لہو کے داغ ملے آدمی کے دامن میں

عبیدالکبیر

جدید دور کی سائنسی ترقی نے انسانی دنیا میں جو انقلابات برپا کئے ہیں ان میں سے ایک عظیم انقلاب آلات حرب وضرب  کی فراہمی کے میدان میں بھی رونما ہوا ہے۔ آج انسانی دنیا اسلحہ سازی کے میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے پر تلی ہوئی ہے اور اس میدان میں نت نئے آلات حرب تیار کر رہی ہے۔ منجملہ ان فتوحات کے جن سے آج کی متمدن اقوام کا دامن بھرا نظر آتا ہے ایٹمی ہتھیاروں کے ہلاکت خیز نمونے بھی ہیں جو آن کی آن میں لاکھوں کی آبادی کوابدی نیند سلاکر  پیوند خاک کر سکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں جب مادی ترقی کا عروج ہوا تو دیگر میدانوں کے ساتھ دفاعی قوت کے سلسلہ میں بھی جدید تجربات کئے گئے اور کمال اہتمام کے ساتھ خطیر رقمیں صرف کرکے  ایسے آلات تیار کئے گئے جن کے استعمال نے بسا اوقات عالم انسانی کو ایک مقتل میں بدل دیا۔ اسی سلسلہ میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں وہ الم ناک سانحہ پیش آیا جس کی  تباہکاریا ں جگ ظاہر ہیں۔ حال ہی میں اس واقعہ میں ہلاک ہوئے لوگوں کی  اکہتر ویں برسی منا ئی گئی ہے۔ 6 اگست 1945 میں جاپان پر امریکی حملہ کی تباہ کاری کا اندازہ کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس  حملے نے درجہ حرارت کوچارہزار (4000) ڈگری تک پہنچا دیا تھا جس میں گھٹ کر ہزاروں زندگیاں ختم ہو گئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جاپانی قوم میں اس حملے کے اثرات ایک طویل زمانے تک محسوس کئے گئے۔ جاپان پر امریکہ کا یہ حملہ یقیناً انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ،کشت وخون کے معرکے انسانی تایخ میں بارہا گرم ہوتے رہے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کی تاریخ میں جنگ وجدال کے واقعات نہ ملتے  ہو  ں مگر انسان جسے خالق کائنات نے احسن تقویم پر  پیدا کیا ہے  وہ بذات خود اپنے ہاتھوں سے اسفل السافلین میں جا گرنے کی ایسی بھیانک کوشش کرے گا اس کا تصور بھی عام حالات میں ممکن نہیں۔ آج کی دنیا میں حقوق انسانی کا  نام بہت لیا جاتا ہے۔ دنیا کے  کچھ امن پسند ہمہ وقت اس موضوع پر بڑی دل پذیر تقریں کرتے نظر آتے ہیں۔ انسانی دنیا کو جنگ سے روکنے کے لئے مختلف محاذوں پر قومی اور بین الاقوامی مذاکرات منعقدکی جاتی ہیں اور پوری دنیا کو گویا یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اب تمام مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعہ سلجھانے کے لئے ہم سب پابند عہد ہیں۔ دنیا کے طاقت ور ممالک  کی بین الاقوامی پالیسی کا ایک رخ تو یہ ہےمگر یہ بھی حقیقت ہےآج دنیا کی ایک بڑی آبادی اور کئی ممالک کو انہی حضرات نے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ عراق ،فلسطین ،شام مصر اور لیبیا میں جتنی قتل وغارت گری کی گئی اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اسلامی دینا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے پیچھے کیا اسباب کار فرما تھے ،اور کیا اس طرح امن قائم ہوگیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک ان جیسے سوالات کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا دنیا میں امن کی بحالی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ زبان سے امن امن پکارنا اور درپردہ اسلحہ کا کاروبار کرنا کیا کسی مخلص ذہنیت کا طریقہ کار ہو سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی انسان کی اخلاقی پستی کا حال یہ ہے کہ وہ آج انسانی خون کو رنگ ونسل اور قوم ووطن کے امتیازات سے جوڑ کر اس کے قدر وقیمت کا تعیین کر رہی ہے۔ مختلف طبقہ خیال کے لوگ جب کہیں کسی حادثے کی خبر سنتے ہیں تو معاً ان کے ذہن میں جو کیفیت طاری ہوتی ہے  اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ پہلی بات لوگوں کے ذہن میں یہ آتی ہے کہ حملہ کس نے کیا ہوگا اور دوسری یہ کہ حملہ ہوا کہاں ہے۔ جب بات یہ ہے تو  ان حادثات پر لوگوں کے رد عمل کا مختلف ہونا  بھی ایک فطری بات ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر فرانس میں کسی کی نکسیر پھوٹتی ہے تو اس پر کیا تاثرات سامنے آتے ہیں جبکہ دوسری جگہوں پر اس سے کہیں زیادہ سنگین حالات پیش آنے پر بھی حقوق انسانی کے دعویدار پتھر کی مورت بنے رہتے ہیں۔ جہاں تک انسانی خون کی حرمت کا سوال  تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بجائے خود انتہائ محترم ہے۔ انسانی خون کی صحیح قدر وقیمت  کو اگر کوئی سمجھنا چاہتا ہے تو اسے اسلام کے قانون جنگ کا غیر جانبداری سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ تاریخ اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتی کہ دنیا میں انسان  کوبحیثیت فرد وجماعت  جتنی حرمت اسلا م کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے اس کی نظیر کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اسلام  انسان کا بحیثیت انسان احترام کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کی مستند کتابوں میں سیر و مغازی کے عنوان سے جو ابواب قائم ہیں ان کا مطالعہ کرکے  اسلام کی جنگی تاریخ  کو باالتفصیل معلوم کیا جا سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ آزاد مطالعہ کے ذوق سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی چیز کی تحقیق کے لئے اس کے اصل مراجع اور قابل اعتماد شارحین کی طرف رجوع کرنے کے   بجائے لوگ زبان غیر پہ بھروسہ کر بیٹھتے ہیں۔ نوع انسانی میں جب تک یہ امتیازت برقرار رہیں گے تب تک یہ دنیا ظلم کی چکی میں پستی رہے گی ۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ انسانی خون کا   تقدس با قی رہے تو اس کے لئے سب سے پہلے اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک کو اتار پھیکنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے ابنائے نوع کی لاشوں پر کالے گورے مغربی یا مشرقی نسبت کی گھٹیا سیاست سے باز نہیں آئیں گے ہمارے سارے وعدے اور معاہدے ایک مذاق بن کے رہ جائیں گے۔ دنیا میں زمینی سطح پر اصلاح کے لئے فلسفیانہ منشور اور زبانی جمع خرچ سے کہیں زیادہ  مخلصانہ جد وجہد درکار ہوتی ہے۔ ماضی میں انسانی دنیا نے جن دو عالمی جنگوں کا مشاہدہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ طے  کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ امن کا راستہ کس طرح ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ان دونوں جنگوں کی ہلاکت خیزیاں موجود ہیں۔ اس میں غور کر کے سمجھا جا سکتا ہے کہ جنگ محض مذہبی جنون کے زیر اثر نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے پیچھے کچھ اسباب وعوامل اور بھی ہو سکتے ہیں۔

تلاش قاتل انسانیت میں نکلے تھے

لہو کے داغ ملے آدمی کے دامن میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔