شریعت پر عمل: مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل

منورسلطان ندوی

(ایڈیٹرماہنامہ صدائے مروہ، لکھنؤ)

اس وقت ننانوے فیصدمسلمان(خواہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق کوتین مانتے ہوں یاایک مانتے ہوں)تین طلاق کے تئیں حکومت کے رویے سے بے حد فکرمندہیں، اورتین طلاق سے متعلق بل کوشریعت میں مداخلت سمجھتے ہیں، طلاق بل کی دفعات سے صاف ظاہرہے کہ تین طلاق صرف عنوان ہے، ورنہ اصل مقصدطلاق کوختم کرناہے، اس بارے میںحکومت کی نیت پوری طرح آشکارہ ہوچکی ہے، اس تناظرمیںمسلمانوں کی فکرمندی دین سے تعلق کی غماز اور ایمان کی علامت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس قانون میں ترمیم کرانے کی ہرممکن کوشش کرناہرباشعورمسلمان پرفرض ہے، اوراس وقت ملت اسلامیہ ہندیہ کاسب سے معتبراورباوقارادارہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈاس فرض کی ادائیگی کے لئے پوری طرح کوشاں ہے، اورہرممکن جدوجہدجاری ہے، ملک کے تمام باشعور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈکی ہرآوازپرلبیک کہیں، ان کی ہدایات پرعمل کویقینی بنائیں، اوراخلاقی ومادی ہرطرح سے بورڈکاتعاون کریں، بورڈکاایک تعاون یہ بھی ہے کہ ہم بورڈپراعتبارکریں، اوراپنے بزرگوں کی ملی بصیرت اوران کی دوراندیشی کوقدرکی نگاہ سے دیکھیں، اورغیروں کی جانب سے پھیلائی جانے والی چھوٹی چھوٹی باتوں سے دلوں میں بدگمانی کوجگہ نہ دیں۔

ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ شریعت میںمداخلت کی کوشش کایہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی اس طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، ذراغورکریں کہ شریعت میں مداخلت کاموقع کون دیتاہے، اگرمسلمان شریعت پرپوری طرح عمل کریں، اوراپنی زندگی شریعت کے مطابق گزاریں توکسی کوشریعت پرانگلی اٹھانے کاموقع تک نہیں ملے گا، لیکن مسلمانوں کی عملی کوتاہی جہاں حکومت کومداخلت کاموقع دیتی ہے وہیں شریعت کی بدنامی کاذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؒ کامقولہ ہے کہ جب بھی مسلمان کسی بدعت کواپناتے ہیں توان سے کوئی نہ کوئی سنت چھوٹ جاتی ہے۔

اس لئے مداخلت کوروکنے کی قانونی اوردیگرکوششوں کے ساتھ یہ سمجھنابھی ضروری ہے کہ ان مسائل کی جڑکیاہے، بنیادکیاہے، اورجب تک جڑاوربنیادپرتوجہ نہیں دیجائے گی، توشاخوں پرپانی ڈالنابے سودہوگا، مسلم معاشرہ میں طلاق کی کثرت اورطلاق دینے کے سلسلہ میںواضح قرآنی ہدایات کی مسلسل نافرمانی نے یہ دن دکھائے ہیں، اس لئے باشعورطبقہ کی ذمہ داری ہے کہ ایسی تدبیریں اختیارکریں کہ معاشرہ میں طلاق کی نوبت نہ آئے  یاکم سے کم آئے، اورجب کہیںطلاق کی ضرورت ہے توشرعی ہدایات کے مطابق طلاق کااستعمال کیاجائے، اس سلسلہ میں مسلم معاشرہ میں بڑی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

اگرشرعی طریقہ پرشوہربیوی کے درمیان علاحدگی ہواکرے توطلاق کے بعدعورت بے یارومددگار نہیں ہوگی، شریعت نے نکاح کے وقت مہرکولازم قراردیاہے، جوعورت کاذاتی ملکیت ہوتی ہے، اورمہرباقی رہنے کی صورت میں طلاق کے بعداس کی ادائیگی لازم ہے، مزیدبرآں علاحدگی کی صورت میںمتعہ کابھی حکم ہے، مہرکی مقدارتومتعین ہوتی ہے، مگرمتعہ کی مقدارحسب حیثیت ہوسکتی ہے۔

اگرخدانخواستہ کسی عورت کوطلاق ہوتی ہے، توطلاق کے بعدخاندان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، حالانکہ اب بھی وہ کسی کی لڑکی ہوگی، کسی کی بہن ہوگی، اوربحیثیت لڑکی یابحیثیت بہن اس کے شرعی حقوق ہیں، اس تناظرمیں اگر طلاق کے بعدخاندان میں بیٹی کووہی حیثیت دی جائے تونکاح سے پہلے تھی، اوروالدین اوران کی عدم موجودگی میں بھائی اورچچاوغیرہ اس لڑکی کی کفالت کویقینی بنائیں تومعاشرہ کی صورت بہت کچھ بہترہو سکتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ کواندرونی طورپرمضبوط کیاجائے، جب معاشرہ اسلامی بنیادوں پرقائم ہوگاتوبیرونی حملے اس پراثراندازنہیں ہوں گے، لیکن اگرمعاشرہ اندرسے ہی کمزورہوتوبیرونی کیا، خودداخلی مسائل کوبھی سنبھالنامشکل ہوجائے گا۔

مسلم معاشرہ کاایک بہت مختصرطبقہ روشن خیال اورآزادخیال افرادکاہے، یہ افرادگرچہ گنتی کے چندہیں، مگران کے ہاتھوں میں قلم کی طاقت اورزبان واسلوب کی سحرآفرینی ہے، اس لئے معاشرہ کے دیگر مسائل پرتوجہ کے ساتھ ایسے نام نہادروشن خیال دانشوروں کوعلمی طورپرمطمئن کرنابھی ضروری ہے، اس سمت میں بھی سنجیدہ علمی اورفکری کوشش ہونی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔