غزل – زخم سہہ لیتا سبھی میں تیر سے تلوار تک

عزیز نبیل

زخم سہہ لیتا سبھی میں تیر سے تلوار تک

بات آپہنچی مگر سر سے مری دستار تک

سوچ کا ہر زاویہ الجھا ہے ریشم کی طرح

فیصلے بکھرے پڑے ہیں ذہن سے اظہار تک

اور جب کوہِ ندا سے بچ کے میں واپس ہوا

ہر بشر پتّھر کا تھا اِس پار سے اُس پار تک

برسبیلِ تذکرہ اس سے بتا دینا کبھی

دل نے کتنے رنگ بدلے درد سے اقرار تک

بے خودی ، درماندگی ، آنکھوں سے لپٹی جستجو

اک تسلسل ہے نواحِ جاں سے کوئے یار تک

منزلیں آوارگی کی زد میں آکر کھوگئیں

فاصلے بڑھتے گئے امکان سے رفتار تک

تبصرے بند ہیں۔