کنہیا کمار کے بعد گرمہر کور!

  آر ایس ایس اور بی جے پی کے علاوہ سنگھ پریوار کی تمام ذیلی تنظیمیں اپنے آپ کو قوم پرستی اور وطن پرستی کی ٹھیکیدار سمجھتی ہیں ۔ جس نے بھی ان کے خیالات کے خلاف ذرا بھی اختلاف یا انحراف کیا اس پر فوراً غدارِ وطن اور قوم دشمن (anti national) کا الزام عائد کر دینا ان کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے رامجس کالج کی طالبہ گرمہر کو ر اس وقت سنگھ پریوار کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد) کے نشانے پر ہیں ۔ انھیں عصمت دری اور موت تک کی دھمکی دی جارہی ہے۔ اگر وہ اے بی وی پی کے خلاف آواز بلند کرنے سے باز نہ آئیں ۔ گرمہر کیپٹن مندیپ سنگھ کی بیٹی ہیں جو کارگل کی جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔

گرمہر کی یہ بات بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ میرے باپ کو پاکستان نے نہیں بلکہ جنگ نے مارا ہے۔ سنگھ پریوار والے ان پر اس کی وجہ سے یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ 20 سالہ طالبہ کے دل و دماغ کو آلودہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ملک و قوم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ سنگھ پریوار والے نے کرکٹر ویریندر سہواگ کو بھی میدان میں اتار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئیٹر پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے تین سنچری نہیں بنائی ہے بلکہ میرے بلے نے بنائی ہے۔ سہواگ کی باتوں کو لوگوں نے بچکانہ قرار دیا ہے جبکہ گرمہر کی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کا مطلب کچھ اور ہے۔ وہ دونوں ملکوں کی جنگی پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔ انھیں اور اس طرح کے بہت سے لوگوں کو دونوں ملکوں کی جنگجویانہ پالیسی قابل مذمت معلوم ہوتی ہے۔

 بی جے پی کے میسور کے ایک ایم پی پرتاپ سنہا نے گرمہر کا موازنہ داؤد ابراہیم سے کر ڈالا ہے۔ گرمہر نے زعفرانی ایم پی کا جواب دیتے ہوئے نہایت اچھی بات کہی ہے کہ داؤد ابراہیم تشدد اور ہنگامہ کا حامی ہے جبکہ میں کالجز اور یونیورسٹیوں کے احاطوں میں پر امن اور عدم تشدد کے ماحول کی حامی ہوں ۔ گرمہر نے سوشل میڈیا پر بہت بہت سے سوالوں کا جواب دیا ہے کہ وہ اے بی وی پی خوفزدہ نہیں ہیں ۔ وہ تعلیم گاہوں میں عدم تشدد کا ماحول قائم کرنے کیلئے اگر انھیں اپنی جان کی قربانی دینی پڑی تو اس سے دریغ نہیں کریں گی۔

 گزشتہ سال کے فروری کے مہینہ میں ہی کنہیا کمار نے سنگھ پریوار کی طلبہ تنظیم کی غنڈہ گردی اور طوفان بدتمیزی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ حسن اتفاق کہئے کہ اسی مہینہ میں گرمہر نے بھی سنگھ پریوار کے تشدد پسند طلبہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور جس کی وجہ سے ملک بھر کے امن پسند طلبہ کی ہمدردیاں انھیں حاصل ہوگئی ہیں ۔ کانگریس، سی پی ایم اور عام آدمی پارٹی کے لیڈران اور طلبہ اعلانیہ طور پر گرمہر کی جرأتمندی کی پر زور حمایت کر رہے ہیں اور اے بی وی پی کے تشدد اور غنڈہ گردی کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں ۔

عدم تحمل کا سلسلہ اس وقت سے طول پکڑا جب سے رامجس کالج کے ایک سمینار پر اے بی وی پی کے طلبہ نے دہشت گردانہ حملہ کیا جس کی وجہ سے کئی طلبہ و طالبہ زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ چند دن پہلے رونما ہوا۔ اس دہشت گردانہ حملہ کے خلاف بہت سی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات خاص طور سے دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ اس غنڈہ گردی کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں ۔ رامجس کالج کے طلبہ اور ٹیچروں کے ایک طبقہ کی طرف سے سمینار کا انعقاد ہونے والا تھا جس میں جے این یو کے عمر خالد مدعو تھے۔ اے بی وی پی کے طلبہ نے عمر خالد کی شرکت کی مخالفت کی جس کی وجہ سے انتظامیہ نے ان کا نام ڈراپ کر دیا۔ اس کے باوجود سمینار کی مجلس پر زعفرانی طلبہ نے دھاوا بول دیا۔ بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ کچھ لوگ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے اسپتال میں زیر علاج ہیں ۔

ملک بھر میں گزشتہ دو ڈھائی سال سے یعنی جب سے مودی جی برسر اقتدار آئے تعلیم گاہوں کا ماحول بالکل مکدر ہوگیا ہے۔ حیدر آباد یونیورسٹی سے اے بی وی پی کے طلبہ نے اقتدار کے نشہ میں تشدد کا یہ کاروبار شروع کیا۔ چند دلت طلبہ کو اس قدر ہراساں کیا کہ ان میں سے ایک طالب علم روہت ویمولا کو خود کشی کرنی پڑی۔ روہت ویمولا کی حمایت میں جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بائیں بازو کے طلبہ نے زور دار آواز بلندکی تو ان پر بھی زعفرانی طلبہ کی یورش شروع ہوئی۔ چند طلبہ کو جو مزاحمت میں آواز اٹھا رہے تھے انھیں دہلی کی پولس نے مرکز کی ہدایت پر سلاخوں کے پیچھے کر دیا۔ کنہیا کمار بھی جیل جانے والوں میں شامل تھے بلکہ سب سے پہلے انہی پر غداریِ وطن کا الزام عائد کیا گیا۔ یہی فروری کا مہینہ تھا۔ اسی مہینہ میں ایک نئی اور پرزور آواز گرمہر کورکی ابھر رہی ہے جس کی وجہ سے بھگوا خاندان کے لوگوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے وزراء تک گرمہر کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں ۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے لندن کے اکنامکس اسکول میں ایک مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بائیں بازو کے گٹھ جوڑ سے تعلیم گاہوں میں طلبہ تخریبی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں ۔

 کانگریس کے ترجمان مسٹر تیواری نے جیٹلی کے اس بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ غیروں کی سر زمین پر بھی ہماری تعلیم گاہوں کے طلبا و طالبات پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ بھگوا نواز افراد نہیں چوکتے۔ سنگھ پریوار کے چھوٹے بڑے لوگ انتخابی میدان ہو یا تعلیم گاہوں کا کیمپس ہو ہر میدان میں نقلی دیش بھگتی کی باتیں کرتے ہیں اور ہر کوئی جو ان کے پریوار کا نہیں ہے اسے طرح طرح سے مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ سنگھ پریوار والے نہ صرف مسلمانوں کو بھگوا کرن کرنے سے دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ہر جماعت اور فرد کو بھگوا کرن کرنے میں جٹے ہوئے ہیں جیسے یہ ان کا سب سے محبوب اور دل پسند مشغلہ ہو۔

آہستہ آہستہ ملک بھر کے لوگ ان کی اس نقلی دیش بھگتی کے راگ کو سمجھنے لگے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ عام ووٹرس بھی ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں ۔ انتخابی میدان میں ان کو جو جیت ملتی ہے اس سے ان کا حوصلہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جب تک یہ انتخابی میدان میں شکست و ریخت کا سامنا نہیں کریں گے ان کا حوصلہ پست نہیں ہوگا۔ ضرورت ہے کہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں ایک متحدہ پلیٹ فارم سے اجتماعی طور پر ہر میدان میں ان کی مخالفت اور مزاحمت کریں ۔ جب ہی باطل پرستوں اور فرقہ پرستوں کو مات دی جاسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔