میں ہر سال سرکاری وفد بھی جاتا تھا۔ جس سال ہم تھے اس سال بھی سرکاری وفد گیا تھا شاید پانچ وزیر یا لیڈر تھے صرف خان غفران زاہدی سے ملاقات ہوئی اس لئے کہ ان کے ساتھ اسٹاف بھی تھا، بیوی ماں اور ساس دونوں خاتون وہیل چیئر پر چلتی تھیں ۔ ان کے علاوہ جسے فون کیا وہ کمرہ بند بازار گئے ہیں ، یا کہیں گئے ہیں ۔ حج کے نام پر سبسڈی یا سرکاری وفد یا خادم الحجاج یہ سب بند ہونا چاہئے۔ حج بڑا نازک فرض ہے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔ وہ تو اللہ کا گھر کہا جاتا ہے وہاں بڑے سے بڑے پاپی کے سامنے سے چاہے جتنے حسین چہرے گذر جائیں اس کی نگاہ پاک رہتی ہے اور عورتوں سے زیادہ مرد کوشش کرتے ہیں کہ چھو نہ جائیں ۔ لیکن یہ سیاسی کھلاڑی وہاں بھی جاکر شیطانی میں رہتے ہیں اس لئے کہ سرکاری پیسے سے آئے ہیں ۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔