ناظم ظفؔر
کس پہ روئیں کہ خود ہی جہانِ ادب
اجنبی ہو گیا درمیانِ ادب
خود کو کہتے ہیں جو پاسبانِ ادب
درحقیقت وہ ہیں دشمنانِ ادب
شاعری ، شعریت سے جدا ہوگئی
ہر جگہ بچھ گئی ہے دکانِ ادب
جس نے کاغذ پہ چھِڑکا ہو دل کا لہو
کوئی اظؔہر سا ہے ترجمانِ ادب ؟
ایسے استاد کی سرپرستی ملے
مجھ کو حاصل ہو جس سے کمانِ ادب
ایسا ماحول برپا ہو اس شہر میں
ہوں نہ محروم پھر طالِبان ادب
کی، غزل کی طلب ، آج عشاق نے
ہم نے پھر چھیڑ دی داستانِ ادب
شعر ہے حسرتوں کے سلگنے کا نام
دم جو اوروں کا لے کھینچ،جانِ ادب
بحرِِ الفاظ میں ، فکر ! کشتی نما
اور اردو مری ، بادبانِ ادب
ٹوٹی پھوٹی غزل ، شوقِ اصلاح میں
لے کے حاضر ہے یہ نوجوانِ ادب
شعر ہے لفظ میں درد سازی کا فن
اور غزلیں ظفؔر کی بیانِ ادب
تبصرے بند ہیں۔