کشمیر چاہئے کشمیری نہیں

حفیظ نعمانی

وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنے خاص تیور کے ساتھ کہا ہے کہ کسی نے ایسی ماں کا دودھ نہیں پیا ہے جو کشمیر کو ہم سے الگ کردے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا کتیا کا دودھ پیا ہے جو کشمیر کے بیٹوں کو دیکھ کر پاگل کتوں کی طرح ان پر دوڑتے ہیں؟ بات صرف ہریانہ چنڈی گڑھ کی نہیں ہے آج سے 25  سال پہلے ہمارے بیٹے کے ایک دوست کشمیر سے کان پور یونیورسٹی میں ایم اے کا پرائیویٹ امتحان دینے آئے تھے اور انہوں نے ہمارے گھر لکھنؤ میں قیام کیا تھا۔ پروگرام کے اعتبار سے تو انہیں ایک ہفتہ میں فارغ ہوجانا تھا لیکن یہ بدانتظامی ہم نے بھی دیکھی کہ انہیں 22  دن رُکنا پڑا اس لئے کہ بار بار وہ کان پور سے روتے ہوئے آئے کہ پرچہ آئوٹ ہوگیا اب ایک ہفتہ کے بعد ہوگا۔

انہیں تین بار کان پور جانا تھا لیکن وہ سات بار گئے اور ہر بار انہوں نے شکایت کی کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے صوبوں کے کالجوں میں آئو اور جب ہم آتے ہیں تو ہر طرف سے ہمارے اوپر جملے بازی ہوتی ہے کوئی پاکستانی کہتا ہے کوئی غدار کہتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ کھاتے ہمارا ہیں اور گاتے پاکستان کا ہیں۔ اور جب وہ جانے لگا تو اس نے کہا کہ ایسی ہی باتوں کی وجہ سے کشمیری ہندوستان سے الگ ہوکر آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے سمجھانے پر اس نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ ہمیں کسی کی ہمدردی نہیں چاہئے ہم بھوکے رہ لیں گے، ایک وقت کھالیں گے لیکن ذلت برداشت نہیں کریں گے۔

بات صرف ایک یا دو چار لڑکوں کی نہیں ہے بلکہ وزیروں کے علاوہ افسروں کا رویہ بھی شرمناک ہے۔ تین سال پہلے جب قیامت کی طرح سیلاب آیا تھا اور آدھا کشمیر پانی میں ڈوب گیا تھا اس وقت جموں میں بھی سیلاب کا اثر تھا لیکن کشمیر کے مقابلہ میں بہت کم۔ حکومت کی طرف سے جتنی امداد ہورہی تھی اس پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے پورے ملک کے مسلمانوں نے امدادی سامان کشمیر کے بھائیوں کے لئے بھیجنا شروع کیا۔

لکھنؤ میں ہمارے بیٹوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک گروپ بنایا اور بہت بڑے پیمانے پر انتہائی منظم طریقہ سے سامان بھیجنے کی تیاری کی اور پہلی قسط کے طور پر ایک ہزار مکانوں کیلئے ایک ہزار پیکٹ روانہ کئے۔ دوسرے دن ہی ایک تنظیم کے ذمہ دار کا فون آیا کہ جموں میں جو ڈی ایم ہیں وہ سارا سامان جموں میں اُتروا لیتے ہیں اور ٹرک واپس کردیتے ہیں کہ جائو سامان سب کو دے دیا جائے گا اور وہ جموں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ وقت پر اطلاع ہوجانے سے فائدہ یہ ہوا کہ فوراً ڈرائیور کو ٹیلیفون کیا کہ ٹرک کے اوپر جو جو لکھ کر لگایا گیا ہے کہ یہ کشمیر کا امدادی سامان ہے وہ سب اتار لو اور جموں میں یہ نہ بتانا کہ یہ سیلاب والوں کے لئے ہے۔ یہ ہدایت کام کرگئی اور ٹرک خیریت سے سری نگر پہونچ گئے۔

ہندوستان کے ہر ہندو شہری اور ہر افسر کے برتائو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کشمیر سے تو محبت کرتے ہیں لیکن کشمیریوں سے نفرت کرتے ہیں اور اس برتائو نے کشمیریوں میں اتنا غصہ بھر دیا ہے کہ وہ بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اسی دوست نے اپنی بیٹی کو میڈیکل کی تعلیم کے لئے ڈھاکہ بنگلہ دیش بھیجا اور وہ آج ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر کشمیر کے ایک بڑے اسپتال میں اپنے کشمیری بھائیوں کی خدمت کررہی ہے۔

ان کے اندر کی تلخی کا یہ حال ہے کہ 2015 ء میں 25  دسمبر کو میری نواسی کی شادی میں شریک ہونے کے لئے وہ بیوی کے ساتھ آئے تھے اور یہیں سے عمرہ کے لئے سعودی عرب جانے کا پروگرام تھا۔ وہ جس پلین سے جدہ کے لئے جارہے تھے اس سے میرا بڑا بیٹا جو مدینہ میں رہتا ہے وہ واپس جارہا تھا۔ جدہ میں عمرہ والوں کے پاسپورٹ نیم سرکاری آدمی لے لیتے ہیں اور مکہ میں عمرہ کے بعد واپس کرتے ہیں۔ دستور کے اعتبار سے ان سے بھی لے لئے۔ اس کی بیوی نے کہا کہ پاسپورٹ واپس کرو۔ انہوں نے کہا کہ عمرہ کے بعد واپس ملیں گے اس لڑکی نے کنڈکٹر کے ہاتھ میں جو دوسروں کے 18  پاسپورٹ تھے وہ چھین لئے اور کہا کہ ہمارے پاسپورٹ واپس کرو نہیں تو میں ان سب کو پھاڑ دوں گی۔ بات اتنی بڑھی کہ بس روکنا پڑی اور اس کی بیوی نے کہہ دیا کہ ہمارے پاسپورٹ ہمیں دو۔ گاڑی کا ڈرائیور تجربہ کار پرانا ڈرائیور تھا اس نے کہا کہ کنڈکٹر صاحب یہ کشمیری ہیں ان کے پاسپورٹ واپس کردو یہ جو کہہ رہے ہیں وہ کردیں گے انہیں ساری زندگی لڑتے ہوئے ہوگئی اور انہوں نے ہار نہیں مانی۔ اور پاسپورٹ ان کو مل گئے۔

ہندوستان کی حکومت کہتی ہے کہ تعلیم کے لئے جس یونیورسٹی میں آنا چاہو آجائو اور جب وہ آتے ہیں تو وہ ہوتا ہے جو چنڈی گڑھ میں ہوا اس کے بعد صرف یہ کہنا کہ دو یا تین گرفتار کرلئے اور چانچ ہورہی  ہے۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ صوبوں کی حکو مت خود سگا اور سوتیلا کررہی ہے ۔ انصاف یہ تھا کہ جنہوں نے مارا ہے ان کو سامنے لاکر ان کے ہاتھ پائوں توڑ دیئے جاتے لیکن ہریانہ کی بھگوا سرکار جو ملک کی بدترین سرکار ہے اور وہ وزیراعلیٰ جس سے زیادہ نااہل دوسرا نہیں ملے گا اس سے توقع کرنا فضول ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ کشمیری لڑکوں نے ہریانہ کا انتخاب کیا جن کا بھگوان بابا رام رحیم بھی رہ چکا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔