غزل – مرے چراغ سے اپنا دیا جلاتے ہیں

عتیق انظر

مرے چراغ  سے اپنا دیا جلاتے ہیں
مگر  وہ   نام کسی  اور  کا   بتاتے  ہیں

تعلقات  کو  آب  خلوص   سے سینچو
یہ پیڑ طنز کی بارش میں سوکھ جاتے ہیں

ہمی ہیں بادباں بھی ناخدا بھی طوفاں بھی
جدھر ہو جانا  ادھر کی  ہوا  بناتے  ہیں

انھیں ثمر کی تمنا  نہ  چھاؤں  کی  خواہش
یہ لوگ پیڑ  لگاتے  ہیں بھول جاتے ہیں

میں اپنی آگ سے گردش میں ہوں مگر خوش ہوں
کہ  مجھ  سے  ارض  و سماوات  جگمگاتے   ہیں

تو  آب چھوڑکے  بھاگے سراب کے  پیچھے
ترے  مزاج   پہ   دریا  بھی مسکراتے  ہیں

تبصرے بند ہیں۔