نفرت وتشدد کے اسباب  اہل خرد کی نظروں  سےاوجھل نہیں ہیں لیکن…!

عمیر کوٹی ندوی

ہمارے  ملک  میں ہر شعبہ، ہر طبقہ اور ہر سطح پر نفرت کے جو بیج عرصۂ دراز سے بوئے جارہے تھے اب وہ دنوں دن تناور درخت کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں تو ان کی جڑیں بھی گہری سے گہری تر ہوتی جارہی ہیں ۔گزشتہ چند برسوں سےلوگ ملک گیر سطح پرجس ہیجانی کیفیت ، نفرت اور تشددکا مشاہدہ کررہے ہیں اس نے کیا کیا گل کھلائے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں اب تک نہ جانے کتنوں کی جان گئی، کتنے گھر اجاڑ دئے دگئے۔ یہ سلسلہ اب بھی  تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ سیاست اور اقتدار کی آمیزش نئے نئے گل کھلا رہی ہے۔ یہ بات بہت دنوں سے کہی جارہی تھی کہ تعلیم کا بھگوا کرن کیا جارہا ہے۔ کیا پرائمری اور کیا اعلیٰ تعلیمی مراکز ہر جگہ  ایک فکر کو پروان چڑھانے اور ہر شئی کو ایک رنگ میں رنگ دینے کی کوشش زوروں پر ہے۔نصاب تعلیم سے چھیڑ چھاڑ،  اوقات تعلیم پرائمری کلاسز میں وندنا اور سوریہ نمسکار جیسی سرگرمیوں سے ہوتے ہوئے بات اسکول بیگ اور یونیفارم تک جاپہنچی ہے۔ ایک خاص منزل کی طرف گامزن اترپردیش حکومت نے پرائمری اسکولوں کے طلباء کی یونیفارم اور اسکول بیگ کی تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خبروں کے مطابق اسکول بیگ کا ڈیزائن فائنل کردیا گیا جب کہ یونیفارم  کے رنگ کے تعلق سے ابھی کوئی بات طئے نہیں ہوئی ہے۔ ہاں خاکی رنگ کی اسکول یونیفارم کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی باتیں  بھی ہورہی ہیں اور مشورے بھی دئے جارہے ہیں ۔

دوسری طرف ایچ آرڈی  منسٹری ہے جس پر اعلیٰ تعلیم کے بھگواکرن کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ آر ایس ایس کی اس ادارے سے قربت اور اس کی سرپرستی پر بھی بہت کچھ کہا لکھا گیا ہے۔ حیدرآباد اور جواہرلال یونیورسٹیوں کے ماحول کو خراب کرنے اور بھگواذہنیت کے وہاں پر نفوذ کی باتیں بھی گزشتہ دنوں خوب ہوئیں ۔ ان ہی سب  میں روہت ویمولا کی جان چلی گئی اور نجیب آج تک لاپتہ ہے۔ ملک کے عوام نے "محب وطن” اور "غدار وطن” کا من پسند استعمال بھی دیکھا۔ طلباء کو سلاخوں کے پیچھے جاتے اور  سرعام سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں "دیش بھکتی” کے نام پر تشدد کا نشانہ بنتے بھی دیکھا۔ آج بھی جو کچھ ہورہا ہے وہ "دیش بھکتی "کے ہی نام پر ہورہا ہے۔ گویا  آج صرف وہی دیش بھکت ہیں جو ایک خاص فکر ونظریہ کے حامل ہیں یا اس کے حامل طبقہ اور  بی جے پی اور آرایس ایس جیسی ان کی نمائندہ جماعتوں اور اداروں کی حمایت کرتے ہیں ۔  ان کے علاوہ  باقی سب دیش دروہی  ہیں ۔ اعلیٰ تعلیمی مراکز میں اظہار خیال کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش مسلسل کی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میڈیا اور دانشگاہوں سمیت اظہار خیال کے جتنے بھی مراکز اور میدان ہیں ان پر اپنا شکنجہ کسنے اور زباں بندی کے ضابطہ کو نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

ان سب کے درمیان ملک کی شناخت کو قائم رکھنے اور موجودہ حالات کو بدلنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔یہ کوششیں ملک کے اعلیٰ ترین مناسب پر فائز اہم شخصیات کی طرف سے بھی ہورہی ہیں اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے سنجیدہ اور مخلص طبقوں اور شخصیات کی طرف سے بھی۔ حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی کی صدسالہ تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے کہا ہے کہ "یونیورسٹیاں طلباء اور اساتذہ کے لئے اپنے خیالات کے تبادلہ کا ایک پلیٹ فارم ہیں "۔ انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی اس بات کو نقل کرتے ہوئےکہ "یونیورسٹیوں کا ماحول ایسا ہونا چاہئے  جہاں خیالات کےآزادانہ تبادلہ  پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہ ہو۔ طلباء اور اساتذہ بنا کسی دباؤ کے اپنی بات کہہ سکیں ” کہا کہ وہ بھی پنڈت نہرو کے ان خیالات  کی تائید کرتے ہیں ۔اسی طرح نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے آرمینیا کی راجدھانی یریوان میں واقع اسٹیٹ  یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ” آج کی دنیا کو جینے،ڈھنگ سے جینے، پرامن طور پر جینے اور کسی انسانی یا فطری خطرات اور اندیشوں کے بغیر جینے کے محاذ پر آزمائشوں کا سامنا ہے”۔ اس موقع پر انہوں نے ہندوستان کے حوالے سے کہا کہ "ہندوستان کے لوگ سیکولرزم کے پابند ہیں اور دستور ہند تمام تر بنیادی انسانی حقوق کا ضامن اور پاسدار ہے باوجود یہ کہ تشدد کے واقعات ہوتے ہیں جو ایک سچائی ہے جسے بہرحال عام تائید حاصل نہیں ہے”۔

نائب صدر جمہوریہ نے بات بالکل درست کہی ہے۔ ہمارے ملک میں تشدد کے واقعات اور نفرت کے ماحول کو  یقیناً عام تائید حاصل نہیں ہے،اس کے باوجود  تشدد کے واقعات رونما  ہورہے ہیں ۔  اس لئے تشدد کے واقعات اور نفرت کے ماحول پر قابو پانے  اور اس سلسلہ میں موجود رائے عامہ کو متحد کرنے کےساتھ ساتھ ان کے اسباب کا بھی پتا لگاناضروری ہے ۔اس سلسلہ میں کیرالہ کے وزیر اعلی ٰ پینیا رائے وجیان کی اسمبلی میں کہی گئی یہ بات اہم ثابت ہوسکتی ہےکہ "سنگھ اپنے نظریات کے مطابق بچوں کو پرتشدد بنانے پر تلا ہوا ہے……آر ایس ایس بچوں کو تشدد کا سبق پڑھا کر انہیں قتل کرنے کی تربیت دے رہی ہے…… طلباء اور بچوں کو بھی قتل کی ٹریننگ دی جارہی ہے”۔

گزشتہ ماہ کیرالہ کے ضلع کسار گوڈ کے چورو گاؤں میں مدرسہ اشاعت الاسلام کے استاد کو ان کے حجرے میں گھس کر ہلاک کرنے  کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "مدرسہ کے مولوی کا قتل کرنے والے شخص کی ان سے نہ تو کوئی رنجش تھی اور نہ ہی کوئی شکایت اس کے باوجود اس نے ان کا قتل کردیا صرف مذہب کی بنیاد پر”۔جب حالات یہ ہوں توان کے اسباب کا پتہ لگانا اور ان کے سدباب کی راہ کو تلاش  کرنا ضروری  ہوجاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔