کشمیر اور میڈیا-دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

سہیل انجم

میں بہت چاہتا ہوں کہ میڈیا کے رویے پر زیادہ نہ لکھوں ورنہ لوگ کہیں مجھے میڈیا دشمن نہ سمجھنے لگیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ حالات قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور بعض مخصوص حالتوں میں میڈیا کے رویے اور رجحان کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ میں میڈیا مخالف نہیں ہوں۔ میں اس کی اچھی کوششوں کی ستائش کرتا ہوں اور اسے خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں۔ لیکن جب وہ ڈنڈی مارنے لگتا ہے یا اس کی رپورٹنگ کا قافلہ کسی خاص ایجنڈے پر سوار ہو کر آگے بڑھتا ہے تو مجبور ہو کر اظہار خیال کرنا پڑتا ہے۔ ملک جب بھی کسی اہم دور سے گزرتا ہے یا کوئی بہت بڑا واقعہ پیش  آتا ہے تو جہاں حکومت و انتظامیہ، دانشور طبقہ اور عوام پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں میڈیا کا بھی امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اگر وہ متزلزل ہو جائے یا اس پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو یہ نہ صرف میڈیا کا بلکہ ملک و قوم کا بھی خسارہ ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے مواقع بار بار آتے رہتے ہیں جب وہ اپنی فرض شناسی کو فراموش کرکے مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونہ اور مخصوص طبقات کی انگلیوں کی کٹھ پتلی بن جاتا ہے۔

اس وقت جموں و کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ آٹھ جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جو تشدد پھوٹا وہ ابھی تک جاری ہے۔ تقریباً ۷۰؍ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور دس ہزار سے زائد لوگ زخمی ہیں۔ زخمیوں میں سویلین بھی ہیں اور کچھ سیکورٹی فورسز کے جوان بھی۔ بچے بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی۔ جبکہ بڑی تعداد میں نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ وقت نہ صرف جموں و کشمیر کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے بڑا نازک ہے۔ یہ حکمرانوں کے امتحان کا وقت تو ہے ہی، میڈیا کے لیے بھی امتحان کا وقت ہے۔ حکمرانوں کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ البتہ میڈیا نے اس معاملے میں اپنا اعتبار بری طرح مجروح کر دیا ہے۔ بالخصوص جموں و کشمیر میں عوام اگر سیکورٹی فورسز کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں تو دشمن نمبر دو میڈیا کو سمجھا جانے لگا ہے۔ اس نے اپنے رویے سے اپنا اعتبار اس قدر پامال کیا ہے کہ آج کسی بھی نیوز چینل کا کوئی بھی نمائندہ سری نگر میں جاکر آزادی کے ساتھ گھومنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ کشمیری عوام کا خیال ہے کہ نیوز چینلوں نے ان کو مجموعی طور پر دہشت گرد بنا کر پیش کیا ہے جس کے زیر اثر آکر ہی حکومت نے یہ بیان دیا تھا کہ کشمیر میں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین ٹکراؤ ہے۔ حالانکہ جو لوگ سڑکوں پر نکل کر آرہے ہیں وہ سب دہشت گرد نہیں ہیں۔ اس بات کا اعتراف بعض اوقات نیوز چینلوں پر بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہی تأثر پیش کیا جا رہا ہے کہ پتھراؤ کرنے والے سب دہشت گرد ہیں۔ حالانکہ محبوبہ مفتی کہہ چکی ہیں کہ صرف پانچ فیصد لوگ ہی امن دشمن ہیں۔ کشمیر میں جاری پُر تشدد تحریک کی رپورٹنگ کے حوالے سے نیوز چینل کس طرح اپنے فرائض کے ساتھ بیوفائی کر رہے ہیں اس کا ہلکا سا اندازہ کشمیر کے ایک سینئر صحافی نصیر احمد کی باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ نصیر احمد گزشتہ دو برسوں سے کشمیر میں آئی بی این سیون میں بیورو چیف رہے ہیں لیکن اب انھوں نے اس چینل سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انھوں نے ایک نیوز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان پر ایڈیٹروں کی جانب سے فرضی خبریں چلانے کا دباؤ تھا لہٰذا انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ جب سے کشمیر میں کشیدگی کا ماحول قائم ہوا ہے ان کی بہت سی رپورٹیں روکی جانے لگی تھیں۔ انھوں نے اپنے استعفیٰ میں یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی کون کون سی رپورٹیں روک لی گئیں۔ نصیر احمد آئی بی این سون میں آنے سے قبل 16 برسوں تک زی نیوز کے بیورو چیف رہے ہیں۔ وہ وادی کے معتبر صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ایک نیوز پورٹل میڈیا ویجل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ ایسی اسٹوری بھیجیں جس میں برہان وانی کی لڑکیوں کے ساتھ تصویریں ہوں۔ تاکہ وانی کو عیاش بتا کر بدنام کیا جا سکے‘۔ جب انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو ان کی جگہ پر جموں کے رپورٹر سے یہ اسٹوری کروائی گئی۔ وہ کہتے ہیں ’میری بیٹ پر جموں کے رپورٹر نے اسٹوری کی۔ نہ کوئی ساونڈ بائٹ، نہ سیکورٹی فورسز سے بات چیت اور نہ ہی اسٹوری میں کسی کا نقطۂ نظر۔ بس اسٹوری چلا دی گئی‘۔ استعفے کے بعد ایک خبر رساں ایجنسی سی این ایس سے بات کرتے ہوئے نصیر احمد نے کہا کہ ’چینل کو کشمیر میں مارے جا رہے سویلین کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایجنڈا ہے اور دنیا میں کشمیر کی امیج کو خراب کرنے کے لیے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے‘۔

یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں الیکٹرانک میڈیا میں خاص طور پر یکطرفہ رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ جب ایک اے ٹی ایم گارڈ اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جا رہا تھا تو اس کو سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے پیلٹ گن سے گولی ماری دی۔ لیکن نیوز چینلوں پر یہ خبر کہیں نظر نہیں آئی یا اگر آئی تو محض چند سیکنڈ کے لیے۔ وہ تو بعض انگریزی اور ہندی کے اخباروں میں تواتر کے ساتھ وہاں کی خبریں آرہی ہیں اور خاص طور پر کشمیری صحایوں کے قلم سے قسطوار رپورٹیں لکھی جا رہی ہیں جن میں عوام کی دشواریوں کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس سمیت کئی اخباروں میں اس قسم کی رپورٹیں مسلسل آرہی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس میں صرف عوام کے مسائل پیش کیے جا رہے ہیں تو بھی غلط ہوگا۔ در اصل اس اخبار نے سیکورٹی فورسز کے جوانوں کے انٹرویو بھی چھاپے ہیں۔ ایک رپورٹ میں ایک ہیڈ کانسٹبل نے پتھراؤ کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ کس طرح وہ لوگ برعکس حالات میں ڈیوٹی انجام دینے پر مجبور ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی تصویریں نظر آجاتی ہیں جن سے عوام کی بیچارگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ ان لوگوں پر کیا گزرتی ہوگی جو پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ دنوں تک مسلسل کرفیو میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ دعا دیجیے سوشل میڈیا کو کہ وہ بھی بہت کچھ بے نقاب کرنے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ ورنہ نیوز چینلوں کا تو یہ حال ہے کہ انھوں نے ایسی بھی خبریں چلائیں کہ سید علی شاہ گیلانی نے پیسے دے کر نوجوانوں کو پتھراؤ پر اکسایا۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں جو ویڈیو دکھایا گیا وہ ۲۰۱۰ کا تھا۔ جب ریاستی حکومت نے اخباروں پر پابندی عاید کر دی تھی تو اس کے خلاف پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران معروف صحافی راج دیپ سردیسائی نے اس کی تصدیق کی تھی کہ یہ ویڈیو پرانا ہے۔ اس کے علاوہ نیوز چینلوں کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ ہر خبر میں کسی نہ کسی طرح سے دہشت گردی کا اینگل شامل کیا جائے۔ بقول نصیر احمد چینلوں کی دلچسپی زخمی سیکورٹی جوانوں کی خبروں سے ہے نہ کہ ہلاک ہونے والے سویلین سے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وادی میں اگر سب سے غیر محفوظ کوئی ہے تو وہ نیوز چینل والے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی لوگوں کا غصہ ابل پڑتا ہے۔ ہاں دہلی سے جانے والے بعض سینئر صحافی اپنی معتبر امیج کی بدولت وادی میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ لیکن مقامی صحافی اس کی جرأت تک نہیں کر سکتے۔ مقامی طور پر لوگوں کے غصے کا اندازہ آئی اے ایس ٹاپر فیصل شاہ کے رد عمل سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک انگریزی اخبار میں اپنے مضمون میں میڈیا کی کوریج کا پوسٹ مارٹم کیا تھا اور چینلوں کے نام لے لے کر بتایا تھا کہ کس طرح غلط رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔ انھوں نے لکھا تھا کہ اس رپورٹنگ کی وجہ سے وہ خود خطرے میں ہیں۔ انھیں بھیس بدل کر گھر سے نکلنا پڑا تاکہ وہ اپنے دفتر جا سکیں۔ فیصل شاہ کا درد صرف ان کا اپنا درد نہیں ہے بلکہ پوری وادی کا درد ہے۔ انھوں نے یہاں تک لکھا تھا کہ میڈیا رپورٹنگ کے بعد بارہا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ ان کے علاوہ بعض دیگر دانشوروں اور صحافیوں نے بھی اس حوالے سے مضامین قلمبند کیے ہیں۔ لیکن میڈیا کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میڈیا کا یہ رویہ یقیناً قابل مذمت ہے۔ اس کا غیر معتبر ہونا صرف اس کا خسارہ نہیں بلکہ پورے ملک کا خسارہ ہے۔ ہاں ! انھی نیوز چینلوں پر ایسے باکردار صحافی بھی موجود ہیں جن سے میڈیا کا بھرم قائم ہے۔ بعض نیوز چینل بھی ایسے ہیں جو اب بھی فرض شناسی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے صحافیوں اور چینلوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی ایماداری کو خراج تحسین پیش کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔