کشمیر کا المیہ: تیری رہبری کا سوال ہے

عبید الکبیر

14 فروری کو کشمیر میں جو المناک حادثہ پیش آیا اس نے ملک کے طول وعرض کو ہلا کر رکھدیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنت نشاں کشمیر جو اپنی  جغرافیائی خصوصیات کی بنا پر بھارت کا حساس ترین خطہ ہے اس کے حالات ایک طویل عرصے سے تخریب کاروں کے نشانے پر ہیں۔ کشمیر کا المیہ تقسیم وطن سے لے کر اب تک ہماری سیاست کا غالباً سب سے نازک اور پے چیدہ باب رہا ہے۔ آزادی  سے لے کر اب تک جن لوگوں نے بھارت میں اقتدار عظمی کی زمام سنبھالی ہے وہ ہمیشہ سے اس مسئلے کی حساسیت کا لحاظ کرتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی ہو یا کانگریس یا کوئی  اور مشترکہ محاذ سبھی نے کشمیر پر کچھ نیا کرنے کی بہر حال کوششیں کی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے جتنے بھی جتن اس معمے کو حل کرنے کے لیے کیے یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ پنڈت نہرو –شیخ عبد اللہ سے لے کر مودی اور محبوبہ مفتی کی مشترکہ جد جہد کے سامنے کشمیر کا چیلنج جوں کا توں برقرار ہے۔

ستر سال کے عرصے میں برف کی سفید چادر سے ڈھکی وادیوں میں نہ جانے کتنی بار سرخ خون سے ہولی کھیلی جا چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس المیہ میں جو جانیں تلف ہوئیں وہ صرف  علیحدگی پسند یا باغیوں کی تھی۔ اس خونیں معرکے میں ملک کے بے شمار فوجی جوان بھی اپنی جانیں کھو چکے ہیں، بھارت پاکستان کے بیچ تین جنگیں اس قضیے کو لے کر برپا ہو چکی ہیں جن میں وسائل کے ساتھ ساتھ معصوم لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی۔ موجودہ مرکزی حکومت جو اپنے فکری ڈھانچے کی بنا پر کشمیر کے مسئلے کو ایک خاص نظر سے دیکھتی رہی ہے اس کا اعمال نامہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں یاد آتا ہے کہ 2014 کے انتخابات سے قبل ہمارے وزیر اعظم جس فاتحانہ تیور کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر اپنے مزعومہ رد عمل کا عندیہ ظا ہر کرتے تھےانتخابات کے بعد اس کا دس فیصد مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا۔ لوک سبھا میں زبردست اکثریت حاصل کرنے کے بعد جب کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مشترکہ حکومت بنی تو ملک کو یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید اس پرانے زخم کی چارہ سازی کا کوئی معقول نظم کیا جائے گا۔ مگر بد قسمتی سے ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ بی جے پی کی مجموعی لاف گزاف کا نتیجہ بالآخر گٹبندھن کے ٹوٹنے کے بعد صدر راج کے نفاذ کی صورت میں نکلا۔ وزیر اعظم نے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں جو بلند وبانگ دعوے کیے تھے وہ سب ایک طرح  سے محض جملوں کا پلندہ ثابت ہوا۔

اس میں شک نہیں کہ وزیر موصوف ایک جذباتی آہنگ کے مالک ہیں۔ ان کے لہجے کا سحر لوگوں کو مسائل کی سنگینی کے بجائے دورازکار امکانات کی وادیوں میں بہ آسانی دھکیل دیتا ہے۔ غالباً کشمیر کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ وہاں کی زمینی حالات سے دانستہ یا نادانستہ صرف نظر  کیا گیا اور یہ مسئلہ خطرات سے دوچار ہوا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کشمیر کے حالات کی ناخوشگواری میں 2014 سے 2018 کے درمیان  176 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں دہشت گردانہ حملوں کی شرح میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ہر مہینے قریب ہمارے  گیارہ فوجی جوان عسکریت پسندوں کے دست برد کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اب جب کہ این ڈی اے حکومت اپنی مدت کار کی تکمیل کی جانب گامزن ہے یہ تجزیہ کیا جانا چاہئے کہ مرکزی حکومت  اپنی اکثریت کے ساتھ مرکزی سطح پراور اپنے حلیف کے ساتھ ریاستی سطح پر اس مسئلے کے پائدار حل کے لیے  کن منصوبوں پر کام کرتی رہی اور اس جانب اس نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ ویسے گزشتہ پانچ سالوں میں جو حالات دیکھنے میں آئے ہیں وہ اس تمام منظر نامے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

 اس دورانیے میں کشمیری عوام پر جو کچھ بیتی ہے، جس طرح انھیں پلیٹ گن کا نشانہ اور حسب ضرورت انسانی ڈھال تک بنایا  گیا اس کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے تو فوجی جوانوں کی قربانی کا لیکھا جوکھا بھی کچھ کم نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کشمیر کے لیے دہلی کے خزانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا مگر پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس مسئلے پر سراسیمہ نظر آتے ہیں۔ کشمیر کا  المیہ واضح طور پر ان کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ جس انداز میں سکیورٹی اہلکاروں تک موت کے سوداگروں کی رسائی ہو رہی ہے وہ انتظامیہ کی ناکامی کی بین دلیل ہے۔ اگرچہ اس قسم کے واقعات کے پیچھے عموماًبعض  کشمیری عوام کی برگشتہ ذہنیت کا حوالہ دے کر بہت کچھ کہنے سے گریز کیا جاتا ہے، تاہم  سوال یہ ہے کہ عوام پر اور علیحدگی پسند خواص پر شکنجہ کسنے میں چوک کہاں ہوجاتی ہے؟اب اسے جمہوریت کی خوبصورتی کہیں یا کچھ اور، مگر یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ 8 دسمبر 2014 کو وزیر اعظم جب شیر کشمیر اسٹیڈیم میں خطاب کررہے تھے اس دن مخالفت یا مزاحمت پسندوں پر خصوصی نظر تھی۔ تمام لیڈران نظر بند تھے، وزیر موصوف کی تقریر کے لیے بڑے جتن کرکے ایک سازگار ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر میں اپنے امکانی وسائل کا استعمال کر چکی ہے۔

 عام انتخابات میں قسمت آزمائی پھر ساز باز کے ذریعے حکومت سازی اور بالآخر صدر راج کا نفاذ  ان تینوں قسم کی طرز حکمرانی کا تجربہ کرنے کے  بعد بھی اس سے کچھ بن نہیں پایا۔ یہ مسئلہ ناقابل فراموش ہے کہ کشمیر کا المیہ  محض کسی سیاسی جماعت یا انتخابی مفاد سے وابستہ نہیں ہے جسے ایک وقتی مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔ کشمیر کی سلامتی بھارت کی مجموعی سلامتی سے عبارت ہے۔ اس سے ہماری انٹیلیجنس کی فعالیت، افادیت اور اس کا اعتبار وابستہ ہے۔ موجودہ سانحے میں جس دھڑلے سے ہمارے تین درجن سے زائد جوانوں کو لقمہ اجل بنادیا گیا  اس سے بہت سے سولات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات ان لوگوں ضرور دینا چاہئے جو اقتدار کی کرسی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فوج کے عظمت کردار اور دہشت گردوں کی مذمت کے ہاؤہو میں اس واقعہ کو دبایاجانا مناسب نہیں۔ ہم اس تخریب کاری کو  محض خراج عقیدت کے گلدستے میں دفن  کرکے  بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
آخر یہ فوجی جوان بھی اسی طرح ملک کے شہری ہیں جیسے ہم آپ اور دوسرے لوگ ہیں۔ ارباب حل وعقد کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اس پر سنجیدہ غور وخوض کرنا چاہئے۔ بلاشبہ ملک کے لیے جان گنوانا ایک فوجی کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے مگر بحیثیت شہری  ہمیں ان کی جانوں کی قدر وقیمت سمجھنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔