کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے!

حفیظ نعمانی

راجستھان کی ریاست الور میں یکم اپریل کو یعنی تقریباً ایک مہینہ پہلے ایک شرمناک واقعہ پیش آیا تھا کہ جے پور کے مویشی میلے سے دودھ دینے والی گائیں خریدکر چند مسلمان ہریانہ لئے جارہے تھے الور میں ان کی گاڑی کو روک کر غنڈوں کی ایک بھیڑ نے ان مسلمانوں کو اتارا اور الزام لگایا کہ وہ گایوں کو اسمگل کرکے لئے جارہے ہیں ۔ گائے لانے والوں کے پاس خریداری کی رسیدیں تھیں وہ دکھانے پر بھی بھیڑ نہیں مانی اور مارپیٹ شروع کردی جن میں ایک پہلو خاں نام کے مسلمان کو سب نے پیٹ پیٹ کر لاتوں گھونسوں سے اتنا مارا کہ اس نے اسپتال میں جاکر دم توڑ دیا۔ اس واقعہ میں اہم بات یہ ہے کہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا اور جب بعد میں پولیس سے معلوم کیا گیا کہ ان کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ تو ان کا جواب تھا کہ ان کے پاس خریداری کے کاغذ تو تھے۔ دوسری ریاست لے جانے کے پرمٹ نہیں تھے۔ یعنی ویزا نہیں تھا۔

اسی وقت راجستھان کے وزیر داخلہ نے بھی جو بیان دیا وہ حیران کرنے والا تھا۔ اور اب وزیر اعلیٰ رانی وسندھرا نے ایک مہینہ کے بعد یعنی 26  اپریل کو کہا ہے کہ پہلو خاں کے قتل جیسی وارداتیں برداشت نہیں کی جائیں گی اور کوئی بھی قصوروار بچ نہیں پائے گا۔ جبکہ پہلو خاں کے چچا نے الزام لگایا ہے کہ ملزم کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے میڈیا سے کہا کہ کئی لوگوں کو گرفتار کیا بھی گیا ہے اور پولیس جانچ کررہی ہے۔

جس پولیس کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ جانچ کررہی ہے اس کا ایک برتائو تو وہ تھا کہ اس کے سامنے پہلو خاں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور وہ ریاست سے باہر لے جانے کے پاسپورٹ اور ویزے کی بات کرتی رہی۔ دوسرا نمونہ وہ ہے جو چند دن پہلے نظر آیا کہ ان میں سے ایک نیلی شرٹ والے بدمعاش کو تین پولیس والے عدالت یا کہیں اور لے جارہے تھے اسے ایک پیلی ساڑی والی عورت نے روک کر آدھے گھنٹے تک اس کی تعریف کی۔ اسے بھگت سنگھ اور چندرشیکھر آزاد جیسا بتایا کہ اس نے اپنی گئوماتا کو بچانے کے لئے سب کچھ کیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ تینوں پولیس والے اس آوارہ عورت کے سامنے خاموش کھڑے رہے یہ نہیں کیا کہ اسے بھی ہتھکڑی لگاکر ان کے ساتھ ہی لے جاکر بند کرادیتے۔ جس نے ایک رپورٹر سے کہا پہلو خاں ان گئو رکشکوں کے مارنے سے نہیں مرا ہے بلکہ وہ دہشت سے مرگیا۔

یوں تو ان چند ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے گئو رکشک غنڈوں کی ٹولیاں آزادانہ گھومتی رہتی ہیں ۔ لیکن راجستھان میں تو انہوں نے اپنی چوکیاں قائم کرلی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پولیس چوکیاں گایوں کی اسمگلنگ نہیں روک پاتی وہ پیسے دے کر چھوڑ دیتی ہے اس لئے ہم نے چوکیاں بنائی ہیں اور یہ چوکیاں پورے راجستھان میں ہیں جو غنڈوں کے اڈے ہیں اور وزیر اعلیٰ رانی وسندھرا کہہ رہی ہیں کہ ایسی وارداتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ راجستھان کے جے پور میں ایک بہت بڑی سرکاری گئوشالہ ہے، سنا ہے اس کا بجٹ کئی کروڑ ہے۔ ٹی وی کیمروں کی بدولت پورے ملک نے دیکھا ہے کہ وہاں نہ جانے کتنی گائیں ایسی ہیں جو اپنے ہی پیشاب اور گوبر میں دبی پڑی ہیں اور وہ زندہ ہیں لیکن نہ ان کو کوئی چارہ دینے والا ہے نہ پانی دینے والا۔ اس کے بعد کم از کم راجستھان کے کسی ہندو کو گئو رکشک اپنے کو کہنے کا حق نہیں ہے یہ سب وہ غنڈے بدمعاش ہیں جو بے روزگار ہیں اور جنہیں سنگھ پریوار نے آوارہ کتوں کی طرح  چھوڑ دیا ہے پہلو خاں کے چچا نے بتایا ہے کہ جولڑکے گائیں لے کر جے پور سے آرہے تھے ان کی جیبوں میں روپئے بھی تھے وہ سب ان غنڈوں نے لوٹ لئے۔ جو اس کا ثبوت ہے کہ یہ چوکیاں بنائی ہی اس لئے گئی ہیں کہ غنڈے عیش کریں ۔

پیٹ پیٹ کر مارنے کی واردات گولی مارنے اور تلوار سے قتل کرنے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ دہشت ناک ہے۔ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس نے دیکھا ہو وہی سمجھتا ہو۔ اسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جلاکر مارنا اور پیٹ پیٹ کر مارنا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ جس ریاست کی وزیر اعلیٰ واقعہ کے بعد 26  دن تک کان میں روئی لگائے بیٹھی رہے اسے کیا حق ہے کہ وہ ایک مہینہ کے بعد ناٹک کرے۔ وسندھرا رانی کی ریاست میں ایک شرمناک واقعہ ہوا ہے۔ ان کا وزیر داخلہ اس کا اہل ہی نہیں ہے کہ اسے تھانیدار بھی بنایا جائے۔ اگر ذمہ داری کا احساس ہوتا تو اب تک پیلی ساڑی والی رنڈی کے ساتھ ساتھ سب گرفتار ہوچکے ہوتے اور پہلو خاں کی جان کا معاوضہ 50  لاکھ دے بھی دیا جاتا۔ اگر رانی ہوتے ہوئے انہیں نہیں معلوم کہ ان کے باپ دادا راجہ رانی کیا انصاف کرتے تھے تو وہ اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ سے معلوم کرلیں کہ کسی کو پیٹ پیٹ کر مارنے کے الزام میں انہوں نے کتنے گرفتار کئے اور مرحوم کے گھر والوں کو کتنا معاوضہ دیا؟ جبکہ پہلو خاں کے گھر والوں کا الزام ہے کہ حکومت کی طرف سے ان سے ابھی تک کسی نے بات بھی نہیں کی۔

ہم نے جس پیلی ساڑی والی عورت کا ذکر کیا ہے اس سے این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹر نے جو اس وقت موجود تھی جب وہ عورت ملزم غنڈہ سے بات کررہی تھی معلوم کیا کہ ایک نوجوان کو جس نے انتہائی شرمناک کام کیا ہے اسے یہ مشورہ دینے کے بجائے کہ تم پڑھے لکھے ہو اچھے گھر کے بھی معلوم ہوتے ہو غنڈہ گردی کرنے کے بجائے تم کو تو پہلو خاں کو بچانا چاہئے تھا۔ کیونکہ وہ رسیدیں دکھا رہا تھا کہ وہ میلہ سے خریدکر لائے ہیں ۔ اور جانوروں کے بازار لگتے ہی اسی لئے ہیں کہ اپنی ریاست اور ملک کی جس ریاست کے لوگ اچھی گائیں خریدنا چاہیں وہ راجستھان آئیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گایوں کے خریدار ہندو بھی آتے ہیں اور مسلمان بھی۔ اگر ایسی وارداتیں ہونے لگیں تو خریدار آنا بند ہوجائیں گے۔

مگر وہ عورت جس کا نام کمل تھا اپنی بات پر اَڑی رہی اور کہتی رہی کہ بہت ہوچکا اب یہ برداشت نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک میں ہی رہیں اور ہماری گئوماتا کو کاٹ کر کھائیں ۔ رپورٹر خود ہندو لڑکی تھی وہ کیا جواب دیتی اگر ہم ہوتے تو ضرور کمل سے کہتے کہ تم سے کیا بات کریں اپنے باپ دادا کو بلائو تو ہم ان سے معلوم کریں کہ 75  برس پہلے بلکہ صوبوں میں کہیں کہیں قانون بننے کے بعد گائے کاٹنا بند ہوا ہے۔ ورنہ پورے ہندوستان میں ہزاروں گائیں روز کٹتی تھیں اور کھائی جاتی تھیں ۔ رہا ملک تو تم کیا ہو ملک تو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا ہے اور ان کے ملک کے بنگال اور کیرالہ میں سیکڑوں گائیں کٹ رہی ہیں ۔ گوا میں اور شمالی مشرقی ریاستوں میں جہاں مودی جی کی حکومت ہے آج بھی کٹ رہی ہیں اور ملک کے نائب وزیر داخلہ تو خود بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں ۔ اس لئے ان باتوں سے کیا فائدہ؟ رہا ملک تو وہ بھی تم جیسوں کا نہیں ہے۔ ملک سب کا ہے اور غنڈوں کا بالکل ہی نہیں ہے۔

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو اس معاملہ میں بولنا چاہئے اس لئے کہ اب مسلمان بھی بھینس پالنے کے بجائے گائے پالتے ہیں کہ اب گائیں بھی زیادہ دودھ دینے والی آگئی ہیں اور دودھ گاڑھا بھی ہوتا ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کھانا کم اور گندگی بہت کم۔ ہم خود گائے پالنا چاہتے ہیں مگر کوئی نوکر نہیں ملتا جو اس کی خدمت کرسکے۔ الور میں جو ہوا وہ صرف خریدنے والوں کے لئے نہیں ریاست کا بھی نقصان ہے۔ صوبہ کی حکومت کو اس کا خیال کرنا چاہئے اور غنڈہ گردی کی سرپرستی کرنا ان کے گلے کی بھی ہڈی بن سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔