کشمیر کا سچ: گراؤنڈ رِپورٹ (قسط چہارم)

ڈاکٹر قمر تبریز

کشمیر میں ہمارے فوجی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں جدید ترین اسلحے اور دیگر آلات ہیں۔ لیکن، آج وہ سہمے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، کشمیر کے پتھر باز ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کے اوپر کبھی بھی گولی چلائی جا سکتی ہے، پھر بھی ڈرتے نہیں۔ پولس والا یا کوئی فوجی جب کسی ایک کشمیری پر ڈنڈے یا گولی چلاتا ہے، تو ہزاروں نوجوان اپنا سینہ کھول کر سامنے آجاتے ہیں کہ آؤ، مارو گولی۔

جب ایک فوجی نے کہا: سنبھل کر جانا

کشمیر میں جس طرح کے حالات ہیں، اسے دیکھ کر پہلی بار وہاں کا دورہ کرنے والے شخص کو یہی لگے گا کہ یہ کوئی جنگ کا میدان ہے۔ خاص کر تب، جب ریاست میں کسی علیحدگی پسند تنظیم کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی ہو۔ میں گزشتہ تقریباً بیس برسوں سے جموں و کشمیر کا سفر کرتا رہا ہوں۔ دس پندرہ سال پہلے جموں سے سرینگر تک کی تقریباً 350 کلومیٹر لمبی قومی شاہراہ پر جگہ جگہ سیکورٹی دستوں کے ذریعے مسافروں کی چیکنگ کی جاتی تھی۔ خاص کر جواہر ٹنل میں داخل ہونے سے پہلے تو ہر ایک سامان کی تلاشی لی جاتی تھی۔ اس کے بعد وادیٔ کشمیر میں دس سے پندرہ کلومیٹر کی دوری طے کرنے میں بھی کم از کم تین چار جگہوں پر مسافروں کی تلاشی لی جاتی تھی۔ ان سے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا جاتا تھا۔ ریاست کے باہر سے آنے والوں پر سیکورٹی فورسز کی خاص نظر ہوتی تھی۔ کہاں سے آئے ہو، کہاں جانا ہے، کب تک یہاں رہنا ہے وغیرہ سوالوں کا جواب اسے بار بار دینا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے، اس سے باہر کا کوئی بھی مسافر تنگ ہوجاتا تھا۔ لیکن، تصور کیجئے کشمیر کے عوام کا کیا حال ہوتا ہوگا جب چوبیسوں گھنٹے ان پر نظر رکھی جاتی ہوگی۔ وہ نوجوان کیا سوچتا ہوگا، جس نے پہلی بار جب ہوش سنبھالا اور دنیا کو سمجھنے کے قابل ہوا تبھی سے وہ دیکھ رہا ہے کہ اسلحہ بردار فوجی اس کے گھر کے باہر بندوق لیے کھڑے ہوئے ہیں ۔ فوجیوں سے کشمیری نوجوانوں کی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آخر ان کے اوپر پہرہ کیوں بیٹھا دیا گیا ہے۔

اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں تعینات فوجی بھی ایک انسان ہیں ۔ ہماری اور آپ کی طرح ان کی بھی فیملی ہے، بچے ہیں ، ماں باپ ہیں ۔ وہ یہ سب شوق سے نہیں کر رہا ہے، بلکہ نوکری کر رہا ہے، اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے۔ ایک تو سردیوں کے سخت موسم میں اسے وہاں پر اپنی ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ہے، دوسرے عام دنوں میں بھی کوئی کشمیری اس سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتا۔ فوجی اپنی بندوق کے ساتھ تقریباً آٹھ گھنٹے تک سڑکوں ، گلیوں، بازاروں اور گاؤں محلوں میں کھڑا ہوکر اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے اور وہاں کا کوئی آدمی اس سے بات تک نہیں کرتا۔ کیسا لگتا ہوگا اسے؟ ایک انسان ہونے کے ناتے ہم اس کی دماغی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اسی لیے فوجی بھی کشمیریوں سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے، جتنی کہ کشمیری اس سے۔ دونوں طرف سے باہمی نفرت کا یہ جذبہ اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے، جب کشمیری نوجوان فوجیوں پر پتھر پھینکنے لگتے ہیں اور ان کے سامنے پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہوئے ’آزادی‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس کے جواب میں بعض دفعہ فوجیوں کی طرف سے گولی چلائی جاتی ہے یا لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ، جب ریاست کے باہر کا کوئی آدمی وہاں جاتا ہے اور کسی فوجی سے ہاتھ ملا کر اس کی خبر خیریت پوچھتا ہے، تو اسے لگتا ہے کہ اس کے گھر کا کوئی فرد آگیا۔ اسے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ میرے ساتھ یہ واقعہ کئی بار پیش آ چکا ہے۔ لیکن، اس بار جب میں نے ایک فوجی سے ہاتھ ملایا تو یہ محسوس کرکے حیران رہ گیا کہ اسے اپنی جان سے زیادہ میری جان کی فکر تھی۔

اس دن پورے کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ تمام دکانیں بند تھیں ۔ سڑکوں پر کوئی گاڑی بھی نہیں چل رہی تھی۔ اسکول و کالج بھی بند کر دیے گئے تھے۔ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ گھروں کے اندر ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی خوشی کا موقع ہو، کباب کے گوشت کوٹے جا رہے تھے، بچے اپنے اپنے آنگن میں کھیل رہے تھے۔ لیکن، گھر سے باہر نکلتے ہی سڑکوں پر فوجیوں اور نیم سیکورٹی دستوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے یہاں پر کرفیو لگا دیا گیا ہو۔ میں نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے فوجیوں سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ سڑک کے دونوں طرف وہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ میرے ہاتھ میں کیمرہ تھا، لیکن تصویر کھینچنے سے انھوں نے منع کر دیا۔ میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ کوئی بہار کے ویشالی ضلع کا تھا، کوئی بکسر کا، تو کوئی بلیا کا۔ ایک فوجی ہریانہ کے حصار کا تھا۔ کرناٹک اور تمل ناڈو اور کیرالہ کے بھی کئی فوجی ملے۔ میرے دہلی سے آنے کے بارے میں سن کر وہ کافی خوش ہوئے اور پوری گرمجوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ لیکن، انھوں نے مجھے اپنے پاس زیادہ دیر تک رکنے نہیں دیا۔ بولے کہ یہاں سے جلدی نکل جاؤ، کیوں کہ سڑک کے دوسرے کنارے پر چند کشمیری نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ تم پر پتھر بھی چلا سکتے ہیں ، اس لیے سنبھل کر جانا۔

میں ایک کشمیری کے گھر میں ہی ٹھہرا ہوا تھا اور اس بات کو اچھی طرح سے جانتا تھا کہ جو لوگ کل تک میری مہمان نوازی بھرپور طریقے سے کرتے تھے، آج وہی مجھے شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ فوجیوں سے ہاتھ ملانے کا مطلب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ میں ایک مخبر ہوں ۔ لہٰذا، میں نے بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسی میں بہتری سمجھی کہ وہاں سے جلد از جلد نکل جاؤں ۔ مخبری کے شک میں کشمیر میں پہلے ہی کئی لوگوں کا قتل کیا جا چکا ہے۔ کشمیری مجھے جس طرح ’ہندوستانی‘ کہہ کر پکار رہے تھے، اس سے بھی یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ہندوستان سے کس قدر ناراض ہیں ۔ اس میں مرکز کی مودی حکومت کی بھی کئی غلطیاں ہیں ۔ وہ غلطیاں کیا ہیں اور کشمیر کے حالات کو کیسے قابو کیا جا سکتا ہے، اس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ آئندہ قسطوں میں کیا جائے گا۔

مفتی محمد سعید کی حکومت بننے کے بعد کشمیر کے زیادہ تر رہائشی علاقوں سے فوج کے بنکر ہٹا لیے گئے ہیں اور اب کسی کو سیکورٹی فورسز کی طرف سے چیکنگ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا، بشرطیکہ کہیں پر کسی ملی ٹینٹ کے چھپے ہونے کی خبر نہ ہو۔ ریاست میں بی جے پی – پی ڈی پی کی مخلوط حکومت بننے کے بعد سیکورٹی فورسز اور عوام کے درمیان وہ اعتماد اور بھی مضبوط ہونا چاہیے تھا، جس کی بنیاد مرحوم مفتی محمد سعید نے ڈالی تھی۔ لیکن، بدقسمتی سے پچھلے سال برہان وانی کی ہلاکت نے پورے ماحول کو پوری طرح خراب کردیا۔ ریاست کے لوگوں کو لگا کہ بی جے پی کے وہاں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنالینے کے بعد ان کے خلاف ظلم وستم کا سلسلہ دراز ہو جائے گا۔ ریاست کو دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کو چھیننے کی بات بی جے پی نے جس طرح بار بار کی، اس سے بھی وہاں کے عوام کا اعتماد متزلزل ہوا۔

اور اب وہاں کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کے دلوں سے گولی لگنے کا خوف پوری طرح نکل چکا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ اگر فوج کی ایک گولی چلتی ہے، تو ہزاروں کشمیری چند منٹوں میں سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور اپنا سینہ کھول کر فوج کو للکارتے ہیں کہ آؤ ہمیں گولی مارو۔ ان کی اس بے خوفی نے سیکورٹی دستوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیکورٹی دستوں کے ساتھ تصادم میں مارے گئے کسی ملی ٹینٹ کے جنازے میں جس طرح کشمیری عوام کا ہجوم امنڈتا ہے، اس سے بھی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں فکرمند ہیں ۔ آج کشمیر کے حالات کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کریں گے کہ اسلحہ بردار فوج ڈری سہمی ہوئی ہے، جب کہ پتھر باز غیر مسلح کشمیری بے خوف ہو کر گھوم رہے ہیں ۔ اس سے ریاست کی علیحدگی پسند تنظیموں اور سرحد پار پاکستان میں بیٹھے دہشت گردوں کو تقویت مل رہی ہے، جو موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماحول کو مزید خراب کر رہے ہیں ۔

مرکز کی مودی حکومت اور ریاست جموں و کشمیر کی پی ڈی پی – بی جے پی مخلوط حکومت کو آپس میں مل بیٹھ کر گہرائی سے یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ان سے کہاں غلطی ہوئی، جس کی وجہ سے کشمیر کے حالات قابو میں نہیں آ رہے ہیں ۔ کیوں ہمارے ملک کے جانباز فوجی اپنے ہاتھوں میں اسلحے لیے ہوئے بھی ڈرا ہوا محسوس کر رہے ہیں ، جب کہ پاکستان حامی علیحدگی پسند پوری وادی میں بے خوف و خطر دندناتے پھر رہے ہیں ۔ کیا مودی حکومت یہ کہہ کر غلطی نہیں کر رہی ہے کہ ہم پتھر بازوں سے بات نہیں کریں گے۔ اگر کشمیر ہمارا ہے، تو کشمیری بھی تو ہمارے ہی ہیں ۔ اگر آپ ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے، تو وہ اس کی طرف تو دیکھیں گے ہی جو ہر وقت ان سے ہمدردی کا دعویٰ کرتا رہتا ہے۔ مفتی محمد سعید کے دورِ حکومت میں کشمیری عوام کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوا تھا۔ حالانکہ، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی ’زخموں پر مرہم رکھنے‘ کی (ہیلنگ ٹچ) پالیسی کو تب بی جے پی نے ’ملی ٹینٹوں کو خوش کرنے‘ کی پالیسی قرار دیا تھا، لیکن پی ڈی پی سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود آج بی جے پی ریاست میں اس کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ بی جے پی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ریاستی عوام کے نبض کو جتنا پی ڈی پی پہچانتی ہے، اتنا وہ نہیں سمجھ سکتی۔ طاقت کے زور پر کشمیریوں کو دبایا نہیں جاسکتا، بلکہ ان سے پیار و محبت سے بات کرکے ہی ان کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا ہے۔

’’میرے ملک کے خلاف نعرے لگے اور میں کچھ نہیں کر سکا‘‘- پڑھیں اگلی قسط میں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔