ستم کو ہم کرم سمجھے، جفا کو ہم وفا سمجھے

تعلیمی نظام کے حوالے سے

ندیم احمد انصاری

        کہا جاتا ہے کہ معصوم بچے ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ’سنہرا مستقبل‘ ہوتے ہیں یا نہیں یہ باد دوسری ہے، ہاں اگر ان کی صحیح تعلیم وتربیت کی جائے تو واقعی سنہرا مستقبل بھی ثابت ہوں۔ اب غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہمارا اور ہمارے ملک کا مستقبل روشن وتابناک ہے یا نہیں، نیز اس مسئلے کو لے کر ہم کس حد تک حساس ہیں؟

        ہمارے معاشرے میں جنم لینے والا وہ معصوم، جو کہ اب تک صحیح طور پر بولنا بھی نہیں سیکھ پاتا، اسے ’تعلیم‘ کے نام پر اتنی کم عمر میں نرسریز میں داخل کردیا جاتا ہے کہ دیکھ کر ترس آئے اور پھر یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوتا ہے کہ وہ معصوم اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسی مشغلے میں گزار دیتا ہے، نہ اسے بچپن نصیب ہوتا ہے نہ لڑکپن، یہاں تک کہ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، بلکہ بعض دفعہ تو اس کی جوانی بھی اسی ’نظامِ تعلیم‘ کی نذر ہوجاتی ہے اوربالآخر اس پوری محنت کے بدلے اسے حاصل ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ ’معاش‘۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے Bachelors اور Masters کو نہ اپنے Subjectسے کما حقہ مناسبت پیدا ہوتی ہے نہ مذہب واخلاقیات سے  شغف۔ اس کے ذہن ودماغ میں انسانیت کی فلاح وبہبود کی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ دل میں معاشرے کی اصلاح کی کڑھن۔ یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ معاش حاصل کرنے کے اس سفر میں اسے جو دشوار ترین منازل کو طے کرنے پڑتے ہیں، اس میں اس کی ذہن سازی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ وہ اس مادی دنیا میں اپنے مختصر سے فایدے کے لیے دوسروں کو بڑی سے بڑی مصیبت میں ڈالنا بہ آسانی گوارہ کرلیتا ہے اور اس کے جو ظاہری وباطنی محرکات ہیں، وہ بھی اہل نظر سے ہرگز مخفی نہیں ’جانتے سب ہیں پر بولتا کوئی نہیں ‘۔

        تعلیم کے تعلق سے بات کی جائے تو قلم کو روک کر یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ کیا واقعی ہم اپنی نسلوں کو زیورِ علم سے آراستہ کر بھی رہے ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے محض انھیں وقت گزاری کا سامان مہیا کیا ہو؟ کم از مضمون نگار تو اس اشکال سے اپنے دل ودماغ کو خالی نہیں پاتا۔ مستزاد یہ کہ جس ’تعلیم‘ کے ہم علم بردار ہیں، اس میں اپنی نسلوں کو کچھ اس طرح الجھائے رہتے ہیں کہ وہ دیگر کسی کام کے ہرگز قابل نہیں رہتے۔ صبح بیدار ہوکر ہوم ورک، اس کے بعد اسکول کی تیاری، بعدہٗ اسکول، پھر واپسی پر ٹیوشن وغیرہ، اس کے بعد تھک ہار کر سوجانے کے علاوہ اس کے پاس چارۂ کار نہیں ہوتا۔ اس پورے Schedule میں تعمیری کاموں کے لیے اولاد کی تربیت کرنے کا والدین کو موقع ملتا ہے نہ طلبہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوپاتے ہیں۔ رہے اساتذہ! وہ تو بے چارے خود اپنی اولاد کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال پاتے، چہ جائے کہ طلبہ کی حقیقی تربیت پر متوجہ ہوں، ویسے بھی آج کل انھیں اس قدر پیپر ورک وغیرہ کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے کہ وہ ٹیچر کم کلرک زیادہ نظر آتے ہیں۔ ان حالات سے گزرتے ہوئے طلبہ جب S.S.C. پاس کرکے اگلی جماعتوں میں پہنچتے ہیں تو ان کی حالت افسوس ناک حد تک بدتر ہوتی ہے، وہ کتاب دیکھ کر صحیح تلفظ کے ساتھ چند سطریں پڑھنے کے بھی قابل رہتے ہیں، نہ ان کی تحریر ہی بہتر ہوتی ہے، الا ما شاء اللہ!

        شاید اس میں دخل اس نئے نظام کا بھی ہے جس میں آٹھویں تک کیسا ہی طالبِ علم ہو، اسے فیل نہیں ہونے دیا جاتا، دسویں جماعت میں بھی Best of fiveکا آپشن رکھا جاتا ہے، بارھویں جماعت میں Re-examکی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ڈگری کالج میں فیاضانہ 20% نمبرات طلبہ کو بلا استحقاق دیے جاتے ہیں۔ پہلے ایسے طلبہ کو جنھوں نے ابتدائِ طالبِ علمی میں محنت نہ کی ہو، انھیں Graduation اور Post-Graduation میں آکر خاصی محنت کرنی پڑتی تھی، اب یہ کسر بھی (40-60)Credit based system نے پوری کردی۔ جس کے بہ موجب بہ ظاہر تو طلبہ Active ہوگئے ہیں، جب کہ تجربہ اس کے برخلاف ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمارے پورے تعلیمی نظام میں طلبہ کو تقریباً 3 سال کی عمر سے 20 سال کی عمر تک مصروف رکھنے کے باوجود ان میں علم کی شمع روشن نہیں ہوپاتی اور بقول شاعر     ؎

عمر بھر جنونِ علم رہا

علم کیا ہے؟ ہنوز علم نہیں

        ایسے میں نہایت ضروری ہے کہ اصحابِ اقتدار واصحابِ فکر ونظر آنے والی نسلوں کی فکر کریں اور نظام میں موجود در آئی کوتاہیوں کے تدارک کی حتی الامکان اور فوری کوشش کریں، تاکہ ہمارا اور ہمارے سماج کا مستقبل واقعی روشن اور تابناک ہو۔

تبصرے بند ہیں۔