غزوہ تبوک: قیصر روم کو دوٹوک جواب

محمد صابرحسین ندوی

واقعہ یہ ہے کہ سنہ ۸ھجری میں آں حضرتﷺ ایک طویل سلسلہ غزوات کے بعد مدینہ منورہ پہونچے، اس حال میں کہ پوراعرب آپ کے زیر نگیں تھا، ہر قبیلہ آپ کا قصیدہ خواں تھا، روایتی دشمنوں کی ناک خاک آلود ہوچکی تھی، مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا تھا، ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور نامناسب واقعات ہونا بند ہوگئے تھے، بلکہ اکثر ان کی عزت کی جاتی اور ان کے ساتھ لطف و محبت کا سلوک کیا جاتا؛بلکہ حالات کی رفتار ایسے بدلی کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، عرب سے اسلام کے خلاف سارے شبہات باطل ہوگئے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو بھی ایسا ماحول مل گیا تھا کہ سبھی اسلامی تعلیمات عام کرنے کیلئے یکسو ہوگئے تھے؛ لیکن خود اندرون منافق قسمہا قسم کی سازشوں پر آمادہ تھے اور لوگوں کو بھڑکا رہے تھے، انہی زمانوں میں حضورﷺ گھوڑے سے بھی گر گئے، جس کا منافقین نے خوب تماشا بنایا اور سنہ ۹؍ ھجری میں وقعہ ایلاء (جبکہ آپ نے کچھ وقت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی)کو دوچند کرکے پھیلایا، اور آپ کی ایذا کا باعث بنے؛ساتھ ہی ساتھ بیرونی طاقتیں بھی اسلام کی بڑھتی طاقت کو دبانے اور اسے ملیا میٹ کر نے پر آمادہ تھی۔

یہ ایسی طاقتیں تھی جنہیں اسلام کا مستقبل تابناک دکھتا تھا، اور انہیں اپنی سلطنت کا خطرہ لگا ہوا تھا، اسی لئے وہ بغیر کسی وجہ کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی مول لینے لگیں، یہ طاقت رومیوں کی تھی، جو روئے زمین پر سب سے زیادہ فوج کی مالک تھی اور طاقت و اسلحہ میں کسی کے ہمسایہ نہ تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خود اسلامی فوج کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کی کی تھی، جس کی ابتدا شرحبیل بن عمرو کے ہاتھوں رسول اللہ ﷺ کے سفیر حضرت حارث بن عمیر ازردی کے قتل سے ہوئی، جبکہ وہ آپ ﷺ کا پیغام لے کر بصری کے حکمران کے پاس تشریف لے گئے تھے، اوراس سے قبل روم کو جنگ مؤتہ کہ شکل میں اسلامی فوج کا سامنا ہوچکا تھا، جس لشکر کی سرکردگی حضرت زید بن حارثہ فرمارہے تھے، لیکن چونکہ یہ حملہ تشنہ رہ گیا تھا، مگر انہوں دور کے عرب قبائل پر بہترین اثرات مرتب کئے تھے؛ اسی لئے وہ بھی پھر سے حملہ کر نے کی ٹوہ میں تھے اور رومی حکومت کے تحت غسانی خاندان جو کہ شام میں آباد تھا، اس کی جانب سے اسلام مخالف خبریں آتی رہتیں، کہ قیصر روم نے آل غسان پر مشتمل فوج تیار کرلی ہے، اور ایک خونریز و فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کی جاچکی ہے۔

مدینہ منورہ میں اس خبر کی آہٹ نے کھلبلی مچا دی تھی، اور ایک عجب اندیشہ میں مبتلا کردیا تھا؛ کہ ہر کوئی اس کی خطرناکی اور عالمی حملہ کی بات کرتا تھا، حتی کہ اگر ان کے کان مین کوئی غیر معتاد آواز آجاتی تو وہ فورا کھڑے ہوجاتے اور سمجھتے تھے کہ رومیوں کا ریلا آگیا، اس کا اندازہ ا س سے لگایا جاسکتا ہے کہ واقعہ ایلا کو بیان کرنے کے بعد حضرت عمر کہتے ہیں :’’میرا ایک انصاری(حضرت عتبان بن مالک) ساتھی تھا، جب میں (خدمت نبویﷺ میں ) موجود نہ ہوتا تو وہ میرے پاس خبر لاتا، اور جب وہ موجود نہ ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے جاتا، اس زمانہ میں ہمیں شاہ غسان کا خطرہ لگاہوا تھا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر یورش کرنا چاہتا ہے، اور ا س کی وجہ سے ہمارے سینہ بھرے ہوئے تھے۔ ایک روز اچانک میرا انصاری ساتھی دروازہ پیٹنے لگا:کھولو! کھولو! میں نے کہا:کیا غسانی آگئے؟اس نے کہا:نہیں بلکہ اس سے بڑی بات ہوگئی، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلا کر لیا ہے‘‘(بخاری:۲؍۷۳۰)

تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض منافقین عرب کے سپاہیوں نے لکھ بھیجا تھا کہ: محمد نے انتقال کیا اور عرب سخت قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں، اس بنا پر ہرقل نے چالیس ہزار فوجیں روانہ کردی ہیں، آپ کو یہ خبر ملی کہ رومی عرب کی شمالی سرحدوں پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں اور کہ ہرقل نے اپنے سپاہیوں کی ایک سال کی خوراک کا انتظام کر دیا ہے، اور ان کے ساتھ عیسائی قبائل لخم و جذام وغیرہ نیز عرب کے فاتح قبائل کو شامل کر لیا ہے، اور ان کے دستے بلقاء تک بھی پہونچ گئے ہیں، ایسے میں آپﷺ نے جنگی حکمت عملی اور بار بار اٹھتی بیرونی باد صرصر ختم کرنے اور اسلام کا رعب و داب بٹھانے اور ان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے جو یہ سمجھتے کہ:اسلام کا شعلہ بھڑک کر عنقریب بجھ جائے گا یا یہ بادل کے ایک ٹکڑے کی طرح ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے چھٹ جائے گا، اور ان کے خلاف بھی یہ ایک بڑا قدم تھا جو یہ مانتے تھے؛ کہ مسلمان عرب کی ایک بدو قوم ہے، انہوں نے باقاعدہ جنگی و فنی مہارت پیدا نہیں کی ہے، وہ معاش و اقتصاد میں کمزور اور نظم و ضبط میں مضمحل ہیں، ان کے بس کی بات نہیں کہ وہ عالمی جنگیں کر سکیں یا عالمی طاقتوں سے دو بدو ہو سکیں۔

چنانچہ غزوۂ تبوک کے لئے نکلنے اور ہرقل سے مقابلہ کا ارادہ کیا، لیکن یہ آسان نہیں تھا، کیونکہ عرب پر قحط کا زمانہ تھا، بھوک مری چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، تنگی اور گرمی کا یہ حال تھا کہ جیسے سے انگارے برس رہے ہوں، بدن کو جھلسا دینے والی دوپہری کے ساتھ بعید ترین مسافت کا خیال بھی کچھ کم نہ تھا، اس نزاکت سے ہر کوئی واقف تھا؛لیکن مومن تو آخر مومن ہے، وہ اسباب و اسئل سے نہین خدا کی مدد و نصرت اور تقرب الی اللہ کیلئے لڑتا ہے، اس کے مطمح نظر شہادت ہی ہوتی ہے، کشور کشائی سے وہ کوسوں دور ہوتے ہیں، ایسے میں پختہ مسلمان جن کے دل ایمان سے شاداب و سرشار تھے انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی آواز پر لبیے کہا، اپنی جان و مال لٹادینے اور سعادت حاصل کرنے میں پیش قدمی کی، انہوں تمام مآ ل و ممکنات کو خدا پر چھوڑتے ہوئے، اس کی راہ میں سر بکف ہوجانے اور جان جان آفریں کے سپرد کردینے کا تہیہ کیا۔

راسخ الایمان مسلمان جہاں ایک طرف حضور اکرم ﷺ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے اور جنگ کیلئے ہر ممکن جی جان لگادینے پر آمادہ تھے تو وہیں منافقین کیلئے یہ ایک آزمائش کی گھڑی تھی، دل میں چور لئے وہ جنگ میں نکلنے اور جام شہادت نوش کرنے کے قائل نہ تھے، ایسے مٰں وہ بڑی آزمائش میں پڑ گئے، چنانچہ منافقین لوگوں کو اکساتے تھے ؛کہ ایسے موقع میں جنگ کے لئے نہ نکلیں، اور اپنی جان کو داو پر نہ لگائیں، پھلوں کا موسم قریب ہے، تنگی دور کرنے کا زمانہ آنے والا ہے، اس کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں، لیکن ان کی یہ چالیں کسی قدر کام نہ آئیں، وہ مومنین کو بھڑکا نہ سکے اور ناہی انہیں صراط مستقیم سے ہٹا سکے۔ ادھر حضور ﷺ کو بھی دشواریوں کا اندازہ تھا، وہ جانتے تھے کہ یہ حملہ گویا آدھی دنیا پر حملہ ہے، اور وقت کے سپر پاور سے پنجہ آزمائی کرنا ہے، چانچہ آپ ﷺ نے ایک طرف ایمانی و روحانی سامان مہیا کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین میں ایمانی جوش و ولولہ پیدا کیا تو دوسری طرف مالی تعاون کیلئے صحابہ کرام کو توجہ دلائی، اور ان کیلئے ترغیبی ارشادات فرمائے، ایسے میں حضرت عثمان ؓ نے۲۰۰اوقیہ چاندی اور ۳۰۰ اونٹ پیش کئے، تو وہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان لاکر حضورﷺ کے قدموں میں رکھ دیا، آپﷺ نے پوچھا:اے ابوبکر! تم نے اپنے اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑا؟ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جواب دیا:اللہ اور ا سکے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ اکثر صحابہؓ نے بڑی بڑی رقمیں لا کر پیش کیں، آپ ﷺ نے سبھی کو خوب دعائیں دیں۔

حضور اکرم ﷺ نے آس پاس قبائل سے فوجیں بھی منگوائیں، حلیف قبائل نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور ایک بڑی تعداد فوجوں کی اکٹھا ہوگئی، چنانچہ اب آپ ﷺ نے روانگی کا رادہ فرمای، آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کسی کو اپنا نائب اور مدینہ کا امیر بنا جاتے، اس دفعہ آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں اپنا نائب بنایا، حضرت علی رضی اللہ جنگ کے دلدادہ، بہادر اور شہادت کے شوقین تھے، اور مدینہ منورہ میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ ٹھہرنے کو پسند نہ کرتے تھے، لہذاآپ ﷺ نے اس اہم مہم سے پچھڑنے پر آپ ﷺ سے صحبت کی گزراش کی، ا س پر آپ ﷺ نے تسلی بھرے الفاظ کہے اورفرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے کہ جو ہارون ؑ کو موسیؑ سے نسبت تھی، وہ مجھ کو بھی ملے۔ حضرت علی کیلئے یہ جملہ اس قدر باعث فخر تھا کہ آپ اس جملے کو کبھی بھلا نہیں سکتے تھے۔ اب مدینہ منورہ میں آپ امارت کے تحت غیر مکلفین اور منافقین کے علاوہ تین اور مخلص صحابی کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع، ہلال بن ابو امیہ( جو ٹال مٹول کی بنا پر پچھڑ گئے اور بائیکاٹ کی سزا کاٹی) وہی رہ گئے تھے۔

غرض پوری تیاری کے ساتھ ماہ رجب ۹ ھجری کو تیس ہزار فوج جس کے اندردس ہزار گھوڑسوار تھے لیکر روانہ ہوئے۔ مسافت کے درمیان ان عبرتناک مقامات سے بھی گزر ہوا جن کا ذکر قرآن نے قوم عاد اور قوم ثمود کے نام سے کیا ہے، جن کی خوبیوں اور برائیوں کے ساتھان کے کرتوتوں کی وجہ سے عذاب الہی کا ذکر بھی ہے، ایسے موقع پر آں حضرت ﷺ فرماتے تھے:ان جگہوں پرنہ کوئی قیام کرے گا، نہ کوئی پانی پئے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ان ظالمون کی جائے سکوونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر وہی مصیبت نہ آن پڑے، جو ان پر آئی تھی، ہاں مگر روتے ہوئے، پھر آپ نے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل وادی پار کر گئے۔ (بخاری:۲ی؍۲۳۷)چونکہ ہر خبر بہت زورو شور کے ساتھ پھیلتی ہے اور ان کے غلط ہونے کا امکان بہت ہوتا ہے، اور بساوقات تحقیقات بھی اشارات کے چنگل میں پھنس کر غلط اندازے کا شکار ہوجاتی ہیں، چنانچہ تقدیر الہی ایسی تھی کہ :تبوک پہونچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر صحیح نہ تھی، لیکن اصلیت سے بالکل خالی بھی نہ تھی، اور کہ اسلام کی ابھرتی ہوئی نئی قوت کی وجہ سے غسان اور روسائے عرب ریشہ دوانی کررہے تھے، اور اپنے ساتھ باغیوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تبوک پہونچ کر آپ ﷺ نے وہاں بیس دن قیام فرمایا، ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایلہ کے حاکم یحنہ نے جزیہ دینا منظور کیا، اور صؒح کا معاہدہ کیا، اس کے علاوہ جرباء اور اذرح کے باشندوں نے بھی جزیہ جزیہ دینا منظور کیا۔

اسی طرح اسلامی حکومت کی توسیع بھی ہوئی اور قیصر کے زیر اثر دمشق سے پانچ منزل کے فاصلے پر ایک دومۃ الجندل کے سردارجس کا نام اکیدر تھا، حضورﷺ نے حضرت خالدؓ کو چار سو بیس لوگوں کی جمعیت میں بھیجا، آپ اسے گرفتار کر کے لائے اور اس نے بھی دربار رسالت میں حاضر ہو کر شرائط صلح پیش کی، بعد میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ بھی آیا، آں حضرت ﷺنے اسے امان دی۔ غزوۂ تبوک بہت سے ناحیوں سے اسلام اور اسلامی حکومت کے لئے مفید ثابت ہوا، منافقین کی سازشیں اور ان کے چہرے بے نقاب ہوئے تو وہیں بیرونی حکومتوں نے اسلام کا لوہا مانا اور اب دارالحکومت یعنی مدینہ منورہ خارجی حملوں سے محفوظ ہوگیا، یہ مہم اتنی عظیم تھی کہ جب آپ مدینہ کے قریب پہونچے تو فرط محبت اور شوق کا وہی عالم تھا نیز استقبال کا بھی وہی انداز تھا جو کہ ہجرت کے وقت پیش آیا تھا، یہاں تک کہ پردہ نشینان حرم جوش میں گھروں سے نکل پڑیں اور لڑکیاں گانے لگیں۔ (دیکھئے: ابن ہشام:۲؍۵۱۵تا ۵۳۷۔ زادالمعاد:۳؍۲تا ۱۳۔ مختصرالسیرۃللشیخ عبداللہ:۳۹۱تا ۴۰۷)

طلع البدر علینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مادعا للہ داع 

1 تبصرہ
  1. سالم اکتر کہتے ہیں

    ساحافت

تبصرے بند ہیں۔