کل اور آج میں بڑا فرق!

محمد خان مصباح الدین

کسی بھی قوم کا وجود اور اسکا تصور عوام سے ہوتا ہے ہندوستان پوری دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ موجود ہیں ,اسکی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ بستے ہیں جوکہ ہندوستان کے لیے فخر کا باعث ہے,اس ملک میں سیاحت کے لیے غیر ممالک سے آنے والے افراد جب یہاں کا ماحول دیکھتے ہیں تو انہیں ہندوستان کے کی قسمت پے رشک آتا ہے.لیکن چند سالوں سے نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر بد لگ گئی کہ ہندوستان کی خوبصورتی بگاڑتی نظر آ رہی ہے, یہاں کی فضا دن بدن زہر آلود ہوتی جا رہی ہے,ہندوستان جسکی سارے ممالک تعریف کیا کرتے تھے آج اس کے وجود پر جملے کستے نظر آتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ اب اس ملک کی ہر چیز میں اختلاف کا سایہ نظر آتا ہے زندگی کے ہر شعبے میں تنگ نظری اور اختلاف نے جگہ بنا لیا ہے جو کہ اس ملک کے لیے بدنما داغ ہے,تاریخ کے دامن میں ہندوستان کا وہ روشن باب بھی موجود ہے زمین و آسماں جسکے شاہد ہیں کہ یہی وہ سرزمیں ہے جہاں کبھی مذہبی تضاد نہ تھا،زبان و ادب کا جھگڑا نہ تھا،زمیں و روپئے پیسوں کی ہوس اس قدر تک نہ تھی، ہر طرف محبتوں کے ترانے تھے، جس میں محمد رفیع کہتا تھا” بڑی دیر ہوئی نندلالہ تیری راہ تکے برج بالا”

آپسی میل جول کا ایک اٹوٹ رشتہ تھا جس میں علامہ اقبال کہتے تھے

"سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا”

چنانچہ کسی بھی چیز کا بٹوارہ اس حد تک نہ ہوا تھا جیسا کہ آج ہے۔آج تو نفرتوں کی انتہا ہےکوئی, ایسی چیز باقی نہیں رہی جس میں تضاد نہ ہو زبان وادب سے لیکر کھانے پینے کی چیزیں تک بٹ کے رہ گئیں :

  "سبزیاں ہندو ہوئی بکرا مسلماں ہو گیا”

ہمارے اسلاف جنہوں نے اپنے قول وفعل ، مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہ دکھائی ہے۔ اور ان کے اہم کارناموں میں قومی اتحاد ، فرقہ وارانہ خیرسگالی، عدم تشدد اور اہنسا کا فلسفہ اِس قابل تھا کہ اُن پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور باہر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو ہم دور کرسکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے اسلاف کی کاوشوں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے ذات، مذہب، علاقائیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی، قومی ایکتا کا یہی نظریہ اُن کی فکرکا بنیادی پتھر تھا، جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیر کرنا چاہتے تھے، اسلاف کا یہ نظریہ اُس قومی روایت پر مبنی معلوم ہوتا ہے ، جس کے مطابق پوری کائنات کو اللہ کی یکساں مخلوق قرار دیا گیاہے۔ یہی روایت ہندو مذہب کی کتابوں میں بھی مختلف الفاظ کے ساتھ ملتی ہے۔ اور یہی ہمارے اسلاف کی آفاقی فکر تھی جس نے اُنہیں رنگ و نسل، ذات برادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی تحریک دی، انسان دوستی کے اسی فلسفے نے اُن کے خیالات کو جِلا بخشی جس پر وہ آخری دم تک کاربند رہے۔ اور انہیں اِس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان کو اُس وقت تک آزادی نہیں مل سکتی جب تک کہ یہاں رہنے اور بسنے والے دو بڑے فرقے باہم مل جل کر رہنا نہیں سیکھ لیں ۔

اگر آزادی مل بھی گئی تو حقیقت میں وہ آزادی نہیں ہوگی، جس کے ہم سب متمنی ہیں ۔ یہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے ، اُن کا خیال تھا کہ اگر ہندو اور مسلمان امن و بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں سیکھ لیتے تو اِس ملک کا جسے ہم بھارت کے نام سے جانتے ہیں وجود ختم ہوجائے گا۔ اور گاندھی جی جنہوں نے مختلف مذاہب کی کتابوں اور دنیا کے قابل ذکر دانشوروں کے افکار ونظریات کا مطالعہ کیا تھا، اُن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر صبح گیتا کے ساتھ قرآن مجید اور انجیل کا مطالعہ کرتے تھے، اُن کی کتاب ’’مائی ایکسپریمنٹ وِتھ ٹُروتھ‘‘ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران کئی مسلمانوں سے اُن کے گہرے مراسم تھے، جو اسلامی تعلیمات سمجھنے میں اُن کے لئے مفید ثابت ہوئے۔ اُن سے جب معلوم کیا گیا کہ رام راجیہ کے جس تصور کی وہ بات کرتے ہیں ، وہ کس قسم کی حکومت کے طرز پر ہوگا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’وہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کی حکومت کے طرز پر ہوگا‘‘۔ انگلینڈ کے دورانِ قیام اُنہوں نے عیسائیت اور وکالت کے دوران پارسی لوگوں کے میل جول سے اُن کے مذہب کی روح تک پہنچنے کی سعی کی، وہ تمام مذاہب کو احترام کی گہری نظر سے دیکھتے تھے لیکن اپنے آبائی مذہب یعنی ہندو فلاسفی سے اُن کا گہرا تعلق تھا، اِسی طرح گاندھی جی نے پورے ہندوستانی سماج کو غائر نظر سے دیکھا اور سمجھا یہاں تک کہ وہ اِس ملک کی سماجی زندگی کے ’’نبض آشنا‘‘ بن گئے۔ [

تحریک آزادی کے دوران تو اُن کا ملک کے ہر طبقہ اور ہر علاقے کے لوگوں سے سابقہ پڑا، یہی وہ عوامل تھے جو اُن کے ’’قومیاتحاد‘‘ کے نظریہ کی تشکیل میں مددگار بنےلیکن کیا اسباب وعوامل ہیں کہ جو خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا,اور آنے والے ایام میں جس خوبصورت ہندوستان کا تصور ان کے ذہنوں میں تھا وہ آج ہم سے مفقود ہوتا جا رہا ہے؟ انکی فکر یہ تھی کہ جس ہندوستان کی آزادی کے لیے آج ہم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں اس ہندوستان کی زمین ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے راحت اور امن کا سامان پیدا کرے گی اور یہی خواب دیکھتے دیکھتے اور ہندوستان کی زمیں ہمارے لیے ہموار کرتے کرتے وہ اس دنیا سے چلے گئے, مگر ہم نے ان سب خوابوں اور حسرتوں کو بالائے طاق رکھ کر آج ہم آپس میں میں لڑ کر اپنا بنیادی مقصد کھوتے چلے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہیکہ ہم دنیا کے نشانے پر ہیں اور اپنی آپسی اختلاف کیوجہ سے پوری دنیا کے لیے نمونئہ عبرت بنے ہوئے ہیں .

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر مکمل طور پر ملک کی بیماری کا پتہ لگائیں اور اس بیماری کو جو ملک کو اور اسکی امن کو کھا رہی ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں اور آپسی اختلاف کوختم کرکے اس بات کی طرف دھیان دیں جو ملک اور اسکی عوام کیلیے ترقی کا راستہ ہموار کرے_

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔