کون کرے مٹی کی حفاظت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

شازیب شہاب

کون کرے مٹی کی حفاظت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کیسے بڑھائیں دیش کی زینت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کون سبب ہے اس نفرت کا وش کس نے پھیلایا ہے
ہر سو کیوں ہے گردِ کدورت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

رسم کا استحصال کیا ہے کس نے جدت کی زد میں
کس نے ہے کی تخریبِ روایت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ناچ رہی ہے مثلِ طوائف جا کر اونچے محلوں میں
کیا ہے یہی اب حسنِ سیاست میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اہل ہوس سے توڑ کے ر شتہ کس کے پیچھے بھاگے ہم
سونپیں اب ہم کس کو امامتمیں بھی سوچوں تو بھی سوچ

حسن وفائیں بیچ رہا ہے بازاروں میں جا جا کر
عشق ہوا کیوں آج تجار ت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

روح فسردہ قلب کبیدہ سانسیں بوجھل آنکھیں نم
پوری ہوگی کیسے حسرت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اہل جنوں سے اہل خرد ہر بات میں آگے ہیں تو پھر
ہوش ہے گم کیوں چپ ہے ذہانت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

پھیل رہی ہے دہر میں ہر سو اتنی رذالت کیوں آخر
کس میں شہابؔ ہے کتنی شرافت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

تبصرے بند ہیں۔