قرآن انسان کو تدبر اور تفکر کی دعوت دیتا ہے(آخری قسط)

عبدالعزیز

 نظام ربوبیت سے وجودِ معاد پر استدلال: اسی طرح وہ اعمالِ ربوبیت سے معاد اور آخرت پر بھی استدلال کرتا ہے جو چیز جتنی زیادہ نگرانی اور اہتمام سے بنائی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ قیمتی استعمال اور اور اہم مقصد بھی رکھتی ہے اور بہتر صناع وہی ہے جو اپنی صنعت گری کا بہتر استعمال اور مقصد رکھتا ہو۔ پس انسان جو کرۂ ارضی کی بہترین مخلوق اور اس کے تمام سلسلۂ خلقت کا خلاصہ ہے اور جس کی جسمانی و معنوی نشو و نما کیلئے فطرتِ کائنات نے اس قدر اہتمام کیا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کیلئے ہی بنایا گیا ہو اور کوئی بہتر استعمال اور بلند تر مقصد نہ رکھتا ہو؟ اور پھر اگر خالق کائنات رب ہے اور کامل درجے کی ربوبیت رکھتا ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بہترین مربوب یعنی پروردہ ہستی کو محض اس لئے بنایا ہو کہ مہمل اور بے نتیجہ چھوڑ دے؟

 ’’کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد و نتیجہ کے پیدا کیا ہے اور تم ہماری ہی طرف لوٹنے والے نہیں؟ اللہ جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے، اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بیکار وعبث فعل کرے، کوئی معبود نہیں ہے مگر وہ جو (جہانداری کے) عرشِ بزرگ کا پروردگار ہے!‘‘ (115-116:23) ۔

 ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کر دیا جو قرآن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے لیکن یہی مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرایہ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وجود انسانی کرۂ ارضی کے سلسلۂ طلقت کی آخری اور اعلیٰ ترین کڑی ہے اور اگر پیدائش حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک ناقابل شمار مدت کے مسلسل نشو و ارتقاء کی تاریخ ہوگی؛ گویا فطرت نے لاکھوں کروڑوں برس کی کارفرمائی و صناعی سے کرۂ ارضی پر جو اعلیٰ ترین وجود تیار کیا ہے، وہ انسان ہے!

 ماضی کے ایک نقطۂ بعید کا تصور کرو، جب ہمارا یہ کرۂ سورج کے ملتہب کرنے سے الگ ہوا تھا۔ نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشو و نما پاسکیں، اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشو و نما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی اور پھر نہیں معلوم کتنی مدت کے بعد زندگی کا وہ اولین بیج وجود میں آسکا جسے پروٹو پلازم (Protoplasm) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر حیاتِ عضوی کے نشو و نما کا دور شروع ہوا اور نہیں معلوم کتنی مدت اس پر گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں۔ یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں اور پھر لاکھوں برس اس میں نکل گئے کہ یہ سلسلۂ ارتقا وجود انسانی تک مرفع ہو، پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کے ذہنی ارتقا کے بعد وہ انسان ظہور پزیر ہوسکا جو کرۂ ارض کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے!

 گویا زمین کی پیدائش سے لے کر ترقی یافتہ انسان کی تکمیل تک جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے، وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سرگزشت ہے!

 سوال یہ ہے کہ جس وجود کی پیدائش کیلئے فطرت نے اس درجہ اہتمام کیا ہے، کیا یہ سب کچھ صرف اس لئے تھا کہ وہ پیدا ہو، کھائے پئے اور مرکر فنا ہوجائے۔ فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ط لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمْ ِط

 قدرتی طور پر یہاں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگر وجودِ حیوانی اپنے ماضی میں ہمیشہ یکے بعد دیگرے متغیر ہوتا اور ترقی کرتا رہا ہے تو مستقبل میں بھی یہ تغیر و ارتقا کیوں جاری نہ رہے؟ اگر اس بات پر ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا کہ ماضی میں بے شمار صورتیں مٹیں اور نئی زندگیاں ظہور میں آئیں تو اس بات پر کیوں تعجب ہو کہ موجودہ زندگی کا مٹنا بھی بالکل مٹ جانا نہیں ہے، اس کے بعد بھی ایک اعلیٰ تر صورت اور زندگی ہے؟

  ’’کیا انسان خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا (اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہوگی) کیا اس پر یہ حالت نہیں گزر چکی ہے کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا، پھر نطفہ سے علقہ ہوا (یعنی جونک کی سی شکل ہوگئی) پھر علقہ سے (اس کا ڈیل ڈول) پیدا کیا گیا، پھر (اس ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا!‘‘ (36:75)

  سورہ ذاریات میں تمام تر دین یعنی جزا کا بیان ہے: اِنَّمَا تُوْعَدُ وْنَ لَصَادِقٌ وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌo اور پھر اس پر اعمال ربوبیت سے یعنی ہواؤں کے چلنے اور پانی برسنے کے موثرات سے استشہاد کیا گیا ہے: وَالذّٰرِیٰتِ ذَ رْواً o فِی الْحٰمِلٰتِ وِقْرًا o فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًاo فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًاoپھر آسمان اور زمین کی بخشائشوں پر اور خود وجودِ اناسانی کی اندرونی شہادتوں پر توجہ دلائی ہے۔ وَفِی الْاَرْضِ اٰیتِ لِّلْمُؤْقِنْیْنَ o وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo وَفِیْ السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُ وْنَo اس کے بعد فرمایا:

 ’’آسمان اور زمین کے رب کی قسم (یعنی آسمان و زمین کے پروردگار کی پروردگاری شہادت دے رہی ہے) کہ بلا شبہ وہ معاملہ (یعنی جزا و سزا کا معاملہ) حق ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو‘‘ (23:51)۔

 اس آیت میں اثبات جزا کیلئے خدا نے خود اپنے وجود کی قسم کھائی ہے لیکن رب کے لفظ سے اپنے آپ کو تعبیر کیا ہے۔ عربی میں قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر کسی بات سے شہادت لائی جائے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ پروردگار عالم کی پروردگاری شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حق ہے۔ یہ شہادت کیا ہے؟ وہی ربوبیت کی شہادت ہے۔ اگر دنیا میں پرورش موجود ہے، پروردہ موجود ہے اور اس لئے پروردگار بھی موجود ہے، تو ممکن نہیں کہ جزا کا معاملہ بھی موجود نہ ہو اور وہ بغیر کسی نتیجہ کے انسان کو چھوڑ دے، چونکہ لوگوں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی، اس لئے اس آیت میں قسم اور مقسم بہ کا ربط صحیح طور پر متعین نہ کرسکے۔

قرآن حکیم کے دلائل و براہین پر غور کرتے ہوئے یہ اصل ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس کے استدلال کا طریقہ منطقی بحث و تقریر کا طریقہ نہیں ہے، جس کیلئے چند در چند مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اثباتِ مدعا کی شکلیں ترتیب دینی پڑتی ہیں بلکہ وہ ہمیشہ براہ راست تلقین کا قدرتی اور سیدھا سادا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ عموماً اس کے دلائل اس کے اسلوبِ بیان و خطاب میں مضمر ہے، وہ یا تو کسی مطلب کیلئے اسلوبِ خطاب ایسا بول جاتا ہے کہ اس کی تعبیر ہی میں اس کی دلیل بھی موجود ہوتی ہے اور خود بخود مخاطب کا ذہن دلیل کی طرف پھر جاتا ہے؛ چنانچہ اس کی ایک واضح مثال یہی صفت ربوبیت کا جابجا استعمال ہے، جب وہ خدا کی ہستی کا ذکر کرتا ہوا اسے رب کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے تو یہ بات کہ وہ رب ہے جس طرح اس کی ایک صفت ظاہر کرتی ہے، اسی طرح اس کی دلیل بھی واضح کر دیتی ہے۔ وہ رب ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی ربوبیت تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور خود تمہارے دل کے اندر گھر بنائے ہوئے ہے۔ پھر کیونکر تم جرأت کرسکتے ہو کہ اس کی ہستی سے انکار کرو، وہ رب ہے اور رب کے سوا کون ہوسکتا ہے جو تمہاری بندگی و نیاز کا مستحق ہو؟

چنانچہ قرآن کے تمام مقامات جہاں اس طرح کے مخاطبات ہیں کہ:یَا اَیُّہَاالنَّاسُ اعْبُدُ وْا رَبَّکُمْ، اَعْبُدُ وْا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّ اللّٰہ رَبِیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُ وْہٗ۔ ذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُ وْہُ اِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اََنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُ وْنِ، قُلْ اَتُحَاجُّوْنَنَا فِیْ اللّٰہِ وَہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمْ ، وغیرہا؛ تو انھیں مجرد امر و خطاب ہی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ خطاب و دلیل دونوں ہیں، کیونکہ رب کے لفظ نے برہان ربوبیت کی طرف خود بخود رہنمائی کر دی ہے۔ افسوس ہے ہمارے مفسروں کی نظر اس حقیقت پر نہ گئی کیونکہ منطقی استدلال کے استغراق نے انھیں قرآن کے طریق استدلال سے بے پروا کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات کے ترجمہ و تفسیر میں قرآن کے اسلوبِ بیان کی حقیقی روح واضح نہ ہوسکی اور استدلال کا پہلو طرح طرح کی توجیہات میں گم ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔