گائے کے نام پر تشددو پر راجیہ سبھا میں زور دار مباحثہ

عبدالعزیز

  پورے ملک میں گائے کے تشدد پسند محافظوں کی قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راجیہ سبھا میں کئی ممبروں نے نہایت زور شور سے سوال اٹھایا اور تقریباً سب نے جن کا اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق ہے سنگھ پریوار والوں کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ جان بوجھ کر مسلمانوں اور دلتوں پر جبر و ظلم کر رہے ہیں اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے مسلمانوں کو خاص طور پر ان کے دین و ایمان کی وجہ سے بے رحمی اور بے دردی سے قتل کر رہے ہیں ۔ حکومتیں جو بی جے پی کی سربراہی میں چل رہی ہیں ۔ وہاں پولس کے ذریعہ دکھانے کیلئے ظالموں اور قاتلوں کے خلاف کچھ رسمی کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔ ایک یا دو دن بعد مجرموں کو تھانہ میں رکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سنگھ پریوار یا بی جے پی کی حکومتیں اس معاملہ سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ قاتل گئو رکشکوں کی درپردہ حفاظت، مدد اور حوصلہ افزائی کر رہی ہیں ۔

 سماج وادی پارٹی کے لیڈر نریش اگروال نے بحث کی شروعات کرتے ہوئے شیو سینا یا بجرنگ دل کے آفس پر تختی پر لکھے ہوئے اشعار پڑھے جس میں گائے کے تقدس کے گن گائے ہوئے تھے۔ انھیں دیوی اور دیوتا بتایا گیا تھا نریش اگروال نے سوال کیا کہ اگر گائے ماتا ہے تو بیل کیا ہے؟ ان کا اتنا کہنا تھا کہ بھاجپا کے سارے ممبران اپنی اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے اور ایک ساتھ ان کی مذمت کرنے لگے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ تھوڑی دیر تک اگروال جی اڑے رہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ انھوں نے تو جو اشعار پا پنتھیاں پڑھی ہیں وہ پریوار کے آفس کی دیواروں پر ایک تختی پر لکھی ہوئی ہیں مگر جب شور و غوغا زیادہ ہونے لگا تو نریش اگروال نے کہاکہ میرے دل و دماغ میں کسی کے عقیدے اور آستھا کی توہین نہیں کرنا تھا۔ اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو اس کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ طوفان تو تھوڑی دیر کیلئے تھم گیا مگر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔

  جنتا دل (یو) کے ممتاز اور مشہور لیڈر شرد یادو نے لگ بھگ آدھے گھنٹے میں پورے ملک کی دردناک تصویر پیش کی۔ ایک ایک مظلوم کا نام لے کر ان کے خون اور لہو کا حوالہ دیا کہ کوئی ٹرین میں سفر کر رہا ہے اسے چھری گھونپ گھونپ کر مار دیا جاتا ہے۔ جنید کا نام لیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ کہاں اس کے پاس گائے تھی۔ کہاں ا س نے گوشت چھپا رکھا تھا۔ وہ تو عید کی شاپنگ کرکے گھر جارہا تھا۔ اس بیچارے کا محض یہ قصور تھا کہ وہ ٹوپی پہنے تھا اور مسلمان تھا۔ مسلمان سمجھ کر اسے دن دہاڑے ٹرین کے کوچ میں قتل کر دیا گیا ۔ یہ صریحاً ساری انسانیت پر حملہ ہے۔ اسی طرح محمد اخلاق کو گوشت فریج میں رکھنے کی وجہ سے گھر سے گھسیٹ کر مار ڈالا گیا۔ پہلو خان جو دودھ کیلئے گایوں کو خرید کر لے جارہا تھا اس کو بھی ظالموں نے نہیں چھوڑا۔ جھار کھنڈ میں دو نوجوانوں کو مار کر اس کی لاشوں کو پیڑ کی شاخ سے باندھ کر لٹکا دیا۔ لوگ اب بس اور ٹرین میں سفر کرنے سے ڈرتے ہیں کیا اس لئے نریندر مودی کو لوگوں نے ووٹ دیا تھا۔ شرد یادو نے کہاکہ ہمارا ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔مذہب کے نام پر ایک بار ملک بٹ چکا ہے پھر یہ لوگ ملک بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے تھے وہ چلے گئے۔ ہندستان کے مسلمان ہندستان میں رہنے کا من بنا چکے ہیں ۔ یہ ملک و قوم کیلئے نعمت ہے۔ خدارا انسانیت اور بھائی چارہ کو ملک سے رخصت نہ کیجئے ورنہ ملک کا حال بہت جلد افغانستان، عراق، شام اور پاکستان جیسا ہوجائے گا۔ اگر اس دہشت گردی اور آتنک واد کو نہ روکا گیا۔

غلام نبی آزاد نے نہایت مدلل انداز سے آج کے حالات کی تصویر کشی کی۔ کہاکہ مسلمانوں اور دلتوں کو منصوبہ بند طریقے سے ستایا جارہا ہے اور ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ مسلمان اور دلت تنگ آجائیں تاکہ وہ ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کا مظاہرہ کرنے لگیں ۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کیلئے سب سے برا دن ہوگا۔ این سی پی کے لیڈر اور مشہور وکیل مجید میمن نے 30/35 منٹوں میں اپنی تقریر سے ثابت کیا کہ جو کچھ ملک میں دہشت پھیلائی جارہی ہے یا دہشت گردی ڈنکے کی چوٹ پر کی جارہی ہے حکومت اسے روکنے کیلئے موثر قدم جان بوجھ کر نہیں اٹھا رہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مجرموں کو راحت دے دی جاتی ہے جس سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے بلکہ بلند رہتے ہیں ۔ مجید میمن نے ظالموں کی سرکوبی کیلئے سخت قدم اٹھانے اور سخت قانون بنانے پر زور دیا ہے۔

  اسی طرح سی پی ایم اور دیگر پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی گئو رکشکوں کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی پر پُر زور تقریریں کیں ۔

  لیڈر آف ہاؤس، وزیر خزانہ اور وزیر دفاع مسٹر ارون جیٹلی نے کہاکہ سب ہی پارٹیوں نے ایک سر اور ایک آواز میں گئو رکشک کے نام پر جو غنڈہ گردی ہورہی ہے۔ اس کی مذمت کی اور اس پر کارروائی کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہاکہ ان کے پاس مظلوموں کے واقعات کی پوری فہرست موجود ہے۔ ہر جگہ مناسب کارروائیاں کی گئیں اور جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے انھیں رہائی نہیں دی گئی ہے۔

ارون جیٹلی ایک طرف گئو رکشکوں کے اقدام کی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کا کہنا تھا کہ گائے ذبیحہ پر قانون بنانے یا روک لگانے کا کام جواہر لال نہرو کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ چار پانچ ریاستوں کو چھوڑ کر گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اپنے دلائل کو مضبوط کرنے کیلئے انھوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کا حولہ دیتے ہوئے کہاکہ دستور کے رہنما اصول کی دفعہ 48 میں وہ ساری باتیں ہیں جو گائے کے تحفظ یا جانوروں کی حفاظت سے متعلق کہی جارہی ہیں ۔

غلام نبی آزاد نے کہاکہ وہ جس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں وہاں مہاراجہ کے زمانے سے گائے ذبیحہ پر پابندی عائد ہے جبکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس کے باوجود شیخ عبداللہ یا کسی اور وزیر اعظم نے کشمیر میں گائے ذبیحہ پر سے پابندی ہٹانے کی بات نہیں کی۔ مسٹر جیٹلی سے مخاطب ہوکر کہاکہ وہ ذبیحہ پر سے پابندی اٹھانے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ گائے کے نام رہ جو تشدد، بربریت اور دہشت گردی ہورہی ہے اسے روکنے پر زور دے رہے ہیں ۔ آپ ہوں یا وزیر اعظم صاحب، سب کی باتیں صدا بصحرا ثابت ہورہی ہیں ۔ اس لئے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نہ سنجیدہ ہے اور نہ سنگین حالات کو بدلنے کے حق میں ، کیونکہ ہر وزیر یا وزیر اعظم کے بغل میں چھری ہے اور زبان پر رام رام کی صدا ہے۔ اس سے گئو رکشکوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ء سے 2017ء تک ہاہاکار مچا ہے۔ مسلمانوں کی مظلومیت اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ارون جیٹلی نے آخر میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا اور اس کے تدارک اور ازالہ کی بات کی مگر بہوجن سماج پارٹی کے لیڈروں نے کہاکہ یہ مگر مچھ کے آنسو ہیں ۔ منہ پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے۔ ہم لوگ جواب سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اس لئے ہم لوگ سدن سے واک آؤٹ کرتے ہیں ۔

 دلت لیڈروں نے جس طرح آؤٹ ہوکر اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت اور ہمدردی کی اور سدن سے اٹھ کر چلے گئے۔ مسلمانوں میں کسی نے بھی مسلم مظلوموں کیلئے احتجاجاً واک آؤٹ کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ یہ ہے اس وقت دلت مظلوموں اور مسلم مظلوموں کی داد رسائی کا فرق۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔