ٹشو پیپر کا مقدر

عالم نقوی

وہ اپنے منافقانہ و خود غرضانہ ’طرز زندگی ‘ کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مغرب کے عشرت کدوں میں پلنے والی مکروہ تہذیب و ثقافت کے پروردہ لوگ جنہوں نے نام نہاد روشن خیالی آزادی اور جمہوردوستی کے ظاہراً خوش نما نقابوں اور لبادوں میں خود کو چھپا رکھا ہے،آج پہلی بار خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں !فرعون نے بھی جب موسیٰؑ کی پاکیزہ دعوت کو چیلنج کیا تھا تو اسی طرح چلا اٹھا تھا کہ ’وہ  مصریوں کی مثالی تہذیب و طرز زندگی کے دشمن ہیں ‘! آج کے فرعون بھی اسی لیے پاگل ہو رہے ہیں کہ وہ’ وقت کے موسیٰ ‘کی آمد کو قریب دیکھنے لگے ہیں !

صدیوں کی’ گندی فرعونی، قارونی، نمرودی، منو وادی، چانکیائی، یزیدی تہذیب‘  کو پروان چڑھانے کے بعد مغرب اور اُس کے مشرقی حاشیہ بردار اِس سڑی گلی لاش کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈال کر اپنی تباہی و بربادی میں ہمیں حصہ دار بنانے کے لیے پاگل ہورہے ہیں۔ مصنوعی چکا چوند میں ملفوف اس سڑی گلی بوسیدہ لاش کا بوجھ ڈھونے کے لیے کچھ منافقوں، اِبن ا لوقتوں اور مفاد پرستوں کا ٹولہ  اہل ایمان کو گدھوں کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے۔اور اسی طرح کی غلامانہ ذہنیت کے حامل کچھ دوسرے لوگ  بھی بے قرار ہیں کہ اَبَدی لعنت لیکن ظاہری شوکت کا یہ تمغہ اُن کے گلوں میں ڈال دیا جائے ! ظاہر ہے کہ مسرفین و مترفین و مفسدین پر مشتمل فرعونی، قارونی و یرقانی حکمراں ’ ٹشو پیپر‘ کے استعمال سے بھی خوب واقف ہیں۔ اُنہیں  تو اپنے نظام کی گرتی ہوئی دیواروں  کے لیے محض عارضی سہاروں کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو ہمارے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی ہے کہ ہم اس فاسد نظام زندگی کی بقا کا حصہ بنیں یا ہمت کر کے پامردی کے ساتھ  آگے  بڑھیں اور اُن سے  کہیں کہ جناب آپ کے اس سڑے گلے سیاسی، معاشی و سماجی نظام کے انجام سے ہم خوب واقف ہیں !اس لیے یہ تو ممکن ہو سکتا ہے کہ  اس فرعونی و قارونی سیاسی و اقتصادی سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدہ لاش کو تاریخ کے کوڑے دان تک پہنچانے کے لیے جو اس کی آخری آرام گاہ ہے، ہم اپنے کندھے فراہم کر دیں لیکن یہ تو ہر گز ہر گز ممکن نہیں کہ اس منحوس تہذیب کو اپنے گھروں میں پناہ  دیں ! اقبال نے  اپنی مؤمنانہ بصیرت سے یہ بات بہت پہلے بھانپ لی تھی۔ جبھی توبرسوں پہلے  یہ  اعلان کر دیا تھا کہ:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائدار ہوگا

لیکن یہ مؤمنانہ بصیرت راہ چلتوں کو نہیں مل جایا کرتی۔ یہ رَبّ ا لعزت کی وہ خاص عطا ہے جو صرف  پاک دل اور نیک نیت لوگوں  ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے علمائے حق، صحیح ا لفکر دانشوروں اور ملت کے بے لوث خادموں  کے کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ وہ ایسے لوگ تیار کریں   جو ظاہری چکا چوند اور قاہرانہ اقتدار کو دیکھ کر اپنی سدھ بدھ نہ کھو بیٹھیں بلکہ وہ چیزوں کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں۔ انہیں یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت کے سبھی فرعون  و قارون اور ان کے تمام مشرقی و مغربی چاکر اِس دیوالیہ نظام و تہذیب کو گلے لگائے ہوئے ہیں جو اخلاقیات، انسان دوستی اور سماجی انصاف کی قدروں سے یکسر عاری ہے ! جس کو اپنانے والے یا تو عقل سے بے بہرہ ہیں یا پھر منافق۔ !موجودہ اسلام دشمنی  اور مسلمان دشمنی  کا واحد سبب یہی ہے کہ وہ جان گئے ہیں کہ مستقبل اب سماجی انصاف اور مستضعفین ہی کا ہے مسرفین و مترفین کا نہیں۔ اسی لیے وہ اپنا ناقص ورلڈ ویو اور ناکام فلسفہ حیات مسلمانوں کے سر منڈھ کر اپنے دلوں کی جلن مٹانا چاہتے ہیں۔ وہ تو اپنی نسلوں کی تباہی اور اخلاقی زوال  سے خود پریشان ہیں لیکن اُن کی ہٹ دھرمی اُنہیں راہِ راست اختیار کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ اُن کی مثال اُن اندھوں کی سی ہے جو اپنی بینائی کا علاج کرنے کے بجائے ساری دنیا کو اپنے ہی جیسا اندھا بنا دینا چاہتے ہیں۔ اُن کے بچے ماں کی نرم گرم آغوش سے محروم ہیں  تو بوڑھے ’اولڈ ہومز ‘ کی دہلیزوں پر دم توڑ رہے ہیں۔ ایڈز اور کینسر کا مرض خدائی قہر بن کر نازل ہو چکا ہے۔ حیوانیت اور سفاکیت اُن کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔ ایسے  میں تعلیم یافتہ  ترقی یافتہ اور مہذب دنیا کے  جو لوگ اپنے اِس نظام سے بیزار ہیں اور سچائی کی تلاش میں ہیں وہ  ’’ اسلامو فو بیا ‘‘  کی اس عالمی  شدت کے باوجود ’’اسلام  ‘‘ہی کے دامن میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں !

اگر ہم نے ہوا کے اِس بدلے ہوئے رُخ کو نہیں  دیکھا اور دہشت گردی، نسل پرستی عدم رواداری، اور سماجی نا انصافی میں  اچانک رونما ہونے والے  موجودہ اِضافے کے اَصل سبب کو نہیں سمجھا اور کرپشن، بد عنوانی، بد اخلاقی اور غریب دشمنی کے قومی اور عالمی دھارے  میں  تنکے کی طرح بہنے کے  بجائے  ’ ’معاشی عدل اور سماجی  انصاف ‘ کے’انسا ن دوست اسلامی دھارے ‘میں ’عقل و  ہوش  اور عزم و ہمت  کے ساتھ تیرنے  کی شعوری کوشش ‘نہ کی اور اپنی نسلوں کو’ اِنصاف و اِنفاق کی اَعلیٰ قدروں ‘ سے روشناس نہیں کرایا جو فی ا لواقع آسمانی اور ربانی اقدار ہیں، تو پھر، اللہ نہ کرے کہ ہمیں بھی ’’زمین کا کوڑا کرکٹ ‘‘ قرار دے کر رَدّ نہ کر دیا جائے !

 آج اگر اگر کہیں پناہ ہے تو صرف اُن کے لیے جو پورے کے پورےدائرہ ِ  اسلام  میں داخل ہیں، باہر رہ جانے والوں  یا ’موقع کے منتظر ‘ افراد  Fence Sittersکے لیے تباہی اور صرف تباہی ہے ! فھل من مدکر ؟ !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. انس بدان کہتے ہیں

    واہ! زبردست۔۔ایک سوچنے، سمجھنے والی تحریر
    جس میں امید کی کرنیں بھی ہیں اور فکر و تشویش کی گہری پرچھائیاں!

    ڪاش کہ ہم سمجھیں۔

تبصرے بند ہیں۔