ملک پھر جنگ کے دہانے پر

شہاب مرزا

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانوں

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

(ساحر لدھیانوی)

۲۶ فروری کو سرجیل اسٹرائیک کے بعد ہم لاشیں دیکھنا چاہتے تھے۔ میڈیا لاشوں کی تعداد کی گنتی میں لگ گئی تھی۔ کتنے دہشت گرد مارے گئے ہو۔ ۲۰۰۔ ۳۰۰ یا۴۰۰ کیونکہ ہم جشن منانا چاہتے تھے۔ لاشوں پر جشن جیسے دہشت گرد لاشوں پر بندوقیں نچاکر سناتی ہے۔ ایسے ہی لاشیں دکھاکر میڈیا عوام کی روح کو ٹھنڈک دینا چاہتی تھی۔ کیونکہ عوام بھی لاشیں دیکھنا چاہتی ہے ہاں انتخابات بھی قریب ہے۔ جوانو ں کی شہادت بھی ہوئی ہے ان کے سروں کے بدلے ہم بھی خون سے بھری ہوئی لاشیں دیکھنا چاہتے ہیں چاہے وہ قصور وار کی ہو یا پھر بے قصور کی۔ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں پر اس وقت حالات جتنے کشیدہ ہیں ماضی میں اسکی مثالیں نہیں ملتی ان دھماکہ خیز حالات میں پڑوسی ملک کسی تک صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہمارے سیاسی لیڈروں کے سر میں ابھی بھی جنگ کا بھوت اترا نہیں ہے حالانکہ ہمارا ایک پائلٹ ان کے قبضہ میں چلاگیا ہے۔ اب ہمیں جنیوا کنیونشین یاد آرہا ہے۔

بات بالکل درست ہے کہ لاشوں پر سیاست کب تک چلتی رہے گی کیوں ان بہادر سپاہیوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کی کوششیں کی جارہی ہے اور کب تک عوام کو گمراہ کیا جاتا رہے گا۔ گھر یا آفس پر بیٹھ کر جنگ لڑنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ ان شہید جوانوں کی ماں سے پوچھنا جنگ کیا ہوتی ہے سرجیکل اسٹرائیک سے پہلے بہت باتیں ہورہی تھی اب جنگ ہی لازمی ہے سروں کے بدلے سر چاہئے لگ بھگ میڈیا لاہور تک پہنچ بھی گیا تھا مگر اب بھی لاشیں دیکھنا چاہتے ہوکل تک لاش دیکھنے کی آروز کرنے والوں آج کمانڈر ابھیندند کی تصویر دیکھ لواگر پھر بھی افسوس نہ ہوا تو سمجھ لینا تمہارا ضمیر مرچکا ہے۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کل لگ رہا تھا کہ پاکستانی جہاز فوج کے جوان نہیں وزیراعظم اور نیوز اینکر لے کر گئے تھے م حنت اور کاروائی فوج نے کی اور واہ واہی وزیراعظم کو دی جارہی تھی بہر کیف یہ بحث صرف اس لئے کی گئی کہ ہمیں جنگ کی ضرورت اور امن کی اہمیت پر بات کرنا آسان ہوسکے شروعات میں ساحر لدھیانوی کا شعر ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔

 اگر جنگوں سے مسئلے حل ہوتے اسرائیل کب کا فلسطین پر قبضہ کرلیا ہوا اور ۱۷ سال کی جدوجہد کے بعد افغانستان سے امریکی فوج واپس نہیں بلائی جاتی۔ اے سی  روم میں بیٹھ کر ایک کے بدلے ۱۰ س اور خون کا بدلہ خون کامطالبہ صرف مطالبہ ہی ٹھیک ہے اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا اگر نیوز اینکر اسٹوڈیو سے جنگ کا مطالبہ کررہے ہیں تو حکومت بھی چاہئے کہ فوج کو واپس بلا کر نیوز اینکر کو سرحد پر بھیج دیں سمجھ آجائیگا جنگ الفاظ آسان اور کام مشکل ہے الیکٹرونک میڈیا کی چاپولسی دیکھ لیجئے ہر اچھے برے واقعات کے لئے سیدھے نریندرمودی ذمہ دار ہے اور حالیہ پلوامہ حملہ میں انٹلی جنس اور سیکوریٹی ذمہ دار ہے ۴۹ جوانو ں کی شہادت کے لئے فوج ذمہ دار ہے اور سرجیکل اسٹرائیک فوج کریں اور اس کا سہرا وزیراعظم کے سر باندھا جارہا ہے۔

لاکھوں روپئے کی تنخواہ لے کر پرائم ٹائم میں بیٹھے نیوز اینکر سی بڑی ااسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ جنگ ہونا لازمی ہے اب مسئلہ کا حل صرف جنگ ہے اصل میں یہ ذہنوں کو بدلنے اور عوام کے رویوں کو بنانے کاکام کرہرا ہے جسے ہمیں سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرے سے کم نہیں ہے جتنا معاملہ سرحد پر گرمایا جہے اس سے زیادہ معاملہ میڈیا ہائوس نے بڑھایا ہے کل ہی دیکھ رہا تھا ایک نیوز اینکر نے کہا کہ جوانو ں کی شہادت رائیگاں نہیں گئی خون کا بدلہ خون سے لے لیاگیا! کیا جوانوں نے اپنی شہادت کسی انسان کے خون کے لئے دی تھی؟ بالکل نہیں جوانو ں نے شہادت ملک کی حفاظت کے لئے دی ہے اور جوانو ں کی حفاظت کا کام حکومت کا ہے سوال حکومت سے کریں کہ بوڑھی ماں کب تک اپنے بچوں کے آدھے جسم قبول کریں گی حکومت ایک ہی بار میں ٹھوس فیصلہ کیوں نہیں کرتی کب تک ملک جنگ کے سائے میں لہو کی کھیتیاں کرتا رہے گا۔

 سوالات تویہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ انتخابات قریب ہے اس لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے کیونکہ جب سیاست کا لہو کا راستہ اختیار کرتی ہے تو آدم خود ہوجاتی ہے پھر اس میں انسانیت  کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے ۱۹۷۱ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب فضائی حملوں کے حالات بنے اگر یہ حالا ت پلوامہ حملے کی وجہ سے بنے تو پلوامہ حملے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ سرحدیں مرکزی حکومت کی زیر نگرانی میں ہے تو پھر ۳۵۰ کلو دھماکے خیز مادہ ملک میں پہنچا کس طرح ؟ کہیں یہ سیاست کا حصہ تونہیں ؟کئی سوالات اٹھتے ہیں مودی حکومت نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے جنگ کا اعلان کیا ہے آج ہر ملک ایٹمی طور پر مضبوط ہے تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک اسلحہ کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے ہر کوئی کچھ نہ کچھ تباہی کا سامان بنارہاہے ایسے حالات میں دشمن کو حقیر اور کمتر سمجھنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

 یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بھی سوچ لے کہ آپ ملک کی عوام اور فوج کے جوان کی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ کل تک ہم جن گکا مطالبہ کررہے تھے خون کے بدلے خون اور جوانو ں کے سر کے بدلے سر چاہتے تھے آج ائر فورس کے پائلٹ کمانڈر ابھیندن پاکستان کے قبضے میں ہے کیا ہم اب بھی جنگ چاہ رہے ہیں نہیں ہم اب کمانڈر ابھیندن کوصحیح سلامت واپس چاہتے ہیں ۷۰ سال سے ملک کے تعلقات خراب ہوئے ہیں ۳ جنگیں بھی ہوچکی ہیں جو بنا کسی فیصلے کے ختم کی گئی تو اب کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جنگ سے مسئلے کا حل نکلے گا اس جنگ کے بعد یہ معاملہ کبھی نہیں آئے گا۔

ہم پاکستان کے ۱۰ جوان ماریں گے بدلے میں وہ ہندوستان کے دو جوان تو شہید کرینگے کیا ہم دو وجوانو ں کی لاشیں دیکھ کر سکون کی نیند سو سکتے ہیں ابھی کمانڈر ابھینندن زندہ ہے تو ہم ان کی تصویر دیکھ کر لڑرہے ہیں جب لاشیں تابوت میں آئیگی اور اس پر اہل خانہ کا ماتم یہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔ جذبات اور غصہ اپنی جگہ مگر جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں ہے ایک رپورٹ کے مطابق تقسیم ہند کے بعد سے اب تک ۴۲۰۰ سے زائد جوان اس خونی سرحد کی بھینٹ چڑھتے ہیں اور امریکیت حقیق رپورٹ نے ہی ہے کہ اگر پاسکتان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے اور اگر ودنوں ممالک اس میں پندرہ کلو ٹن کے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں تو ان کی زد میں آکر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں اور اس سے زیادہ تعداد میں زخمی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور دونوں ملک کی عوام بھی نہیں چاہتی کہ جنگ ہپہو پچھلے کل سے سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کی جانب سے#say no to war ٹرینڈ چل رہا ہے مسئلہ کتنا بھی سنگین ہو اس کا حل بات چیت میں ہے اور بات چیت سے ہی ختم ہوتا ہے ہم دونوں ملک میں پھر سے خوشگوار ماحول چاہتے ہیں.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔