بے نشاں

تبسم فاطمہ

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

کبھی کبھی زندگی ہی سمجھ میں نہیں آتی اور منزلیں کھو جاتی ہیں— عمر بڑھتی ہے تو زندگی کے سفر میں سب کچھ کتنا پیچھے چھوٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیر سپاٹے یا گھومنے پھرنے کی شوقین نہیں رہی میں… پھر سوچتی ہوں اپنا ملک ہی کتنا دیکھا ہے میں نے— اپنا ملک ہی دیکھ لوں تو سوچ لوں گی… ساری دنیا دیکھ لی ہے… دو برس پہلے ہمانچل پردیش کے ضلع کنور جانے کا اتفاق ہوا تو جیسے آنکھوں میں چمک آگئی۔ کیا میں سچ مچ اپنے ملک میں ہوں۔ کیا سچ مچ ایسا بھی ہوتا ہے— کیا سچ مچ ایک مہذب دنیا میں آج بھی ایسی رسمیں ہوتی ہیں…

میں کنور سے واپس آگئی … دوسال گزرگئے… لیکن وہ کہانی… ایسا لگتا ہے… وہی کہانی ابھی ابھی شروع ہوئی ہے…

میں اس ایک منظر میں گم ہوں… وہ منظر جیسے میری آنکھوں کے آگے فریز ہوگیا ہے… پتوں کے چڑمڑانے کی آوازیں… سند ھو نائیک کا خوفزدہ چہرہ… سندھونائیک کون…؟ لیکن شاید یہ تذکرے آگے آئیں گے۔ کچھ اور بھی چہرے ہیں—  بھاگتے ہوئے کچھ لوگ…گھاس کے چڑمڑانے کے درمیان وہ ہانپتے ہوئے دیو کو دیکھتی ہے ۔ دیو ٹھہرتا ہے پھر تیزی سے بھاگنا شروع کرتا ہے… اس کے ٹھیک پیچھے باجوری ہے— ہاتھ میں گنڈاسا لیے… باجوری کے پیچھے چلاتے ہوئے گائوں والے… باجوری اور دیو کا فاصلہ کم رہ گیا ہے… باجوری کے گنڈاسا چلاتے ہی جیسے فضا ساکت ہوگئی ہے… آسمان پر اڑتے پرندے ٹھہر گئے ہیں…

کنور… دور تک پھیلا ہوا کیلاش پروت — برف پوش وادیاں… لیکن کہاں معلوم تھا کہ اس علاقہ میں ایسی بھی پرتھائیں رہی ہونگی۔ ایک اکیلی لڑکی پانچ پانچ مردوں سے بیاہی جارہی ہوگی۔ پانچ پانچ مرد— اگر کسی گھر میں پانچ بھائی ہیں تو وہ سارے کے سارے اس لڑکی کے شوہرہوں گے۔ اور ان میں سے کسی لڑکے کی عمر بہت کم ہے تو وہ بالغ ہوکر اپنے حق کو حاصل کرسکتا ہے— یہیں، ان وادیوں میں تو ملی تھی باجوری…

باجوری تو باجوری تھی۔ ہوائوں میں اڑتی تھی۔ تتلیوں کے پیچھے بھاگتی تھی… پہاڑی جھرنوں کے درمیان کسی میمنے کو اپنی آغوش میںلیے چنچل سی بھاگتی تھی… اور کبھی کبھی انہی پہاڑیوں کے درمیان سندھو نایک ٹکرا جاتا— کندھے سے دوربین لگائے— بڑے بڑے بالوں والا۔ دوہی شوق تھے۔ تصویریں اتارنا ، گھر پر پینٹنگس بناتا— اسے اچھی لگتی تھی یہ باجوری— وہ اکثر چپکے سے چھپ کر اس کی تصویریں کھینچ لیتا… اس دن بھی… ہوائوں میں اڑتی تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والی باجوری اچانک کانٹے میں الجھ کر گر پڑی—پائوں زخمی…

سندھو دوڑ کر آیا… اس کے پائوں سے نکلتے خون کو پوچھا۔ کسی پتے کا توڑ کر رس ملا۔ رومال نکال کر پائوں کو باندھا… مسکرا کر بولا۔

’’آگے… مت دوڑنا اتنا تیز…‘‘

کیوں…؟ باجوری شرارت سے مسکرائی۔

’’پنکھ کٹ جاتے ہیں۔‘‘

’’میرے پنکھ کہاں ہیں…؟ ‘‘باجوری نے بانہیں ہوا میں پھیلائیں…

’’ہے نا… مجھے دکھ رہے ہیں… دیوتا کہتے ہیں۔ زیادہ اڑنے سے پنکھ کٹ جاتے ہیں…‘‘

باجوری گھر پہنچی تو ماں بولی— ’’اپنے پنکھ کو سنبھال کر رکھ— تجھ پر ذمہ داری آئے گی۔‘‘

ماں کے پاس بیٹھ گئی باجوری—’’ زیادہ اڑنے سے پنکھ کٹ جاتے ہیں؟‘‘

’کس نے کہا—؟‘ ماں نے سمجھایا… ’تین شوہر تھے میرے — دو مرے تو تیسرے نے سنبھال لیا۔ تو تو پنچالی ہوگی۔ تیرے اڑنے سے بھی پنکھ نہیں کٹیں گے۔‘

ΟΟ

اس دن بچوں کے ساتھ کھیلتی باجوری دوڑتے ہوئے ایسی جگہ چلی گئی جہاں نیچے ڈھلان تھی۔ سندھو نے پکڑ کر کھینچا…

’’ابھی تیرے پنکھ کٹ جاتے—‘‘ سندھو بولا۔

’نہیں کٹیں گے— ماں کہتی ہے ، کئی شوہروں سے میری شادی ہوگی۔ وہ میرے پنکھوں کو سنبھال لیں گے۔‘

’’تو بھی ایسا چاہتی ہے…؟‘‘

باجوری کی چمکتی آنکھوں میں’ نا‘ تھی… میمنوں کے درمیان بھاگتے ہوئے پلٹ کر دیکھا باجوری نے سندھو کو… ان آنکھوں میں محبت کی بارش تھی… پہلی پہلی چاہت کا احساس۔

ΟΟ

سندھو اپنی پینٹنگس بیچنے دہلی آیاتھا… رایل ایجنسی کا مالک شوبھدیو، پینٹنگس دیکھی— ناک بھنو چڑھائی…

’’لینڈ اسکیپ اب ڈمانڈس میں نہیں…کچھ نیا لائو…‘‘

’’میں نے کچھ تصویریں کھینچی ہیں…‘‘ سندھو نے فوٹو گرافس دکھائے…

’’یہ کون ہے…؟‘‘

سندھو نے دل میں کہا…’’ ایک کہانی جو شروع ہونے والی ہے…‘‘

لیکن کہانی شروع نہیں ہوسکی… شراب کی بوتلیں کھلیں— اور پانچ شوہروں والے گھر سے باجوری کا رشتہ طے کردیا گیا…دوڑتی ہوئی باجوری جنگلوں میں نکلی… سندھو کو دیکھنے۔ وہ کہیں نہیں تھا… وہ ایک دروازے پر ٹھہری… اندر چلی آئی…ایک بڑا سا کمرہ… یہاں سندھو کی پینٹنگس لگی تھی۔ ایزل پر بھی ایک ادھوری پینٹنگس تھی… چاروں طرف بھی— باجوری ہی باجوری تھی— لیکن سندھو نہیں تھا۔ ایزل پر اس کی ادھوری پینٹنگس تھی۔ روتے ہوئے اس نے برش لال رنگ میں ڈبویا… اور پینٹنگس کے آدھے حصے میں لال رنگ ڈال دیا…

باجوری بھاگ رہی ہے… ڈھول باجے کی آواز ابھرتی ہے… وہ بھاگ رہی تھی… ڈھولک کی آواز تیز۔

ΟΟ

باجوری کے جسم پر ابٹن… دلی سے واپس ہورہا ہے سندھو۔ رسم ورواج— باراتیوں کا گان… جدائی— بڑابھائی آشو توش، باجوری کے ساتھ کار میں بیٹھتا ہے…

سندھو گھر پہنچتا ہے— ادھوری پینٹنگس۔ سرخ رنگ… تبھی اس پینٹنگس سے ایک زور کی چیخ گونجتی ہے۔ سندھو اس چیخ کے پیچھے بھاگتا ہے۔ لیکن باجوری تو کھوگئی ہے۔ باجوری شادی کے بعد سسرال آجاتی ہے۔ اب نیا گھرہے۔ اس کا سسر اسے اپنے بیٹوں سے ملواتا ہے… آشوتوش، نرنجن، دیواکر، مکل، دیو…

سسر کہتا ہے… دیو ابھی پندرہ سال کا ہے… وہ دیو کو دیکھتی ہے… شرمایا سا دیو… آگے بڑھ کر وہ دیو کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے…

رات— آسمان پر نیلا چاند— سہاگ رات یا بلاتکار کی رات… باہر نرنجن، دیواکر، مکل آگ جلائے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے۔ شراب پیتے… ایک طرف کواڑ کے پاس کھڑا پندرہ سالہ دیو…

باہر جنگلوں میں کوئی گٹار بجا رہا ہے…

ٹوٹ رہی ہے باجوری… پہلی ہی رات… آشوتوش کے بعد نرنجن… پھر دیواکر… اور اب مکل…

کواڑ کے پاس کھڑا دیو دیکھتا ہے… مکل نکل کے جاتا ہے… سہما سا دیو آگے بڑھتا ہے… باجوری کے دروازے تک جاتا ہے…

اندر ادھ مری باجوری ہے… لمبی لمبی سانسیں لیتی… کواڑ کے پٹ سے دیکھتا ہے دیو… واپس لوٹتا ہے…

باجوری اٹھتی ہے… چہرا آنسوئوں سے تر— کھڑکی کھولتی ہے… جگمگاتے چاند میں سامنے ہے— گٹار لیے سندھو—سندھو کی آنکھوں میں لرزتا ہوا قطرہ ہے۔ کوئی اس کے اندر کہتا ہے—

 ’’آدھی رات کے چاند میں میں نے پہلی بار باجوری کے پنکھوں کو سلگتا دیکھاہے۔‘‘

ΟΟ

پھر باجوری کی زندگی ہی بدل گئی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ کس شوہر سے محبت کرے اور کس سے نہیں۔ ایسے میں دیو اس کا سہارا بنتا ہے۔ دیو میں کہیں نہ کہیں وہ اپنے بچے کا عکس دیکھ رہی تھی… دیو کو اسکول بھیجنا… اس کے کپڑے تہہ کرنا… پیار سے اس کے سر کو گود میں رکھ لینا۔ وہ رات ہونے کے احساس سے ڈرتی تھی۔ مکل اس کے احساس کو سمجھتاتھا۔ شاید اسی لیے باقی چار شوہروں میں وہ مکل سے جذباتی سطح پر قریب تھی۔

ΟΟ

اس دن میمنوں کے ساتھ سندھو نایک سے دوبارہ ٹکرائی تھی…باجوری … سہمی ہوئی… میمنے کے ساتھ ایک سہمی ہوئی میمنے جیسی باجوری… سندھو نے اس تصویر کو کیمرہ میں قید کردیا۔ اچانک دونوں کی نظریں ملیں… باجوری اندر تک درد کے احساس کو سمیٹتی آگے بڑھ گئی…

ΟΟ

’’کون ہے یہ…؟‘‘ دہلی میں رایل ایجنسی کے مالک نے پوچھا… سندھو نے دل میں کہا— اڑنے سے پہلے ہی پنکھ کٹ گئے جس کے۔

ΟΟ

ادھر کہانی کروٹ لیتی ہے۔ نرنجن شرابی ہے۔ اسے احساس ہے کہ باجوری اسے نہیں چاہتی۔ وہ مکل کو چاہتی ہے… آشوتوش پہاڑیوں پر چلا گیا ہے… ادھر باجوری ماں بننے والی ہے… مکل اس احساس کو سمجھتا ہے… چاندنی رات میں وہ باجوری کے ساتھ ہی ہے۔ تبھی کھٹاک سے دروازہ کھلتا ہے۔

حیوانیت لیے نرنجن، باجوری اور مکل کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔ نرنجن کہتا ہے— میری بیوی ہے… میں کچھ بھی کروں…

مکل روکتا ہے— باجوری کی طبیعت خراب ہے… نرنجن نہیں مانتا تو مکل لوہے کے چھڑ سے حملہ کرتا ہے… نرنجن چیخ کے ساتھ گرتا ہے… دروازوں کی اوٹ میں سہما سا کھڑا ہے، دیو۔

مکل کو ایک ماہ کی جیل ہو جاتی ہے…

باجوری کی زندگی میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔

ΟΟ

جلتی ہوئی آگ… رات کا اندھیرا— نرنجن پی رہا ہے۔ دیو اسے دیکھ رہا ہے، نرنجن کہتا ہے… تو بھی پیئے گا…

’’نہیں‘‘

نرنجن ہنستا ہے… ’’تو بھی شوہر ہے اس کا۔ تیرا بھی وقت آئے گا۔‘‘

باجوری مکل سے ملنے جیل جاتی ہے… سندھو دیکھتا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے تو باجوری کہتی ہے— ’’اب کیا لینے آئے ہو…‘‘

’کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تم نے جلدی کردی…‘

باجور ی نے آنسو سمیٹ لیے ہیں—

’میں تمہارے پاس گئی تھی…‘

’انتظار تو کرسکتی تھی میرا…‘

قسمت کو یہ انتظار کہاں منظور تھا—‘

روتی ہوئی باجوری بھاگ کھڑی ہوئی تھی—

ΟΟ

ادھر باجوری آلوک کو جنم دیتی ہے… زندگی میں نئی ہوا کے خوشگوار جھونکے لہراتے ہیں۔ دیو آلوک سے مل کر خوش ہے… دیو کو آلوک کے ساتھ دیکھ کر ایک مکمل سکھ ملتا ہے باجوری کو۔ مکل جیل سے واپس آجاتا ہے۔ نرنجن اور مکل کے درمیان کے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ یہ فاصلے اتنے بڑھ گئے کہ مکل روزگار کے لیے شملہ جانے کا فیصلہ کرتا ہے…

وقت پنکھ لگا کر اڑجاتا ہے۔

آلوک تین سال کا ہوگیا ہے۔ لیکن ان تین برسوں میں بالغ دیو میں ایک جوان مرد کی واپسی ہوتی ہے… کبھی کبھی اس کی گدھ جیسی آنکھوں سے ڈر جاتی ہے… باجوری۔

ایک دوپہر جب دیو کے لمس میں ایک مرد کو دیکھتی ہے تو باجوری چلااٹھتی ہے…

’’تم میں اور آلوک میں میں نے کوئی فرق نہیں— سمجھا…‘‘

’’میں بھی شوہر ہوں تمہارا…‘‘

باجوری تھپڑ مارتی ہے…

ΟΟ

اُس دن میمنوں کی تلاش میں کھیت کی طرف جاتے ہوئے وہ اچانک سندھو کے دروازے کی طرف مڑ جاتی ہے… آس پاس کوئی نہیں… وہ اندرجاتی ہے۔ یہاں اس بار وہ کہیں نہیں ہے۔ صرف وہ ادھوری سی تصویر ہے… سرخ رنگ… سندھو واپس آتا ہے… اور لرزتی ہوئی باجوری اس کے جسم میں سماتی ہے…

’میرا جسم کبھی میرا جسم نہیں لگا۔ ان تین برسوں میں بس پیاس جمع کرتی رہی…‘

کپڑوں کو ٹھیک کرتی … سانسیں برابر کرتی کب نکلی باجوری، پتہ بھی نہیں چلا۔

ΟΟ

اور پھراُسی رات دیو نے نرنجن کے ساتھ شراب پی— باجوری مکل کا انتظار کررہی تھی… اچانک دروازہ کھلا… سامنے دیو … اس نے دیو کو سمجھایا، لیکن دیو پر جیسے نشہ چھایا ہواتھا۔ باجوری تڑپ اٹھی اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو سامنے گنڈاسا نظر آگیا باجوری نے گنڈاسا اٹھا لیا… دیو ڈر کر بھاگا— باجوری جب گنڈاسا اٹھائے بھاگی تو نرنجن، مکل اور آشوتوش بھی بھاگے…

ΟΟ

دوڑتے ہوئے لوگ… اندھیرے میں گنڈاسا پر چمکتے خون کے قطرے کے ساتھ ایک مردانی تیز چیخ…

آسمان پر چمکتا ہوا چاند

اور نیچے تنہا باجوری…

ΟΟ

میں خوف کی ان پہاڑیوں سے باہر نکل آئی ہوں… چھوٹے چھوٹے جگمگاتے تارے… دیکھتے ہی دیکھتے یہ تارے باجوری کے چہرے میں تبدیل ہوجاتے ہیں…عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے… فنا ہو جانا یا کھوجانا ہی ان بہاروں کی آخری منزل ہے کیا…؟

تبصرے بند ہیں۔