شادی کے شرعی اور غیر شرعی طریقے (آخری قسط)

آج کل شادی کی عموماً تین تین دعوتیں ہونے لگی ہیں ۔ ایک مسجد میں نکاح کی، دوسری استقبالیہ کی دلہن والوں کی طرف سے (کیونکہ خواتین مسجد کے نکاح میں شریک نہیں ہوتیں ) اور تیسری ولیمہ کی دولھے کی طرف سے۔ اس طرح ایک آدمی کیلئے تین تین دعوتوں میں شریک ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے اگر نکاح کے فوراً بعد دولھے کی طرف سے ولیمہ کی دعوت ہوتو داعی کیلئے بھی آسانی ہوگی اور مدعوئین کیلئے بھی، کیونکہ ایک ہی وقت میں تمام تقریبات سے فراغت ہو جائے گی اور استقبالیہ کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسا کرنے میں ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی شرعی امر مانع نہیں ہے۔

حالات اور عرف و عادت کے مطابق نکاح کے بعد کسی بھی وقت ولیمہ رکھا جاسکتا ہے، جبکہ اس کی تائید میں علماء کے اقوال موجود ہیں ۔ ولیمہ کی دعوت کو قبول کرنا چاہئے۔ حدیث نبویؐ ہے: ’’جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو وہ اس میں ضرور شرکت کرے‘‘ (مسلم، کتاب النکاح)۔ اس کی مصلحت ظاہر ہے کہ یہ خوشی میں شرکت ہے اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی خوشی میں شرکت کا خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے۔ اس سے باہمی انس و محبت بڑھتی ہے، اِلّا یہ کہ کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ صحابہ کرامؓ کی ولیمہ کی دعوتوں میں نہ معصیت کی کوئی بات ہوتی تھی اور نہ کسی منکر کا مظاہرہ۔ اس لئے ایسی دعوتوں کو قبول کرنا ضروری تھا۔

 البتہ مسلمانوں کی موجودہ سوسائٹی میں ولیمہ کی دعوتیں بھی قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ یہ اطمینان کرلینا مشکل ہوتا ہے کہ وہاں منکر کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ جن دعوتوں کے بارے میں معلوم ہوکہ وہاں ریکارڈنگ کے ذریعہ عورتوں کے گانوں سے مردوں کو محظوظ کرنے کا سامان کیا گیا ہے یا رقص سرود کی مجلس سجائی گئی ہے یا عورت مرد کا اختلاط ایسا ہے کہ بے پردگی، عریانیت اور زیب و زینت کا مظاہرہ، ایک شریف اور با اخلاق آدمی کی شرکت میں مانع ہے یا اسراف کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو ایسی دعوتوں میں شرکت نہیں کرنا چاہئے۔ اگر معلوم نہیں ہے اور دعوت میں پہنچ کر اس کا علم ہوجائے تو داعی کے سامنے اس منکر کے خلاف اظہارِ نفرت کرنا چاہئے اور واپس لوٹ جانا چاہئے تاکہ داعی کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ’’جب کسی شخص کو ولیمہ کی دعوت دی جائے اور وہاں شراب وغیرہ کی کھلی معصیت ہو تو وہ شخص ان لوگوں کو اس سے منع کرے اور اگر وہ اس سے باز آتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ وہاں بیٹھے۔ اور اگر پہلے سے معلوم ہوتو میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ اس دعوت کو قبول کرے۔ اسے چاہئے کہ معصیت کے ہوتے ہوئے شرکت نہ کرے‘‘ (کتاب الام، ج 6، ص196)۔

  موجودہ زمانہ میں لوگوں کی کمائی بھی عام طور سے صرف حلال کی نہیں رہی ہے، اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے مال میں حلال کے ساتھ حرام کی کمائی بھی ملی ہوئی ہو تو ایسے لوگوں کی دعوت کھانا جائز ہوگا؟ اس بارے میں علامیہ ابن تیمیہؒ کا فتویٰ یہ ہے:

’’اگر حرام چیز متعین طور سے معلوم ہوتو اس کو ہر گز نہ کھائے اور اگر متعین طور سے معلوم نہ ہو تو اس میں سے کھانا حرام نہ ہوگا، لیکن اگر حرام کا مال زیادہ ہو تو احتیاط اس میں ہے کہ ترک کرے، واللہ اعلم!‘‘

 علامہ ابن تیمیہ سے ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ اگر کسی شخص کا اکثر مال حلال کا ہو مگر اس میں قدرے شبہ ہو اور ایسا شخص کسی کی ضیافت کرے یا اس کو دعوت دے تو آیا اس کی دعوت قبول کی جائے یا نہیں ؟ علامہ نے جواب دیا:

’’جب ترک کرنے میں مفسدہ ہو مثلاً قطع رحمی (رشتہ داری کے تعلقات کو قطع کرنا) یا آپس کے تعلقات کی خرابی وغیرہ تو دعوت قبول کرلے، کیونکہ صلہ رحمی اور باہمی تعلقات کی بہتری واجب ہے اور جب یہ مقصد دعوت قبول کئے بغیر پورا نہ ہوتا تو دعوت قبول کرنا واجب ہوگا نہ کہ حرام۔ یوں کہئے کہ اس کام کی مصلحت شبہ کے اندیشہ کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہؒ، ج 32، ص215)۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں لوگوں کی کمائی کے بارے میں حلال یا حرام کا حکم قطعیت کے ساتھ لگانا مشکل ہے، اس لئے احتیاط وہیں ممکن ہے جہاں کوئی شخص کھلے بندوں حرام کمانے میں لگا ہوا ہو اور حرام بھی ایسا جس کی کوئی تاویل نہ کی جاسکے، ورنہ کھانے پینے میں ضرورت سے زیادہ احتیاط کا اثر معاشرتی تعلقات پر پڑے گا۔

 شادی کی کامیابی کیلئے رہائش کا مناسب انتظام ضروری: شادی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مشترک رہائش ہے جس میں عورت کو آزادانہ ماحول میسر نہیں آتا، بلکہ اس کو اپنی ساس اور اپنے خسر کے ساتھ اور ان کے ماتحت رہنا پڑتا ہے۔ اور پھر مزاجوں کی نامناسبت کی وجہ سے تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور ساس بہو کا نباہ مشکل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رہن سہن کا یہ پرانا ڈھانچہ نئے حالات میں بالکل سازگار نہیں ہے۔ اس لئے مرد کو شادی سے پہلے ہی سوچ لینا چاہئے کہ نئے حالات کس بات کے متقاضی ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح نباہ سکتا ہے۔

  پہلی بات مرد کیلئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی کی رہائش کا ایسا انتظام کرے جہاں شوہر کے سوا کسی اور کا عمل دخل نہ ہو۔ بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنے گھر کا کام کاج کرے۔ شوہر کے ساتھ وہ تخلیہ میں بھی رہ سکے کہ یہ ا س کا حق ہے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ کوئی فلیٹ ہو، اپنی حیثیت کے مطابق ایک علاحدہ کمرہ کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔

  دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں عورتیں اور خاص طور سے کالج کی پڑھی ہوئی لڑکیاں زیادہ حریت پسند ہوتی ہیں ۔ وہ کسی کے دباؤ کو قبول نہیں کرتیں ۔ اپنے شوہر کی ہی فرماں برداری کریں تو بہت بڑی بات ہے، کجا یہ کہ وہ ساس اور خسر کے ماتحت رہنا قبول کرلیں ۔ اس نفسیاتی پہلو اور جدید رجحانات کو ملحوظ رکھنا مرد و زن کے تعلقات کو خوشگوار بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے۔

  تیسری بات یہ کہ مرد پر اس کے ماں باپ کی خدمت کی ذمہ داری ہے۔ اور عورت پر ممکنہ حد تک اس کے اپنے ماں باپ کی خدمت کی، مگر مرد چاہتا ہے کہ بیوی اس کے ماں باپ کی خدمت کرے جبکہ بیوی پر شوہر کے ماں باپ کی خدمت کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، البتہ حسن سلوک اور بات ہے۔ پھر مرد اس پر ایک ایسی ذمہ داری کیوں عائد کرتا ہے جو شریعت نے اس پر ڈالی نہیں ؟ کیا وہ بیوی کے ماں باپ کی خدمت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے؟ نہیں تو پھر اسے اپنی ذمہ داری… اپنی بیوی کے سر تھوپ نہیں دینا چاہئے۔ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت شرعاً واجب ہے لیکن ساس اور خسر کی اطاعت کہاں واجب ہے؟ لہٰذا بیوی کو اس کی ساس اور خسر کے ماتحت رہ کر زندگی گزارنے کیلئے مجبور کرنا نہ شرعاً صحیح ہے اور نہ اس سے کسی بہتر نتیجہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں بیوی کیلئے بہر حال آزاد فضا ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کی ملکہ بن کر رہ سکے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ شوہر اپنے ماں یا باپ کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ عام طور سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس معاملہ میں بیٹے کو اپنے ماں باپ کی بات مان لینا چاہئے، حالانکہ شریعت نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا جو روایتیں ا س کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں ۔ اول تو ان کی صحت (اسناد) کی طرف سے اطمینان ضروری ہے اور دوم یہ کہ اس میں طلاق کے وجوہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لئے ایسی روایتوں کی بنیاد پر بے قصور بیوی کو محض اپنے ماں یا باپ کے کہنے پر چھوڑ دینا بیوی کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے جس کی اسلام کیسے اجازت دے گا؟ اور جب اسلام نے مرد کو اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے کا اختیار دیا اور والدین کی مرضی کا پابند نہیں بنایا تو محض والدین کی خواہش پر وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دینے کا پابند کیوں ہو؟ اسے اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے تاکہ عورت کے ساتھ نا انصافی نہ ہو ۔ ایک بے قصور عورت کو طلاق دینا بہت بری بات ہے اور آج کل عورت کیلئے طلاق کے بعد نفقہ اور رہائش کے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ، اس لئے شوہر کو اس کا احساس ہونا چاہئے اور طلاق کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔

 پانچوی بات یہ ہے کہ موجودہ تمدن نے جہاں بہت سی سہولتیں مہیا کی ہیں وہاں مکان کے مسئلہ کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ بڑے شہر میں تو ایک چھوٹا کمرہ حاصل کرنا بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے جب تک کہ لاکھوں روپیہ خرچ نہ کیا جائے۔ نتیجہ یہ کہ ایک کمرہ میں کئی افراد، عورتیں اور بچے گھٹن کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اگر ماں باپ ایک کمرہ میں رہتے ہوں تو اسی کمرہ میں بیٹا اپنی بیوی کو لاتا ہے اور سونے کیلئے پردہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کمرہ والی مشترک رہائش جس میں کھانا پکانا، اٹھنا بیٹھنا سب ایک جگہ ہوتا ہے، بڑی ذہنی کوفت کا باعث ہے اور ایک جگہ رہنے سے ساس اور بہو کے درمیان روزانہ جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ صورت حال لازماً اصلاح چاہتی ہے۔ اگر مرد بیوی کیلئے چھوٹے سے علاحدہ کمرے کا بھی انتظام نہیں کرسکتا تو اسے اس وقت تک نکاح نہیں کرنا چاہئے جب تک کہ اس کا انتظام نہ ہوجائے۔ کسی عورت کو لاکر مصیبت میں ڈال دینا اور مسائل کو دعوت دینا بڑی غلط بات ہے۔

جو لوگ اپنی شادی کیلئے ایک معمولی کمرہ کا انتظام نہیں کرسکتے تو ان کی اس معاملہ میں معاونت کی جانی چاہئے کہ یہ بڑا کارخیر ہے۔ خاص طور سے جو قریبی رشتہ دا ر کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں ان کو اس کی پیشکش کرنا چاہئے۔ سوسائٹی کے صاحب حیثیت لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ دست تعاون بڑھائیں ۔ جو لوگ آج شادی بیاہ پر لاکھوں روپئے خرچ کر رہے ہیں وہ اگر کفایت سے کام لیں اور بقیہ روپیہ کسی ضرورت مند کو جو شادی کیلئے رکا ہوا ہو کمرہ مہیا کرنے میں لگا دیں تو یہ باہمی تعاون کی کتنی اچھی مثال ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کار خیر کیلئے ادارے اور سوسائٹیاں وجود میں آئیں اور لوگوں میں سادہ شادیوں کی ترغیب دینے کے ساتھ رہائش کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مخصوص فنڈ قائم کئے جائیں ۔ اصلاح معاشرہ کیلئے یہ کام بہت ضروری ہے۔ عرب ممالک میں نکاح فنڈ قائم کئے گئے ہیں جن میں سے بڑی بڑی رقمیں ضرورت مند اشخاص کو نکاح کیلئے دی جاتی ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ وہاں ولیمہ کا بھی ایسا انتظام ہوتا ہے کہ کوئی پڑوسی ہدیۃً چاول بھیجتا ہے تو کوئی گوشت۔ یہ اچھی مثالیں ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر مناسب صورتیں اختیار کی جانی چاہئیں ۔

 چھٹی بات یہ ہے کہ عورت کو چاہئے کہ وہ شوہر کے رشتہ داروں خاص طور سے اس کے والدین کو اپنا سمجھے۔ ان کا احترام کرے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے، بدزبانی ہر گز نہ کرے۔ اسی طرح شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے ماں باپ اور رشتہ داروں کو اپنا سمجھے، ان کا احترام کرے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اگر دونوں طرف سے اخلاقی رویہ درست رکھنے کی کوشش کی گئی اور غلطیوں کو نظر انداز نہ کیا جاتا رہا تو شوہر بیوی کے تعلقات بھی خوشگوار ہوں گے اور دونوں جانب کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات اچھے رہیں گے، مگر اس کیلئے صبر و تحمل، عفو و درگزر اور بیدار اخلاقی حس کی ضرورت ہے اور یہ اوصاف اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔

 ساتویں بات یہ ہے کہ اوپر جو کچھ عرض کیا گیا اس کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ مرد عورت کی خاطر اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے یا ان سے بے پروا ہوجائے۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے، لہٰذا ان کے حقوق ضرور ادا کئے جائیں اور اگر وہ اکیلے ہوں تو ان سے قریب رہائش کا علاحدہ انتظام کیا جائے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بیوی کے حقوق کو جن کا اوپر ذکر ہوا متاثر نہ ہونے دیا جائے۔

آخری بات یہ ہے کہ یہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ ہمارے عمل کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے۔ جو لفظ بھی ہم زبان سے نکالتے ہیں فرشتے نوٹ کرلیتے ہیں ۔ ہر لمحہ ہماری تصویر اتر رہی ہے اور ہماری پوری زندگی کی فلم تیار ہورہی ہے جو قیامت کے دن ہم کو دکھائی جائے گی اور ہر شخص اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ خدا کے حضور جواب دہی کا یہ تصور ہی انسان میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرتا ہے اور وہ اپنے وقت کو لڑنے جھگڑنے میں صرف نہیں کرتا بلکہ اسے قیمتی سمجھ کر ذکر الٰہی، عبادت، علم دین کے حصول اور دوسرے نیک کاموں میں صرف کرتا ہے۔ اس کو اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی فکر ہوتی ہے کہ یہ بھی بہت بڑی دینی خدمت ہے۔ اگر مرد عورت صالح زندگی گزارنے کی کوشش کریں تو اللہ کی توفیق انھیں حاصل ہوگی اور وہ خیر و برکت سے نوازے جائیں گے، ایسی شادیاں ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔

تحریر: مولانا شمس پیر زادہؒ … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔