کشمیر: امتحاں ہے قوم کی تقدیر کا

ابراہیم جمال بٹ

’’قوم بہادر ہوتو قوموں کے مسائل ومشکلات میں بھی آسانی ہو جاتی ہے اور اگر قوم میں بزدلی کا غالب رحجان ہے تو ہر آئے روز قوم کے مصائب ومشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ بات جس نے بھی کہی ہے بہت خوب کہی ہے کیوں کہ بہادر قوموں کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ جب بھی کبھی انہیں دہشت زدہ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں تو وہ ان سازشوں سے نہ ہی خوف زدہ ہو تے ہیں اور نہ ہی یہ خوف دوسروں کے چہروں پر دیکھنے کے روادار ہوتے ہیں ۔ مجموعی طور پر جب وادیٔ کشمیر میں نامساعد حالات کی گردش میں الجھے لوگوں کی کیفیات اورکوائف کاایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ مہمان نواز، انسانیت دوست، ہمدردی کے خوگر، انصاف پسند اور خوف سے بے خوف قوم ہے جسے خود ودہشت سے ناکردہ گناہوں کی مختلف سزا ئیں دی جارہی ہیں ۔ تاریخ کشمیر گواہ ہے کہ جہاں ہر دور میں کشمیری لوگوں میں سادگی اورفراخ دلی کی وضع داری رہی، وہیں امانت داری، دیانت داری، انسانیت نوازی، ہمدردی اور نڈر تا بھی ان کی مزاج ثانی بنا۔

یہ غالباً ۱۹۹۰ء کے بعد کی بات ہے کہ جب عسکری دور اپنی انتہا پر تھا، کشمیریوں کو نادیدہ ہاتھوں نے خوف زدہ کرکے دبانے کی مختلف سازشیں رچائیں ، کریک ڈائون، گھر گھر تلاشیاں اور اندھا دھند گرفتاریاں عمل میں لانا اسی کا حصہ تھیں ۔ تاہم یہ سب حربے اختیار کرنے کے باوجود بھی کشمیری خوف زدہ ہوئے نہ پسپا۔ اس زمانے میں ’’آوپریشن بھوت‘‘ کا سہارا لے کر لوگوں میں خوف وہراس اور دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا لیکن کشمیریوں نے اس وقت بھی بہادری اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کر کے نہ صرف ’’آوپریشن بھوت ‘‘کا خاتمہ کرڈالا بلکہ ان لوگوں کو جنہوں نے اس آوپریشن کی آڑ میں آزادی پسند وں کو بدنام اور دبانے کی ناکام کوششیں کی تھیں ، ان پر یہ واضح کردیا کہ کشمیری خوف وہراس اور دہشت کا ماحول پیدا کرنے سے خائف ہونے والا نہیں بلکہ اپنی بہادری اور اجتماعی مزاحمت سے حق پر ڈٹے رہنے کا فن جانتے ہیں ۔ چنانچہ ’آوپریشن بھوت‘‘ کی پول آخر کار لوگوں نے کھول کر رکھ دی، جس میں کوئی ایرا غیرا نہیں بلکہ وردی پوش اہلکار ملوث پائے گئے تھے۔

ان ایام میں رات دیر گئے گھروں میں ’’بھوتوں ‘‘ کا خوفناک طریقے سے داخل ہونے اور انہیں باہر کھڑیوں سے اپنی ہیبت ناک شکلیں دکھانے سے خوف وہراسانی کا ماحول پیدا ہوا لیکن پُرعزم، حوصلہ منداور جذبۂ حریت سے لبریز لوگوں نے صبر اور ہمت کا سہارا لے کر ثابت قدمی دکھائی تو خوف ناکی کا ماحول پیدا کرنے والی ایجنسیوں کو ’’آوپریشن بھوت ‘‘ کا بسترہ گول کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک مختلف قسم کے ایسے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے تا کہ کشمیر کا ہرخاص عام یہ تماشے دیکھ کر ہی اپنے اندر کپکپی محسوس کرے۔ وقتی طور یہ ہو ابھی مگر بہت جلدلوگ اپنی فطری بہادر ی سے اس طرح کے ہر ہتھکنڈے کو ناکام ولاحاصل ثابت کر گئے۔ آوپریشن بھوت، آوپریشن کیچ اینڈ کل، آوپریشن توڑ پھوڑ، اور اب کشمیر کی عفت مآب مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے بال زبردستی بال کاٹنے کی تذلیل آمیزمہم چھیڑ دی گئی ہے جو بتدریخ اپنی شدت کھوتی جارہی ہے۔ ایسے بہت سارے خوفناک ہتھکنڈے آزمائے تو گئے لیکن الحمد للہ آج تک نہ کسی حیثیت سے ان کی وجہ سے خفیہ ایجنسیوں کو کوئی کامیابی ملی اور نہ ہی آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری قوم کی روز بروز اپنی قوت ِ مزاحمت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پولیس اور فوج کی گاڑی دیکھ کر لوگ سر پر پیر رکھ کربھاگ جاتے تھے، لیکن پھر ایک وقت آیا کہ جب انہی فوجی گاڑیوں پر عسکریت سے وابستہ مقامی نوجوانوں نے گولیاں چلائیں اور اب ایسا وقت آچکا ہے کہ لوگ ان پرپتھر مار رہے ہیں اور دوسری جانب سے ان پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں ، لوگ نعرے بازی کر تے ہیں تو ان کی آنکھوں کی بصارت چھروں سے چھینی جا رہی ہے، لوگ پُر امن احتجاج کر رہے ہیں تو ان پر راست گولیاں برساکر ان کو ڈرایا جارہاہے۔ ایک جانب عسکریت سے وابستہ نوجوانوں کو ’’آوپریشن آل آئوٹ‘‘ کے تحت سیاسی منظرنامے سے ہٹایاجا رہا ہے اور دوسری جانب روز بروز یہاں مقامی عسکریت کی صفوں میں ریکروٹمنٹ مبینہ طوربڑھ رہی ہے، آرمی چیف دعویٰ کر رہے ہیں کہ عسکریت کا گراف گر رہاہے۔ ادھرماہ اگست سے ایک نیا آوپریشن کشمیری خواتین کی بلا تخصیص عمر ’’جبری بال تراشی‘‘ جا ری ہے البتہ گزشتہ دنوں جب دلی نے کشمیر کے لئے آئی بی کے سابق چیف کو بہ حیثیت مذاکرات کار تقرر کیا، بال بھوتوں میں بتدریج کمی محسوس کی جارہی ہے۔ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ بال کاٹ اسکارڈ کشمیریوں کے خلاف کسی اور سازش کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی ایسے غیبی ہاتھ کا کرشمہ ہے جو کشمیریوں کے درد واضطراب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے ایسے مکروہ حربے اختیار کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے اور ایسی کسی بدترین حرکت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جسے عام حالات میں دوست اور دشمن انسانیت سے گری ہوئی حرکت سمجھتے ہوں ۔

بہر حال اس بارے میں عوام کے بپھرے جذبات اور مختلف مقامات پر آج تک پیش آمد واقعات سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ کوئی سیاسی بازی گر بھی اس آوپریشن میں اپنا جادو آزما رہا ہے۔ وہ کون ہوسکتا ہے جو درپردہ یہ وحشیانہ اور گھناؤنا کام کر رہا ہو، وہ توخدا جانے تاہم عوامی حلقوں میں بہت ساری افواہیں گشت کر رہی ہیں اور قیاسات کے طومار بندھ رہے ہیں کہ سیاست کے بازار کے نامور دلال سیاسی بازی گری کے ایسے گھناؤنے جرائم میں لازماً ملوث ہیں ۔ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر اس ضمن میں الزام تراشیاں بھی کر چکے ہیں ۔

 اس میں دورائے نہیں کہ حکومت چاہیے کہیں کی بھی ہو، اپوزیشن کے علاوہ دیگر کئی مفاد پرست ٹولے برسراقتدار پارٹی کو ختم کرنے یا کم از کم صاحب اقتدار پارٹی کا تختہ پلٹنے کے لیے ایسے حقیر ’’ووٹہ کھور ‘‘ انجام دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ وادی کشمیر کی مفاد پرستا نہ اقتداری سیاست کی حصہ دار سیاسی پارٹیاں جو کبھی حکومت میں ہوتی ہیں اورکبھی اپوزیشن کی کرسیوں پر براجمان ہوتی ہیں ، وہ بھی اس طرح کے چمتکاروں اور تماشوں میں اچھی خاصی مہارت ہونے کی بدنامی رکھتی ہیں ۔ وہ جانتی ہیں کہ عوام پر کب کون سا تیر چلانا ہے، کس پر چلانا ہے اور کیسے چلانا ہے۔ تاریخ ہمیں دکھاتی ہے کہ شیخ عبداللہ کو اپنے دست راست بخشی غلام محمد نے دلی کی شاباشی اورمددسے اقتدار سے بے دخل کیا، پھر موئے مقدس کے پُراسرار سرقہ کے پس منظر میں عوامی بغاوت کو جنم دے کر بخشی کے کس بل نکال دئے گئے اور حساب چگتا کیا۔ اس لئے بال بھوت اسکارڈ کے حوالے خفیہ ایجنسیوں سے لے کرسیاسی کرتادھرتاؤں کے درپردہ کردار کو بعیدازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کرسی کے متوالے اپنے حقیر مفادات کے لئے کوئی بھی گل کھلاسکتے ہیں اور کوئی بھی کارڈ کھیل سکتے ہیں ۔ ہم نے سنہ سولہ میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ کس طرح اپنی سیاست چمکانے اور کرسی کے فراق میں ہندنواز لیڈروں نے اپنے آپ کو آزادی پسند کے روپ میں پیش کرنے میں کوئی پس وپیش نہ کیا۔ چونکہ جہلم سے کافی خون بہہ چکا ہے اس لئے لوگ اب اچھی طرح سے با خبر ہیں کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا، کون قابل بھروسہ ہے اور کس پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔ حالات کے تھپیڑے کھاتے ہوئے اب لوگوں میں حس اور فہم نام کی چیز یں پیدا ہو گئی ہیں اور وہ اپنا نفع نقصان بھی سمجھ رہے ہیں ۔

 بال بھوتوں کے طوفان بدتمیزی کا تو ڑ یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر کے تمام لوگ خوف وہراس اور دہشت کا مصنوعی ماحول پیدا کر نے والوں کا مردانہ وار مقابلہ کر کے انہیں حتی الوسع ننگا کریں جو ہماری قوم کے طبقہ ٔ اناث کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے، اس ماحول کو قبول نہ کرتے ہوئے ہمیں اپنی نفسیات پر کسی نادیدہ قوت کو حاوی ہونے سے روکنا ہوگا، ہمیں کشمیر کے اصل بیانئے کا رُخ بدل دینے والے چال بازوں کا عقل وفہم سے توڑ کر نے کے علاوہ ان کے آلہ کاروں کے بزدلانہ حملوں کا بہادرانہ مقابلہ کر نا ہوگا، ہمیں اپنے اندراجتماعیت کی روح پیدا کر نے کی ساری نتیجہ خیزکوشیں کر نی ہوں گی۔ تاہم یہاں کے لوگوں کو مظلوم ہونے کے ناطے سمجھنا چاہیے کہ اپنا ہو یا غیر کسی کو بھی محض شک کی بنیاد پر بال تراش سمجھ کر اسے گزند پہنچانا اللہ کے غیظ وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کسی مشکوک الحال اپنے یا پرائے کو پکڑ کر پہلے صبر وسکون کے ساتھ اس کی شناخت کریں ، ہجومی تشدد پر اُتر آنے کے بجائے اس کو محلے یاعلاقے کے ذی فہم لوگوں کے حوالے کرکے ان سے ہی پکڑے گئے فرد یا افراد کے بارے میں حقائق دریافت کر نے کے لئے مہذبانہ چھان بین کرائیں ۔

ہمیں کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری پوری دنیا میں یہ پہچان ہے کم ہم انصاف پسند ہیں ، اپنے پرائے سے اچھا سلوک کر نے والے ہیں ، مہمان نواز ہیں ، نڈر اور بہادر ہیں ، مسلسل جانی، مالی اور تعلیمی نقصانات اٹھانے کے باجود سچائی کا ساتھ دینے والے ہیں ۔ اس پہچان کو ہمیں ہر اشتعال انگیز اور دردناک سرگزشت کے باوجود ہر قیمت پر برقرار رکھنے سے ہی اللہ کی تائیدو نصرت مل سکتی ہے۔ خواتین کی بال کاٹ مہم کا خاتمہ بالخیر کر نے بلکہ ہر چھوٹی بڑی سازش کا توڑ کر نے کے لئے انفرادی طور پر بھی لوگوں کو چوکنا رہنا چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی۔ یہاں کام کر رہی مختلف مزاحتمی اور دینی تنظیموں سمیت دیگر اصلاحی فورمز کو فی الوقت سب سے بڑی پریشانی یہ ہونی چاہیے کہ ایسی بدنام زماں سازشوں سے مظلوم قوم کو کیسے چھٹکارا دلایا جائے۔ یہاں کام کرنے والے یہ سارے ادارے اور تنظیمیں آج ایک بار پھر مظلوم لوگوں کے دفاع میں پُرامن طریقے پر اُٹھ کھڑے ہوں تاکہ لوگوں کو دشمن کی منصوبہ بند سازشوں اور مصیبتوں سے نجات کی کوئی منزل آشنا راہ نکل آئے۔ جموں وکشمیر کی مخلوط سرکار ایسے دلخراش واقعات میں ملوثین کے بارے میں صرف یہ کہتی رہی کہ ایسے عناصر کو جلد ہی بے نقاب کر دیا جائے گا۔ تاہم تا دم ایں یہ یقین دہانیاں محض کاغذی گھوڑے ثابت ہوئیں ۔ اس ساری داستان کی اصل حقیقت کیا ہے، وہ ابھی تک سرکار کی جانب سے لوگوں کو نہ سنائی گئی۔ کہنے کو پولیس نے اس بدترین کرائم کو روکنے کے لئے ضلعی سطحوں پر ایس آئی ٹی قائم کیں ، کھوج کرید کر نے کے وعدے دئے، چھ لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا، لوگوں کو پولیس سے تعاون کرنے کی فہمائشیں کیں ، عوامی عدم تعاون کی شکایتیں بھی کیں ، بال کٹائی کے واقعات کو ’’ہسٹیریا‘‘ یعنی جنون سے تعبیر بھی کیالیکن عملی طور اس سارے قضیہ کو سلجھانے کے لئے کوئی ایسی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے پتہ چلتا کہ سرکار نے اس صورت حال میں عوام کے حق میں اپنا کردار ادا کیا۔

اس کے برعکس جب بھی لوگوں نے اپنے بچاؤ میں کوئی غلط یا ٹھیک کارروائی کی تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان پر لاٹھی چارج، ٹیر گیس اور پیپر گیس شلنگ کی گئی، کئی مواقع پر لا ء ا ینڈ آرڈر کے نام پر ہوائی گولیاں بھی چلائی گئیں جن سے مرد وخواتین زخمی بھی ہو گئے۔ ادھر حکمران پارٹی نے کبھی ایک آدھ بیان بھی متاثرہ خواتین کی دلجوئی یا دلاسے کے لئے نہ دیا بلکہ جب بھی لوگوں نے کہیں ناگفتہ بہ حالات کے پس منظر میں قانون اپنے ہاتھ میں لے کر مبینہ طور کسی بے قصور پر اپنا غصہ نکالا تو سرکاری لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھایا دیکھو لوگ بے قصوروں کو مار رہے ہیں ۔ حالانکہ جس طرح بال بھوتوں کا قلع قمع کرنا سرکا رکا فرض منصبی ہے، اسی طرح کسی بے قصور کی مار پیٹ پر اپنا شدید ردعمل دکھانا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن سرکار صرف مؤخرالذکر ذمہ داری کے تئیں سرگرم ہے اور اول الذکر ذمہ داری کو پس پشت ڈالے ہوئی ہے۔ سرکار کے اس دوہرے پن سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالاہے۔

 بہرکیف اس وقت قوم کو خوفزدہ کرنے کی جو دوررس اہمیت کی حامل سازشیں رچی جا رہی ہیں ، اس کا مؤثر توڑ کرنے میں یہاں کے دینی وملی اداروں کا اہم رول بنتا ہے۔ انہیں ایک جگہ جمع ہو کر ایک دفاعی لائحہ عمل ترتیب دینے میں پیش پیش ہونا چاہیے جولوگوں کو حوصلہ دے، ا نہیں اخلاق کے ٹریک سے منحرف ہونے سے روکے، انہیں مختلف سازشوں سے محفوظ ہونے کی راہ سجھائے۔ اس بات سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی کہ یہ کشمیر کے دینی ادارے ہیں جنہوں نے ہر مصیبت میں لوگوں کا ساتھ دیا اورعوام کو سنبھالا، زلزلہ تھایا سیلاب، عوامی ایجی ٹیشنوں کے ماہ وسال تھے یا ہنگامی نوعیت کی مشکلات، وادی کے دینی ادارے ہمیشہ لوگوں کی امداد وراحت رسانی کے جملہ امور میں پیش پیش رہے۔ آج کے ہوش رُبا حالات میں ان اداروں کے لئے ایک بار پھر ہمہ وقت کام کرنے کی آزمائش کھڑی ہوچکی ہے۔ ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ اپنے رضاکاروں کو ہر بستی اور گاؤں میں متحرک رکھیں اور قومی ڈسپلن کا ہر حال میں تحفظ کریں یہ وقت کی اذان ہے جس پر ہم سب کو اپنے اپنے دایرہ ٔ کار میں لبیک کہنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔