نوٹ بندی کی تعریف ملک والوں سے دشمنی ہے

حفیظ نعمانی

اپنے ملک کا جو سربراہ اور پارٹی کا لیڈر اپنی غلطیوں کو اپنا کارنامہ کہہ کر پیش کرے اور جو ٹوٹے انڈے سے بچے نکالنے کی کوشش کو مہارت بتائے وہ اپنے نزدیک جو کچھ بھی کررہا ہو اپنے مخالفوں کے نزدیک اپنی قبر خود کھود رہا ہے۔ نوٹ بندی وزیراعظم کی وہ غلطی ہے جس کے نتیجہ میں ذمہ دارانہ سروے کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ نوکریاں چھوٹ گئیں۔ یہ وہ منحوس فیصلہ تھا جس کے دبائو سے 100  سے زیادہ معصوم موت کی نیند سوگئے۔ وزیر اعظم جسے بدعنوانی پر قدغن لگانے کا ذریعہ بتا رہے ہیں اس نے ہوسکتا ہے دس بیس بے وقوفوں کو نقصان پہونچایا ہو۔ ورنہ مودی جی کا اصل نشانہ صرف کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی تھے جن کو وہ اپنے مقابلہ میں کنگال کرکے اُترپردیش کا الیکشن جیتنا چاہتے تھے جسے انہوں نے نوٹ بندی اپنی فرقہ پرستی سے بھری تقریروں اور سید شجاع کے دعوے کے مطابق ان کی کاریگری سے جیت لیا۔

اس منحوس فیصلہ نے ہر آدمی کو متاثر کیا ہم ایک خاندان کو جانتے ہیں جن کا کاروبار بڑا تھا اور خاندان بھی بڑا تھا گھر میں جتنے بالغ ممبر تھے سب کا بینک اکائونٹ تھا نوٹ بندی کے بعد سب سے اہم کام نوٹ بدلنا تھا جس کے لئے مودی جی بار بار کہہ رہے تھے کہ ڈھائی لاکھ تک کوئی ٹیکس نہیں۔ اس اعلان کے بعد ہر اکائونٹ میں ڈھائی لاکھ سے کچھ کم جمع کرادیا اور پھر رفتہ رفتہ وہ ایک ہاتھ میں ہی واپس آگیا۔ پریشان وہ ہوئے جو صاف ستھرا کاروبار کرتے تھے ان کے خریدار ٹوٹ گئے اور ان کو کارخانہ بند کرنا پڑا۔ اگر مودی جی وعدہ کریں کہ وہ اگر ہار گئے تو استعفیٰ دے دیں گے تو صرف اس پر رائے شماری کراکے دیکھ لیں کہ نوٹ بندی سے اسے نفع ہوا یا نقصان؟ تو ہم سب مخالف تیار ہیں کہ رائے شماری کرالیں۔ ہم ہارے تو ہم توبہ کرلیں گے۔

معلوم نہیں وہ کس دنیا کی بات کررہے ہیں کہ انہوں نے بدعنوانوں کو سزا دی ہے اور ایمانداروں کو انعام دیا ہے جبکہ ہر آدمی کی زبان پر ہے کہ 70  سال میں اتنی بے ایمانی کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہورہی ہے۔ اترپردیش میں مشہور ہے کہ گیروے رنگ کے کپڑوں والا وزیراعلیٰ پیسے نہیں لیتا لیکن اترپردیش میں ہر کام کا کمیشن سب سے زیادہ ہے اور وہ امت شاہ کا ایک ایجنٹ پانچ ستارہ ہوٹل میں رہتا ہے اور پرمٹ تبادلہ یا پوسٹنگ سب اس کمرہ سے ہوتا ہے۔ اور چھوٹے پیمانے والی بدعنوانی دیکھنا ہو تو لکھنؤ آکر کسی بھی بازار میں دیکھ لیں جہاں ہر سڑک کو پولیس نے کرایہ پر اٹھا دیا ہے۔ اگر آپ کی کروڑوں روپئے مالیت کی دُکان ہے تو اس کے سامنے ایک کے پیچھے دوسرا اور اس کے آگے تیسرا ٹھیلہ اس طرح کھڑا ہوگا کہ دُکان کے اندر جانے کا راستہ ملنا مشکل ہوگا۔ اگر پولیس سے کہیں تو جواب ملے گا کہ دُکان کے شٹر کے اندر کوئی پریشان کرے تو شکایت کیجئے ہم ہڈی توڑ دیں گے۔ یہ لوگ باہر ہیں یہ ٹریفک والے جانیں۔

وزیراعظم نے اپنی تقریر میں میک اِن انڈیا کی کامیابی سے حسد کرنے والوں کی شکایت کی کہ انہوں نے وندے بھارت ایکسپریس کے راستہ میں خراب ہونے کو موضوع بنایا۔ ایک دوسرے کی جملہ بازی تو وہ جانیں لیکن اتنا تو ہم بھی کہیں گے کہ شرمندگی کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں انہیں اس کا شوق ہے کہ جس دن وہ تقریر کریں اس دن کہہ سکیں کہ ہم نے بنارس والوں کے لئے وندے بھارت چلادی جو ایک گھنٹہ میں 180  کلومیٹر کی رفتار سے دوڑی۔ وزیراعظم تقریر کرتے رہتے اور گاڑی دوڑتی رہتی ایک دن پہلے یا ایک دن بعد تو کیا فرق پڑتا وہ ہزاروں کروڑ کے کاموں کے پتھر جگہ جگہ لگا رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کانگریس کے زمانہ میں ایک دفعہ ہم دیویٰ گئے تو سڑک کے کنارے درجن بھر سے زیادہ پتھر لگے تھے جن کو سنگ بنیاد کہا جاتا ہے۔ اگر الیکشن جیت گئے تو دس میں سے ایک یا دو کام کر بھی دیئے اور ہار گئے تو عوام کی قسمت۔ لیکن جن کو ہارنے کا خطرہ زیادہ نظر آرہا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ پتھر لگواتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہر آدمی ان پتھروں کی حقیقت جانتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے ہندوستان کے ریلوے کی سیرت اور صورت دونوں بدل دی ہیں۔ ان کے اس دعوے کی ہم بھی تائید کریں گے اس سے پہلے کبھی یاد نہیں کہ ٹرینیں 35-30-25  اور اگر کم تو دس اور پندرہ گھنٹے لیٹ چل رہی ہوں اور ایک بھی ٹرین رائٹ ٹائم نہ چلتی ہو۔ اور یہ بھی ان کے زمانہ کی ہی بات ہے کہ لوگ حساب لگاتے ہیں کہ ریل کا کرایہ کم ہے یا ہوائی جہاز کا اور وزیراعظم نے کہاں پڑھا ہوگا کہ اے سی کوچ میں جو تکئے گدے اور کمبل چادریں ہوتی ہیں وہ ایک ایک مہینہ بھی نہیں دُھلتیں۔ اور کون ہے جس سے اس کا جواب طلب کیا جائے؟ لیکن ریلوے وزیر اس لئے قابل تعریف ہیں کہ بجٹ بھی انہوں نے ہی پیش کیا اور آدھے گھنٹہ تک انہوں نے وزیراعظم کی تعریف کی۔ اور جو آدمی مالک کی شان میں قصیدہ پڑھے وہ مالک کو سب سے زیادہ پیارا ہے۔

ارون جیٹلی جب وزیر نہیں تھے تو ایک اسٹیڈیم کے معاملات میں ان پر ہر شعبہ میں بدعنوانی کے الزام لگے اور پورے ملک میں شور ہوا ایک بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے ممبر پارلیمنٹ کیرتی آزاد نے چاہا کہ ان سے بازپرس کی جائے عوام کا پیسہ لوٹنے والوں کو سزا دینے کا اعلان کرنے والے نے اپنے جیٹلی سے ایک سوال بھی نہیں کیا اور کیرتی آزاد کو پارٹی سے نکال دیا۔ اور ملک کو لوٹنے والے تو ملک کو لوٹ کر چلے بھی گئے اور ان کے سامنے سے گئے ہیں تو جب نہیں روکا تو اب کیا سزا دیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔