خواب‘ حادثہ اور منٹو

مشرف عالم ذوقی  

میں اُسے تین چار دنوں سے دیکھ رہی تھی۔ کب، کہاں … شاید یہ سب سلسلہ وار بتا پانا میرے لیے ممکن نہیں ہے یا پھر آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک ایسے نفسیاتی خوف کا شکار ہوں ، جس کی وجہ سے کچھ بھی بتا پانے میں قاصر ہوں۔ راتوں کو اچانک انجانے خوف سے میری آجکھیں کھل جاتی ہیں۔ پھر لگتا ہے کسی اجنبی سڑک یا بس میں ہوں۔ پھر لگتا ہے پولس کی ایک وین میرے سامنے یا بس کے آگے آکر رکتی ہے۔ چاروں طرف پولس والے پوزیشن لیے… پھر سڑک پر گول گول دائروں کے درمیان پڑی ایک خون سے سنی ہوئی لاش— ان کاؤنٹر یا فرضی مڈبھیڑ کی ایک کہانی۔ عہدے اور ترقی کا خواب دیکھنے والے اپنی بہادری کی رپورٹ حکومت تک پہنچانے میں مصروف…

نہیں ، شاید اب یہ سب آپ کو بتانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتی ہوں۔ میں اسی قوم کی ایک اقلیت لڑکی ہوں ، اعداد شمار کے مطابق، جنہیں اب 20-25 کروڑ سے کم شمار کرنا یک بھول ہی کہی جاسکتی ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ ہمارے رہنماؤں ، سیاسی لیڈروں نے اتنی بڑی آبادی، جو کسی ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے، ہوتے ہوئے بھی ہمیں اقلیت ہونے کی ذہنیت میں کیوں قید کر رکھا ہے۔ جانے دیجئے، میں سیاسی کھیلوں کے اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی۔ میں تو صرف اس خواب کی طرف آنا چاہتی ہوں ، جس نے مجھے یکایک چونکا دیا تھا۔

سفید، میلے کرتے پائجامے میں۔ چپّل ٹوٹی ہوئی۔ آنکھوں پر ایک بیحد پرانے قسم کا چشمہ، آنکھیں ایسی کہ خطرناک نظر آنے والے گدھوں کی آنکھوں میں بھی وہ چمک نہ ہو۔ مگر اس وقت اس چمک کی جگہ ایک گہری سنجیدگی نے لے لیا تھا۔

وہ میرے کمرے میں تھا۔ لکھنے والی میز پر۔ میری اجازت کے بغیر۔ کاغذ بکھرے پڑے تھے۔ سگریٹ پی پی کر اس نے اپنے دانت سیاہ، اور انگلیوں کو زرد کر لیا تھا۔ بال بکھرے تھے، جس میں کنگھا کرنے کی ضرورت اس نے بالکل بھی محسوس نہ کی تھی۔

میں اسے گذشتہ تین دن سے دیکھ رہی تھی۔ پہلے دن تو میں ڈر ہی گئی تھی۔ میرے کمرے میں ایک مرد… میں ڈر کر تھوڑا کانپتے ہوئے پوچھا تھا۔

’کون ہو تم…؟‘

’آہ… مسٹیک ہوگیا‘ وہ بہت آہستہ سے بولا۔

’کیا لکھ رہے ہو…‘

اس نے میری طرف نگاہ مرکوز کی—

رمیش جو اب دینے کی حالت میں ذرا سا ’ہل‘ گیا تھا۔ میں نے دوسری بار بوڑھے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔

تبصرے بند ہیں۔