کوئی بتائے یہ اندازِ جنگ جُو کیا ہے؟

اے۔ رحمان

پلوامہ میں ہوئے دہشت گرد حملے کے فطری رد عمل کے طور پر ہندوستانی عوام کا جو غم و غصہ دنیا کے سامنے آیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس رد عمل کی ہر چہار طرف سے حمایت ہوئی اور دہشت گردوں اور دہشت گردی پر لعنت بھیجی گئی۔ ہم نے جیش محمد کا ایک اہم تر بیتی کیمپ تباہ کر دیا اور دہشت گردی کی سرپرستی کے ذمہ دار پاکستان کو بھی اچھا خاصا سبق سکھا دیا۔ یہاں تک کہ خود پاکستانی حکومت نے بھی مزید عقوبت سے بچنے کے لیے ہاتھ جوڑ کر مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی التجا کر ڈالی۔ بعض جوانب سے  خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پاکستان کو جنگ کے ذریعے سبق سیکھانے اورسزا دینے کے مطالبات بھی زور شور سے بلند کیے گئے جو ابتدائی اور فوری غضبناک رد عمل کے طور پر فطری تھے لیکن جب چند سیاسی رہنما اور اہم سماجی شخصیات نے اس مطالبے کی حمایت میں آواز اٹھائی تو معاملہ سنگین بھی ہو گیا اور باعث فکر بھی۔ ایک طرف جہاں پرنٹ میڈیا نسبتاً تحمّل اور بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے حالات کا تجزیہ کر رہا ہے وہاں الیکٹرونک میڈیا دن رات جنگ جنگ چلّا کر حکومت اور عوام کو جنگ کے لئے اکسانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تہذیب کے آغاز سے اب تک دنیا میں تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار چھوٹی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ان جنگوں میں جان و مال کا کتنا اتلاف ہوا یہ حساب تو کسی کے پاس نہں ہے لیکن بعض مورخین تاریخ انسانی کو محض جنگوں کا بیانیہ یا داستان کہتے ہیں۔ اگر منگولوں اور خصوصاًچنگیز خاں کو ہی دیکھا جائے تو اس نے ہوسِ فتح و توسیع حکمرانی کے تحت جتنے انسانوں کو قتل کیا ان کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ۔ ’زمین خدا کی ملک بادشاہ کا‘ عقیدے کے تحت توسیع پسند جنگجو حکمرانوں نے جوجنگ و جدل کیا اس کا تو کوئی علاج نہیں تھا لیکن مکمل طور پر ’مہذب ‘ ہو جانے کے بعد بھی دنیا میں عجیب و غریب وجوہات کے تحت جنگوں کا سلسلہ جس طور جاری رہا اس کابھی کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ لیکن بیسویں صدی کی دو جنگ ہائے عظیم، خصوصاً دوسری جنگ عظیم جس میں امریکہ نے ایٹم بم کا استعمال کیا، کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے دنیا کے با اثر ممالک نے فیصلہ کیا کہ ہر کسی طریقے سے مستقبل میں جنگ کا سد باب کیا جائے کیونکہ پوری مہذب دنیاپر یہ روشن ہو گیا تھا کہ جنگ اچھی چیز نہیں ہے اور جنگ کے بغیر بھی مسائل اورتنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹی موٹی جنگیںتو اس کے بعد بھی ہوئیں، ہوتی رہیں لیکن اختلاف رائے اور اس سے پیدا شدہ لڑائی جھگڑا بھی انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور بعض حالات میں کسی بڑے مسئلے کے حل کے لیے عمل جراحی کے طور پر1971 کی ہندو پاک جنگ  جیسی کاروائی ضروری بھی ہو جاتی ہے لیکن متفقہ طور پر جنگ کو بری بات سمجھ کر اس سے گریز رکھنے کو ہی فوقیت دی جاتی رہی۔ اور موجودہ سیاسی منظر نامے میں تو ہند و پاک جیسے جوہری ہتھیاروں سے لیس  پڑوسی پوری دنیا کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔

جنگ ہر لحاظ سے تباہ کن ہے اوریہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنگ سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور آخرش فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے۔ آج جو لوگ پاکستان کے خلاف غصے سے مغلوب ہو کر جنگ جنگ چلا رہے ہیں انھوں نے نہ تو جنگ دیکھی ہے اور نہ ہی جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔ 2007 میں ایک امریکی تنظیم نے ہندو پاک کے مابین ممکنہ جنگ ہونے پر تباہی اور نقصانات کا اندازہ لگا کر بتایا تھا کہ اس جنگ میں تقریباً دس سے پندرہ کروڑ لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اس سے کہیںزیادہ زندگی بھر کے لیے اپاہج اور بیمار۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے قبل امریکہ نے جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوایٹم بم گرائے تھے ان کے تباہ کن اثرات آج تک موجود ہیں اور اس تباہی کے بعد دونسلوں تک پیدا ہونے والے بچے بیمار اور معذور پیدا ہوئے۔ یہ بھی اس صورت میں کہ اس وقت استعمال کیے جانے والے ایٹم بم کی قوت آج کے عام جوہری ہتھیار سے تقریباً ایک ہزار گنا کم تھی۔ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاری کو کسی ایک خطے یا علاقے تک محدود رکھنا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر صرف لاہور پر ایک جوہری میزائل داغی جائے  تو اس سے پیدا شدہ مہلک ریڈیائی لہروں(Radiation )کے تباہ کن اثرات امرتسر، پٹھان کوٹ، جموں اور مغربی پنجاب کے دوسرے حصوں میں ایک سو پچاس کلو میٹر کے دائرے میں شدید نقصان کا سبب ہوں گے۔

جنگ کے دوران اور ما بعد اثرات اور نقصانات کا اندازہ کیا جائے تو لرزہ خیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ جنگ عام زندگی کو قطعی مفلوج کر دیتی ہے۔ کاروبارِ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو جنگ سے متاثر نہ ہوتا ہو۔ شہروں میں ہونے والے جانی اورمالی نقصان کے سبب معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جنگ کے اخراجات سے نپٹنے کے لیے اہم اور بنیادی ضرورتوں کے اداروں کے لیے مختص پیسہ جنگی ضروریات پر خرچ ہونے لگتا ہے۔ مہنگائی حد سے تجاوز کر جاتی ہے جبکہ سپلائی کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے ضروری اجناس، اشیائے خور د  ونوش اور دواؤں کی شدید قلت ہو جاتی ہے۔ درونِ ملک سفر مہنگا اور مشکل ہو جانے سے کاروبار مندے پڑجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی کارکردگی یا تو کم ہو جاتی ہے یا بالکل معطل کر دی جاتی ہے۔ ’کہاں کب کیاہو جائیـ‘ کا خوف پورے معاشرے کو عدم تحفظ اور بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کر دیتا ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنگ سے ہونے والے مضر اثرات سے عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اس جنگ میں جرمنی کے اتنے مرد مارے گئے کہ معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی تعداد کا توازن بگڑ گیا اور مردوں کی کمی اگلے پچاس سال تک بھی پوری نہیں ہوئی۔ اس کا ایک نتیجہ وہاں یہ بھی ہوا کہ عصمت فروشی نہ صرف عام ہو گئی بلکہ اسے ایک ضرورت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

جنگ میں مردوں کی ہلاکت کے سبب یتیم بچوں کی تعداد میں اچانک بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جس سے معاشرے میں بے شماردوسرے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ دوران ِ جنگ اخلاقی اقدار تو مجروح ہوتی ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی ہمدردی اور رحم کے جذبات بھی مفقود ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباًیہ ہے کہ دن رات قتل و غارت کی خبریں سننے اور دل شگاف مناظر ٹیلی ویژن پر دیکھتے رہنے سے احساس زائل ہو جاتا ہے اور زندگی کے تئیٔں انسان کا رویّہ جذبات سے عاری ہو جاتا ہے۔ دوران ِ جنگ اور اس کے بعد جرائم بھی خوب پنپتے ہیںکیونکہ حکومت کی پوری مشینری جنگی ضرورتوں میں اور مابعد جنگ باز آباد کاری کے کام میں مصروف رہتی ہے۔

ہندوستان ایک بہت بڑی آبادی والا ملک ہے جہاں نہ صرف چوتھائی سے زیادہ آبادی  خط ِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے بلکہ جہاں عام حالات میں بھی سینکڑوں معاشرتی مسائل پھن کاڑھے کھڑے رہتے ہیں۔ جنگ ہوجانے کی صورت میں یہ سب مسائل کتنی سنگینی اختیار کریں گے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جنگ کے نتیجے میں نہ تو کشمیر کا مسٔلہ حل ہو گا نہ دہشت گردی کا، بلکہ دہشت گردی میں اضافہ ہو جانا یقینی ہے۔ یہ بھی قابل ِ غور ہے کہ جنگ میں یہاں اور وہاں کے وہ لوگ مارے جائیں گے جو قطعی بے قصور ہیں، وہ عورتیں بیوہ ہوں گی جن کے بیوہ ہونے کی نہ کوئی وجہ ہے نہ جواز، وہ بچے یتیم ہوں گے جو معصوم ہیں اور اپنی یتیمی کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ محفوظ و مامون رہیں گے  تو وہ لوگ جنہوں نے پلوامہ میں ایک غیر انسانی جرم کیااور جن کی کوئی شناخت ہے نہ ان پر کوئی قدغن۔ ان حالات میں الیکٹرونک میڈیا کا محض اپنے مفاد اور TRP  کے واسطے سنسنی خیزیت کے ذریعے عوام کے جذبے اور غصّے کو جنگی جنون میں بدلنے کی کوشش کرنا صرف ناعاقبت اندیشی ہی نہیں جہالت اور خود غرضی پر مبنی ملک و قوم سے غدّاری کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے۔ یا وہ یہ بتائیں کہ پاکستان سے جنگ کرنے میں ملک اور قوم کو کیا فائدہ پہنچ سکتاہے۔ ساحر لدھیانوی کی یہ لافانی سطور اس موضوع پر آخری دلیل کا درجہ رکھتی ہیں:

 جنگ تو خود ہی ایک مسلہ ہے

جنگ کیا مسٔلوں کا حل دے گی

     آگ اور خون  آج  بخشے  گی

 بھوک اور احتیاج کل دے گی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔