کیا ظلم کی آندھیاں حق کا چراغ بجھا سکتی ہیں؟

عبدالعزیز

عباسی دورِ اقتدار میں شخصی آمریت اور مذہبی تجدد کا گٹھ جوڑ اپنے پورے عروج پر ہے! اہل حق پر مسلمانوں ہی کے معاشرے میں، مسلمانوں ہی کی حکومت میں عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔

جیل، جلا وطنی اور جلاد کے کوڑے اور شمشیر ان کا استقبال کر رہے ہیں؛ لیکن … کیا ظلم کی طوفانی آندھیاں حق کا چراغ گل کرسکتی ہیں؟

حق کے پرستار اپنے آنسوؤں اور اپنے لہو سے اس چراغ کو روشن رکھتے اور اس کی لو کو تیز تر کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کے چراغ تو گل ہوسکتے ہیں لیکن حق کا چراغ نہیں!

’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے چراغ کی روشنی کی پھونکیں مار کر بجھا دیں؛ حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا‘‘۔

٭ قافلہ حق کے سردار امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ گرفتار کرلئے جاتے ہیں۔

چار چار بوجھل بیڑیاں پاؤں میں ڈال دی جاتی ہیں پھر پیدل چلنے کیلئے کہا جاتا ہے، بغیر کسی مدد اور سہارے کے اونٹ پر چڑھائے جاتے ہیں، گرتے ہیں اور اٹھتے ہیں لیکن اُف تک نہیں کرتے۔

بغداد سے طرطوس لے جائے جارہے ہیں، ابوبکر احوالی آگے بڑھتے ہیں اور پوچھتے ہیں: ’’اگر تلوار کے نیچے کھڑے کر دیئے گئے تو کیا اس وقت مان لوگے؟‘‘

داعیِ حق برملا کہتا ہے: ’’نہیں؛ ہر گز نہیں ان شاء اللہ تعالیٰ‘‘۔

عین رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دوران، روزے کے عالم میں اس پیٹھ پر جو معارف نبوتؐ کی حامل تھی، کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ دو کوڑوں کے بعد تازہ دم جلاد لایا جاتا ہے اور کوڑے بھی ایسے کہ خود جلاد کہتا ہے: اگر ہاتھی پر پڑتے تو بلبلا اٹھتا‘‘۔

لیکن جس کا دل حق کا مسکن ہو، لاریب وہ کوڑے کی دلیل سے ذرا متاثر نہیں ہوتا۔ یہی کہتا ہے:

’’اللہ کی کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل لاؤ تو مان لوں گا، اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔

٭ جیل اور جلاد کی آزمائش میں ایک سال پانچ ماہ بیت جاتے ہیں۔ رقہ کے مقام پر علماء کا ایک وفد آپ سے ملتا ہے اور فتنے کے زمانے میں رخصت اور عافیت پر عمل والی روایات سناتا ہے۔ آپ ساری بات سن لیتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں:

’’بجا ارشاد، دوستو! مگر حدیث خبابؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہو؟ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مظالم و شدائد کی شکایت کی تو فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ ان کے سروں پر آرہ چلایا جاتا اور گڑھوں میں کھڑا کرکے آرے سے چیر دیا جاتا مگر اس پر بھی انھوں نے حق سے منہ نہ موڑا اور سب کچھ برداشت کیا‘‘۔

عافیت اور رخصت کے متلاشیوں کا ’’سفید جھنڈا بردار‘‘ وفد اس جواب سے مایوس ہوکر واپس چلا جاتا ہے۔

پھر تاریخ نے اپنا فیصلہ بھی دے دیا۔ امام پر ظلم کرنے والے ملت اسلامیہ کے دشمن قرار پائے اور احمد بن حنبلؒ ہمیشہ کیلئے امت کے امام، قائد اور مجدد قرار دیئے گئے اور کہنے والوں نے کہا: ’’اگر کسی کو دیکھو کہ امام احمدؒ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اسلام کا شیدائی اور صاحب سنتؓ ہے!‘‘۔

اہلِ حق کا جرم

’’(قسم ہے اس دن کی جب) جو سختیاں وہ اہل ایمان پر کر رہے تھے، ان کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہوئے تھے… وہ اللہ جو غالب اور قابل ستائش ہے، وہی جس کی آسمانوں اور زمین پر بادشاہت ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (البروج:7-9)

٭ میں ان امراء و حکام سے جو میرے بعد آئیں گے، تمہارے لئے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

 جو شخص …

٭ ان کے دروازے پر گرے گا، ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم کی تائید کرے گا، وہ میری امت میں سے نہیں اور نہ میں اس سے کوئی تعلق رکھتا ہوں اور وہ حوض کوثر کے قریب پھٹک بھی نہ پائے گا۔

اور جو شخص…

٭ ان کے دروازوں پر نہیں جائے گا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کرے گا اور نہ ان کے ظلم کی تائید کرے گا، میں اس کا ہوں اور وہ میرا ہے اور وہ حوض کوثر پر بھی آئے گا۔

تبصرے بند ہیں۔