خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے مطلوب مثبت رویے

آصف علی

اگرچہ معاشقے کے دور میں رومانوی تعلقات قائم کرنااوران سےلطف اندوز ہونا آسان ہے لیکن یہ ڈر اس دور میں بھی موجود رہتا ہے کہ جب  محبت  کی اولین چنگاری بجھ جائےگی تو باہمی رشتے میں مٹھاس  کو کس طرح  قائم  رکھاجائےگا.

اگر آپ ایک خوش گوار  زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے رشتے میں موجود محبت کے جذبات کو  زندہ رکھنے اور اس کوبڑھانے کےلیے ہاتھ, پاؤں ,مارنےہونگے.یہ کام آپ کو اکیلے ہی نہیں بلکہ آپ کے  شریک حیات کو بھی کرنا ہوگا.اگرچہ یہ آسان نہیں  ہے تاہم اگر آپ اور آپ کاشریک حیات کوشش کریں توآپ اپنی شادی کوخوش گواری کی راہ میں ڈال سکتےہیں۔

اپنےمزاج میں قدردانی پیداکریں
اپنی شریک حیات کی عزت کریں

اگر آپ ایک خوش گوار ازدواجی زندگی چاہتے ہیں تو اپنے شریک حیات کو اپنے مساوی ہونے کا احساس دلانا ہوگا,اس کے لیےآپ کو بوقت فیصلہ سازی اس کےاحساسات کا احترام کرنا ہوگا.اگرآپ کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہوکہ اس کی رائےکی قطعی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر ہےتو آپ کی شادی شدہ زندگی غیر متوازن ہوجائےگی.اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنی شریک حیات کےخیالات کواسی سنجیدگی سےدیکھتےہیں,جس سنجیدگی سے اپنے خیالات پر غور کرتےہیں.اس کویہ احساس دلانے کےلیے اس کی بات کو غور سے سنیں تاکہ اس کومحسوس ہوکہ آپ واقعی اس کی قدرکرتےہیں.اپنی شریک حیات کوسمجھنے,اس کےساتھ مہربانہ رویہ رکھنے اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آنےکی بھرپور کوشش کریں, اگرآپ کادن برا گذرے اورگھر آکر آپ اس پر چیخنا چلانا شروع کردیں ,بعد میں احساس  ہونے پر فوراً معذرت کردیں,اپنی من مانی کے مطابق اس کو چلانےکی بجائےاس کووہ عزت اوراحترام دیں جس کا وہ مستحق ہے.اپنےشریک حیات کی نجی زندگی کابھی لحاظ رکھیں,اگرآپ اس کوعزت کا احساس دلاناچاہتےہیں تو اس کے موبائل اور کمپیوٹرمیں تاک جھانک سے گریز کریں.

اپنے رشتے کوزمانہ حال میں رکھنےکی کوشش کریں

اگر آپ اپنےشریک حیات سےمحبت کرتے ہیں اور ایک صحت مند اور مفید ازدواجی زندگی گذارنےکے متمنی ہیں توآپ کوماضی کی ان کوتاہیوں اوراغلاط میں معلق رہنےسے گریز کرنا چاہیے جوآپ دونوں سےسرزدہوئی ہیں,ایک دوسرےکی ناکامیاں جتلانےکی بجائےمثبت رویوں کی ترویج, اپنےمستقبل کےمقاصدپرنظررکھنےاوراپنےحالیہ وقت کوایک ساتھ پرلطف طریقے سےگذارنے کوترجیح دینی چاہیے.اگرآپ اپنےشریک حیات سےواقعی لگاؤرکھتےہیں توآپ اس کے احساسات کی قدردانی کریں گےاوراس کےماضی میں سےگڑےمردوں کواکھاڑکرواپس لاکراس کی جانب سےکسی سخت ردعمل کےپیداہونےکاباعث نہیں بنیں گے.

اگرچہ ماضی کوفراموش کردیناہمیشہ آسان نہیں ہوتالیکن ازراہ فساداس کوآلہ کارنہیں بناناچاہیے. یاد رکھیں کہ آپ کا شریک حیات بھی انسان ہے,وہ سانس بھی لیتاہے,محسوس بھی کرتاہے,سوچتا بھی ہے, ڈرتا ہے, خوش ہوتاہے,خواہشات رکھتاہے,اس لیےاس کےماضی کےحصوں کوکریدکراسے رنجیدہ مت کریں.

شریک حیات کوسنیں

اپنےشریک حیات کی قدردانی کابہترین طریقہ یہ ہےکہ اس کی بات کوغورسےسناجائے,جب آپ کاشوہریاآپ کی زوجہ اپنےدن کےکاموں کےبارےمیں آپ کےساتھ گفتگوکرےتواس کی باتوں کوایک کان سےسن کردوسرےکان سےمت نکالیں,اس انتظارمیں بھی نہ رہیں کہ وہ اپنی بات ختم کرےاور آپ اپنی شروع کریں.پہلےاس کی بات کوغورسےسننےکی کوشش کریں اوران باتوں پرتوجہ دیں جوآپ کوبتاتاہے.جب آپ سنجیدہ گفتگوکررہےہوں تواپناموبائل فون ایک طرف رکھ دیں,بات کرنےوالےکی آنکھوں میں دیکھیں اوراس کی باتوں کواہمیت دیتےہوئےسنیں خواہ وہ آپ کےاپنےروزمرہ معمولات کےلیےاہم نہ ہوں.

بلاشبہ ہم سب بعض اوقات ایک دوسرےکی باتیں زیادہ توجہ سےنہیں سنتےاگرگفتگوکےدوران ایساہوتویہ دکھلاوہ مت کریں کہ اس کی پوری توجہ سننےپرہےبلکہ معذرت کریں اورمعلوم کرنے کی کوشش کریں کہ بولنےوالا کیاکہہ رہا ہے.

گفتگو کےدوران شریک حیات سےسوالات بھی کریں تاکہ اس کو بھی یہ پیغام ملے کہ آپ اس کی باتوں کو واقعی اہمیت دے رہے ہیں.اس کو یہ احساس نہ ہونےدیں کہ وہ آپ کےلیے اکتاہٹ کاباعث بن رہاہے.

بسااوقات دن بھر کی تھکن اور مشقت کےبعد گھرآنے پر آپ کےشریک حیات کومحض کسی ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جواس کی باتوں اور بھڑاس کو سنے اس وقت اس کو آپ کی تقریروں اور پند و نصائح کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے بعض اوقات آپ کومحض سننے کا فریضہ سر انجام دیناہے.

اپنےشریک حیات کو ترجیح دیں

اگرچہ آپ کو ہروقت اپنےشریک حیات کوہی اپنی گردش کامحور بنانےکی ضرورت نہیں ہے تاہم آپ کویاد رکھناہوگا کہ جب آپ اور آپ کےشریک حیات نےشادی کا فیصلہ کیا اس وقت آپ نے ایک دوسرے کودیگر چیزوں پرترجیح دینےکےفیصلے اور ایک دوسرے کی نظروں میں اپنےآپ کوقابل ترجیح  بنانےکی خواہش کابھی اظہار کردیاتھا آپ کواس فیصلے اورخواہش کااحترام کرناہوگا اوراپنے ہرفیصلے کےوقت یہ خیال رکھنا ہوگا کہ اس میں اس کا اورآپ کے شریک حیات کا مساوی فائدہ ہوناچاہیے,اگر آپ کے کسی فائدےکے بدلےمیں آپ کے شریک حیات کانقصان ہوتو اس فیصلے کوفوری طور پرمسترد کردیں.

اگر آپ کے خاندان یادوستوں کےساتھ آپ کےشریک حیات کی نہیں بن رہی ہے تو اس وقت آپ اس کےخلاف صف آرائی کی  مت کریں خواہ اس کومحسوس ہو کہ آپ کا رفیق حیات ناروا بن رہاہے,اس وقت بھی اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ اس کو وہ عزت اورمحبت دے رہے ہیں جو اس کاحق ہے.

مضبوط گفت وشنید کو قائم رکھیں

اگر آپ چاہتےہیں کہ آپ کی شادی خوش حالی میں رہے تو اس کی چابی گفت وشنید میں میں ہے.آپ اور آپ کے رفیق حیات کو ایک دوسرے کےساتھ اپنے خیالات اور ان معاملات سےمتعلق جن پر آپ دونوں کا متفق ہوناضروری ہے,ہمدردانہ اور شفقت آمیز گفتگو کرنےکےقابل ہونا چاہیے اگر روزانہ کی بنیادوں پر یہ کام کیاجائے توآپ کےمابین گفتگو کی مدد سے شادی شدہ زندگی کو مضبوط اور صحت مند بنانےکے لیے باہمی اعتماد اور محبت کا رشتہ مضبوط ہوگا.

کبھی بھی غصے میں عمداً و قصداً ایسی کوئی بات نہ کریں جس سےآپ کے شریک حیات کو گہراصدمہ پہنچے وہ سخت الفاظ جو آپ بول دیتے ہیں لیکن بولتے وقت ذہن میں ان سےمتعلق کوئی ارادہ نہیں ہوتا بلکہ محض اپنےغصے کےاظہار کےلیے بلاسوچے سمجھے بول دیتے ہیں,ان کو بھلا دینا آپ کے شریک حیات کےلیے بہت مشکل ہوتاہے,یہ الفاظ آپ کے رشتے کوختم کرنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں.اگر آپ کچھ ایسا بول دیں جن کو بولنے کا کوئی ارادہ نہ ہو اور نہ ہی آپ کےذہن میں یا دل میں ان سےمتعلق کوئی عکس ہو تو مزاج ٹھنڈا ہونے پر فوراً معافی مانگیں.

بحث و تمحیص کے دوران محض  اس موضوع پر بات کریں جس سے متعلق اختلاف ہو,اپنے رفیق حیات کی ذاتیات کو اس میں گھسیٹ کر بات کابتنگڑ نہ بنائیں.

بہترین گفت وشنید کے لیے ضروری ہے کہ آپ گفتگو سےقبل اپنے شریک حیات کےخیالات اور اس کے مزاج سے باخبر ہوں,اس کو اس کی کسی غلطی کا احساس دلانے کےلیے آپ کو اس کی جسمانی حرکات وسکنات اور بات کرنے کے ڈھنگ کی پہچان بھی ہونی چاہیے..

شادی کی اعتماد شکنی نہ کریں

اگر آپ کا رفیق کسی نجی یااہم راز کےمعاملے میں آپ پر اعتماد کرچکاہے تو اس راز کی حفاظت کریں,اور اس کاراز دوسروں کوبتا کر آپ کو اس کی اعتماد شکنی نہیں کرنی چاہیے.یہ محض اعتماد شکنی ہی نہیں بلکہ بے وفائی اور دھوکہ دہی کے مترادف بھی ہے.اگر یہ راز اس کی  کسی کمزوری یا المیے سے متعلق ہو تو بحث وتکرار کے دوران اس کو بارود کے طور پر استعمال نہ کریں, اس حقیقت پر توجہ رکھیں کہ آپ کے رفیق نے کسی اہم معاملے سے متعلق صرف آپ پر اعتماد کیاہے,اورآپ کے لیے ضروری ہے کہ اس اعتماد کااحترام کریں.آپ کو ایک ایسا انسان بنناچاہیے جس پرآپ کارفیق حیات دنیا میں سب سے زیادہ اعتماد کرسکے,اس اعتماد کو جوکھم میں ڈالنے کی کوشش مت کریں,اگر آپ ایسی غلطی کرتے ہیں تو فوراً اس کے لیے,,معافی,,مانگیں.

اپنےشریک حیات کےمزاج سےہم آہنگ رہیں

اگر آپ کو محسوس ہو کہ اس کے رفیق حیات کے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہے تو اسےقبول کرنےکی کوشش کریں اور اس سےپوچھیں کہ اس کے ساتھ کیامسئلہ ہے.

شائد اس وقت اس کو آپ کی توجہ کی سب سےزیادہ ضرورت ہو اس,,موقع,, کونظرانداز نہ کریں,اگر وہ بات کرنےکےلیے تیار نہ ہوتو اس کو مجبور کرکے صورت حال کو بدتر نہ کریں کہ جب وہ بات کرنےکے لیے تیار ہوآپ اس کی بات ضرور سنیں گے.

اگرآپ دونوں کسی سماجی اجتماع میں ہوں اور آپ کوکچھ گڑ بڑ محسوس ہوتو سب کے سامنے اس کےبارےمیں مت پوچھیں,اپنے رفیق حیات کوایک جانب لے جائیں اور گفتگو کریں تاکہ اس کو احساس ہو کہ آپ واقعی اس کی عزت اور احترام کرتےہیں.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    میرے خیال میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو شادی شدہ زندگی میں ضرور ہونی چاہیں.
    محبت عنصر نہیں عناصر کا مرکب ہے، سب سے پہلے اعتبار
    دوسرے نمبر پہ عزت
    اور تیسرے نمبر پہ پیار
    یہ محبت کے عناصر ہیں اگر ان تینوں میں سے کسی ایک چیز کی کمی ہو تو محبت نامکمل ہوتی یا پھر شائد محبت ہوتی ہی نہیں ہے.
    اگر لوگ کہتےہیں کہ محبت کوئی دو طرفہ تجارت نہیں ہوتی لیکن میرا خیال ہے محبت دو طرفہ ہی ہوتی ہے،یک طرفہ شائد عشق ہو یا کچھ اور لیکن محبت دو طرفہ ہوتی ہے.
    اگر آپ کسی پر اعتبار کرو گے تو وہ بھی آپ پر اعتبار کرے گا جسے آپ اپنا راز بتاتے ہیں وہ ضرور آپ کو اپنا راز بتاتا ہے میاں بیوی میں (دو محبت کرنیوالے) میں اعتبار سب سے زیادہ بنیادی چیز ہے ایک دوسرے پر ایسے اعتبار ہونا چاہیے کہ یوں محسوس ہو جیسے میں اپنا راز کسی دوسرے کو نہیں خود کے سامنے دہرا رہاہوں.
    دوسرے نمبر پہ آتی ہے عزت،ابو جی اکثر ایک بات سُناتے کے وہ لوگ چھوٹے تھے تو گاؤں کے کوئی بزرگ یوں مخاطب کرتے انہیں "اسحاق صاحب کیا حال ہیں؟” ابو جی کہتے میں نے پوچھا ایک دن اُن سے کہ چچا جی ہم لوگ آپ سے چھوٹے ہیں پھر آپ یوں اتنی عزت سے کیوں بلاتے اُن نے جواب دیا بیٹا اگر میں آپ کو عزت سے نہ بلاتا تو آج آپ مجھے چچا جی کہنے کی بجائے کسی اور الٹے نام سے پکار رہے ہوتے.
    اپنی لڑائی جھگڑوں کو ہمیشہ اپنے بیڈ روم تک رکھیں خاص کر کبھی بچوں کے سامنے ایک دوسرے پر چلائیں مت (شائد میں یہ باتیں اس لیئے کہ رہا کے میں نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے ماں باپ کو ایک دوسرے سے بلند آواز اور تلخ لہجے میں بات کرتے نہیں سُنا) ذرا سا الفاظ کا ہیر پھیر انسان کی زندگی میں بہت سے مثبت تبدیلیاں لا سکتا "تو اور تم” کی جگہ اپنے بیوی کو آپ کہ کر بلائیں مجھے امید ہے صرف ایک لفظ بدلنے سے آپ کی ازدواجی زندگی کے آدھے مسلے ختم ہو جائیں گے .
    تیسرے بات ہے پیار کہتے ہیں جو قلعہ تلوار سے فتح نا کیا جا سکے اُس کے لیئے پیار استعمال کرنا چاہیے .
    ایک دوسرے سے نرم لہجے میں بات کریں ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اوپری دونوں معاملے خالص دو طرفہ ہیں معاملہ یہ بھی دو طرفہ ہے لیکن یہاں خاتون اپنی فطری شرم و حیاء کے سبب ویسے اظہار نہیں کر سکتی جیسے مرد کر سکتا۔ شائد آپ لوگوں کو عجیب لگے لیکن میرا خیال ہے کہ صبح کام کاج پہ جاتے وقت گڈ بائے کس ضروری ہے یا کم سے کم پیار سے گال تو تھپتھپائے جا سکتےہیں، اس چیز کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کے آپ کی بیوی سارا دن ایک انرجی کے ساتھ گھر کا کام کاج کر سکے گی اُسے اس بات کا احساس ہو گا اُس کا شوہر اُس کی خاطر اپنی جان ہلکان کر رہاہے، محنت کر رہاہے، افسروں کی باتیں سُن رہا، دوسرے گھر سے نکلتے وقت جو چیزیں زبانی سُنائی جاتیں منگوانے کے لیئے وہ سننے سے بچ جائیں گے بعد میں میسج آ جائے گا لکھی ہو چیز بھولے گی نہیں
    دوپہر میں کھانے کا بریک کریں یا نماز کی دس سیکنڈ میں ایک "مسنگ یو” کا میسج کر دیں اُس کے بعد فون سائلنٹ کر دیں بیوی کو بتا سکیں گے کہ نماز کے لیئے سائلنٹ کیا تھا اُس مسنگ یو کے میسج کا یہ فائدہ ہو گا کے گھر جانے پر آپ کو سڑیلی سی کوئی کام والی ماسی نہیں اپنی تروتازہ بیوی ہی ملے گی اگر کوئی چیز بھول گئے تو سارے دن کی تھکن اور اور سخت محنت کا رونا رونا لازم نہیں بیوی کو بولیں اگر ضروری ہے تو اب لا دیتاہوں، میرا خیال ہےکہ کوئی عقل مند بیوی آپ کو دوبارہ جانے کا کہے گی
    عورت جو کچھ پکائے اُس میں خواہ مخواہ نقص مت نکالیں عورت کو یہ جملہ اذیت دیتا "اصل ذائقہ تو ماں کے ہاتھ میں ہے” اُسے اپنی تضحیک محسوس ہوتی ہے.
    اگر کبھی فارغ ہیں یا چھٹی کا دن ہے تو اپنی بیوی کے ساتھ کچن میں جائیں وہاں جا کر کام کاج نا بھی کروائیں صرف باتیں کرتے رہیں تو بھی کافی ہے (اگر عورت کو آپ کے کچن میں رہنے سے الجھن ہوتی تو اس مشورے پر عمل نا کریں) کبھی اگر بیگم زیادہ تھکی ہوئیں تو انہیں چائے بنا دیں وہ ایک چائے آپ کو اگلا پورا ہفتہ مزے مزے کے کھانے کھلا سکتی ہے
    باتیں اور بھی بہت ہیں لیکن آج اتنا کافی ہے
    ویسے یہ سب باتیں اُس شخص کی ہیں جس کی ابھی ڈگری نہیں مکمل ہوئی اور ڈگری کے بغیرنوکری نہیں لگتی اور نوکری سے پہلے شادی نہیں ہوتی لہذا کسی قسم کے سائیڈ ایفکٹ پر کمپنی ذمہ دار نا ہو گی
    ایک اور بات ہے ہمارے معاشرے میں اکثر پسند کی شادیاں نہیں ہوتیں اوپر لکھا سارا فلسفہ میں نے اُس کو ذہین میں رکھ کر لکھا جسے میں پسند کرتا اگر مجھے وہ نا مل سکے تو شائد میرے سارے فلسفے دھندلا جائیں .
    اللہ پاک سب کو خوش رکھے

تبصرے بند ہیں۔