کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

حفیظ نعمانی

        آسام سے لے کر کشمیر تک نہ جانے کیا کیا ہوتا رہا، لیکن وزیر اعظم کی آواز کسی نے نہیں سنی اور ہر طرف سے کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم کو مداخلت کرنا چاہیے، ۶؍اگست کو انہوں نے ایک پروگرام میں حاضرین سے جو کہا وہ الگ رہا، انھوں نے ان سوالوں کے جواب بھی دے ڈالے جو کئی ہفتوں سے ان کے جوابوں کا انتظار کررہے تھے، انھوں نے کہا کہ پنچایت میں اگر کچھ ہوجائے، چھوٹی بڑی میونسپلٹیوں میں کچھ ہوجائے، ضلع پریشد میں کچھ ہوجائے یا صوبوں میں کچھ ہوجائے تو ہر طرف سے آواز آتی ہے کہ وزیر اعظم کو بولنا چاہیے اور اسے ملک کی بدقسمتی قرار دیا، اس کے بارے میں اور جو کوئی کچھ کہے، ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ وہ خود اور ان کی پارٹی جب حکومت سے باہر تھی تو وہ اس سے بھی زیادہ کرتی تھی اور اس کا صرف ایک ہی الزام تھا کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ چپ بیٹھے رہتے ہیں۔

        اب اگر مودی جی سے کہا جارہا ہے تو اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو بی جے پی کے پیش نظر تھی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر الیکشن میں وزیر ا عظم نے اپنے علاوہ کسی چہرہ کو سامنے نہیں آنے دیا، راج ناتھ سنگھ لکھنؤ تک تھے اور ارون جیٹلی صرف امرتسر تک، جب ہم نے کسی کو دیکھا ہی نہیں تو پھر آپ کے علاوہ کس سے معلوم کریں ؟

        وزیر اعظم نے گئو رکشکوں کے بارے میں جو کہا وہ یہ نہیں تھا کہ یہ سماج کا کوڑھ ہیں، اپنے پاپ چھپانے کے لیے گئو  ماتا کی آڑلے لی ہے، یہ جہاں ملیں انھیں پہلے مارو اور پھر بند کردو، اور ان پر مکوکا لگا دو تاکہ ضمانت نہ ہوسکے، بلکہ اس قدر ریشمی الفاظ استعمال کیے ہیں کہ جو لوگ گئو رکشا کی مہم چلا رہے ہیں ا ن میں 70-80 فیصدی لوگ وہ ہیں جن کو سماج پسند نہیں کرتا، کیوں کہ وہ رات میں اس کی آڑ میں کچھ اور کرتے ہیں اور کہا کہ میں ریاستی حکومتوں سے گذارش کرتا ہوں کہ ان کی فہرست تیار کریں اور ان کے تفصیل جمع کریں تاکہ دیکھیں کہ لوگ کیا کررہے ہیں ؟ مودی جی ہمیں معاف کریں، ان کے بارے میں انھوں نے جو کچھ کہا وہ کچھ ایساتھا جیسے کوئی باپ اپنے بچوں کے ماسٹر سے بچوں کے بارے میں کہتا ہے اور جب کہتا ہے تو اس کے منہ سے دودھ کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں اور ماسٹر بھی سمجھ جاتے ہیں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ سزانہ دینا، بس سمجھا دینا، اس کے بعدوہ گئو رکشک اب اور زیادہ غنڈہ گردی کریں تو اسے وزیر اعظم کے کھاتے میں لکھنا چاہیے۔

        وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ گائیں صرف پلاسٹک کھانے سے مرتی ہیں، جبکہ میڈیا مسلسل کہہ رہا ہے کہ راجستھان میں جو ایک ہزار سے زیادہ گائیں مری ہیں ان میں کچھ بھوک سے مری ہیں اور اس لیے مری ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے، اور انھوں نے ہڑتال کردی ہے، لیکن جب ۲۰ کروڑ روپے کا بجٹ ہے تو ان کا بھوسا چارہ اور دانہ تو وہاں ہونا چاہیے، وہ کھلانے کے لیے گجرات کے وہ گئو رکشک کیوں سامنے نہیں آئے جو اپنی ماں گائے کے ساتھ خود بھی ننگے ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ننگا کرکے مارتے ہیں ؟

        وزیر اعظم کو بار بار دیکھا ہے کہ وہ بولتے بولتے ایک دم سے نریندر مودی بھائی مودی بن جاتے ہیں اور وہ انداز اختیار کرلیتے ہیں جو سنگھ کے پرچارک کا ہوتا ہے، کہنے لگے کہ پہلے زمانہ میں راجہ اور بادشاہ میں لڑائی ہوتی تھی، بادشاہ اپنے لشکر کے سامنے گائے کھڑی کردیتے تھے، راجہ سوچتے تھے کہ ہم تلوار کا جواب تلوار سے دیں گے تو گائیں مرجائیں گی اور ہمیں پاپ لگے گا، اس وجہ سے وہ ہار جاتے تھے، ہوسکتا ہے کہ انھوں نے جو تاریخ پڑھی ہو یا ناگپور میں انہیں یہی تاریخ پڑھائی جاتی ہو، لیکن وہ اب دنیا کے دوسرےسب سے بڑے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور وہ جب بولتے ہیں تو امریکی صدر بھی سنتے ہیں، روسی صدر اور فرانس کے صدر بھی اور نواز شریف بھی، اور شرمندہ ہم سب ہوتے ہیں، جنھوں نے تاریخ پڑھی ہے اور وہ ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے اپنا وزیر اعظم مانتے ہیں۔

        ہم قیصر باغ میں جس جگہ رہتے ہیں وہاں برابر میں راجہ صاحب محمود آباد، راجہ صاحب سلیم پور، تھوڑے فاصلہ پر راجہ صاحب جہانگیر آباد اور نہ جانے کتنے مسلمان راجائوں کی کوٹھیاں ہیں، اگر بادشاہ کے معنی مسلمان حکمراں اور راجہ کے معنی ہندو حکمراں تو ان مسلمان راجائوں کو کس خانہ میں رکھا جائے گا؟نریندر بھائی مودی کو وزیر اعظم بنے ہوئے دو سال سے زیادہ ہوگئے لیکن وہ جب جذبات میں آتے ہیں تو وہ لہجہ اپناتے ہیں جو ووٹ مانگتے وقت ہوتا ہے۔

        گجرات کے ’’اونا‘‘ میں بے رحمی کے ساتھ چار دلت لڑکوں کی پٹائی اور ان کے زبردست احتجاج اور ابلتے ہوئے غصہ کے ڈر سے وزیر اعلیٰ کو تو تبدیل کردیا لیکن ان دو مسلمان عورتوں کو جو مدھیہ پردیش میں بھینس کا گوشت کسی تقریب میں پکوانے کے لیے یا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے فروخت کرنے جارہی تھیں، انھیں جس بری طرح پٹوایا اور بعد میں کہا کہ عورت ہو اس لیے چھوڑ دیا ورنہ جان سے مار دیتے اور ایک افسر کو یہ کہتے بھی سنا کہ ہم نے گوشت متھرا بھیجا ہے۔ امید ہے کہ وہ گائے کا ہی نکلے گا۔ اس کے بارے میں شاید کسی کی سرزنش اس لیے نہیں کی کہ مسلمان ناراض ہوجائیں تو اس سے زیادہ کیا بگاڑ لیں گے، جواب بگاڑ رہے ہیں ؟یہی بات ایسی ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ مودی صاحب بھی پکی پکائی کھانا چاہتے ہیں، پکا کر نہیں، مسلمانوں کی کانگریس سے رشتہ داری نہیں تھی اور بی جے پی سے دشمنی نہیں تھی، مودی جی ذرا ان جن سنگھیوں سے معلوم کریں جو اتر پردیش میں ایمرجنسی کے زمانہ میں جماعت اسلامی کے مسلمانوں کے ساتھ بند تھے، انھوں نے جب ہر وقت دیکھا کہ کھانا کھاتے وقت بسم اللہ اور کھانے کے بعد الحمد ﷲ اورذرا سی اچھی بات پر سبحان اللہ کہتے ہیں اور ۵ وقت پابندی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں اور فرصت میں قرآن پڑھتے اور اپنے مذہب کی باتیں کرتے ہیں تو وہ مجبور ہوگئے کہ معلوم کریں یہ سب کیا ہے؟ اور جب ان سب کا مطلب بتایا تو ہر کسی نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے، اور اکثر حضرات نے بسم اللہ، الحمد ﷲ اور سبحان ا ﷲ کہنا شروع کردیا تھا۔

        ۹؍ مہینے کے بعد جب سب رہا ہوئے تو جماعت کے لوگوں نے ان سے رابطہ باقی رکھنا چاہا، لیکن دو چار بار جانے اور ملنے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ جو لوگ جیل نہیں گئے تھے، انھیں جماعت کے لوگوں سے تعلق پسند نہیں ہے، انھیں شاید یہ احساس ہوا کہ سنگھ کے لوگ کہیں مسلمان نہ ہونے لگیں، اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے بھی جیل میں نو مہینے رہنے کے وقت دیکھی تھی۔

    ع  ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

 اس لیے کہ ہندو کے پاس کچھ نہیں ہے، جو قتل کے الزام میں بند تھے وہ تو گیتا اور رامائن پڑھتے دیکھے گئے ورنہ ہر ہندو مست مست گاتا، کھاتا اور سوتا تھا، جبکہ مسلمان ۵ وقت جماعت سے نماز پڑھتے تھے، شاید مودی صاحب اور ہر دھرم گرو کو یہی ڈر ہے کہ ہندو مسلمان نہ ہوجائے، اس لیے دلتو ں کے نخرے تو برداشت کریں گے، مایا وتی کے پائوں چھولیں گے مگر مسلمان کو نہ ساتھ لیں گے اور نہ سکون سے جینے دیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔